تھا جانب دل صبح دم وہ خوش خرام آیا ہوا

تھا جانب دل صبح دم وہ خوش خرام آیا ہوا
آدھا قدم سوئے گریز اور نیم گام آیا ہوا


رقص اور پا کوبی کروں لازم ہے مجذوبی کروں
دیکھو تو ہے میرا صنم میرا امام آیا ہوا


دریائے درویشی کے بیچ طوفان بے خویشی کے بیچ
وہ گوہر سیراب وہ صاحب مقام آیا ہوا


اے دل بتا اے چشم کہہ یہ روئے دل بر ہی تو ہے
یا ماہ چرخ ہفت میں بالائے بام آیا ہوا


ہے ذرہ ذرہ پر صدا اہلا و سہلاً مرحبا
کیا سر زمین دل پہ ہے وہ آج شام آیا ہوا


تجھ پر پڑی یہ کی چھوٹ اے چشم حیراں کچھ تو پھوٹ
کیا حد بینائی میں ہے وہ غیب فام آیا ہوا


لرزاں ہے دل میں راز سا شعلہ قدیم آوام سا
یا لالۂ خاموش پر رنگ دوام آیا ہوا


ہے موسم دیوانگی پھر چاک ایجاد مری
لوٹا رہے ہیں پہلے کا خیاط کام آیا ہوا


میری طرف سے اے عزیز دل میں نہ رکھنا کوئی چیز
پھرتے بھی دیکھا ہے کہیں صاحب غلام آیا ہوا


خورشید سامانی تری اور ذرہ دامانی مری
ہے عجوبہ دیکھنے ہر خاص و عام آیا ہوا


اک گرداڑی صحرا سمیت اک موج اٹھی دریا سمیت
دنیائے خاک و آب میں تھا کوئی شام آیا ہوا


یک عمر رفتاری کے ساتھ یک ماہ سیاری کے ساتھ
یک چرخ دواری کے ساتھ گردش میں جام آیا ہوا


صد‌ چشم بیداری کے ساتھ صد سینہ سرشاری کے ساتھ
سو سو طرح شہباز دل ہے زیر دام آیا ہوا