تیز چلو
یہ کہہ رہا ہے دل بے قرار تیز چلو
بہت اداس ہیں زنجیر و دار تیز چلو
جو تھک گئے ہیں انہیں گرد راہ رہنے دو
کسی کا اب نہ کرو انتظار تیز چلو
خزاں کی شام کہاں تک رہے گی سایہ فگن
بہت قریب ہے صبح بہار تیز چلو
تمہی سے خوف زدہ ہیں زمین و زر والے
تمہی ہو چشم ستم گر پہ بار تیز چلو
کرو خلوص و محبت کو رہنما اپنا
نہیں درست دلوں میں غبار تیز چلو
بہت ہیں ہم میں یہاں لوگ گفتگو پیشہ
ہے ان کا صرف یہی کاروبار تیز چلو
خرد کی سست روی سے کسے ملی منزل
جنوں ہی اب تو کرو اختیار تیز چلو