تیرے وعدے کا اختتام نہیں
تیرے وعدے کا اختتام نہیں
کہ قیامت پہ بھی قیام نہیں
بے وفائی تمہاری عام ہوئی
اب کسی کو کسی سے کام نہیں
کس لیے دعویٔ زلیخائی
غیر یوسف نہیں غلام نہیں
وصل کے بعد ہجر کا کیا کام
دور گردوں کا انتظام نہیں
کون سنتا ہے نالہ و فریاد
چرخ کو خوف انتقام نہیں
خال لب دیکھ کر ہوا معلوم
کوئی دانہ بغیر دام نہیں
آپ میں کیوں کہ آؤں جب کہ تو آئے
خلوت خاص بزم عام نہیں
نالہ کرتا ہوں لوگ سنتے ہیں
آپ سے میرا کچھ کلام نہیں
جس جگہ ہے وہاں بھی ہے بہتان
کہ کسی جا ترا مقام نہیں
روز فرقت کو روز حشر نہ جان
شام پر بھی تو اختتام نہیں
ہے خدا ہی قلقؔ جو آج بجھے
صبح ہوتے نہیں کہ شام نہیں