تیرے محل میں کیسے بسر ہو اس کی تو گیرائی بہت ہے
تیرے محل میں کیسے بسر ہو اس کی تو گیرائی بہت ہے
میں گھر کی انگنائی میں خوش ہوں میرے لیے انگنائی بہت ہے
اپنی اپنی ذات میں گم ہیں اہل دل بھی اہل نظر بھی
محفل میں دل کیوں کر بہلے محفل میں تنہائی بہت ہے
غرق دریا ہونا یارو غالبؔ نے کیوں چاہا آخر
ایسی مرگ لا وارث میں سوچو تو رسوائی بہت ہے
دشمن سے گھبرانا عبث ہے غیر سے ڈرنا بھی لا حاصل
کل کا گھاتک گھر کا بھیدی ایک ویبھیشن بھائی بہت ہے
برسوں میں اک جوگی لوٹا جنگل میں پھر جوت جگائی
کہنے لگا اے بھولے شنکر شہروں میں مہنگائی بہت ہے
اپنی دھرتی ہی کے دکھ سکھ ہم ان شعروں میں کہتے ہیں
ہم کو ہمالہ سے کیا مطلب اس کی تو اونچائی بہت ہے
پرسش غم کو خود نہیں آئے ان کا مگر پیغام تو آیا
ہجر کی رت میں جان حزیں کو دور کی یہ شہنائی بہت ہے
دل کی کتابیں پڑھ نہیں سکتا لیکن چہرے پڑھ لیتا ہوں
ڈھلتی عمر کی دھوپ میں ساحرؔ اتنی بھی بینائی بہت ہے