تیرے غم خوار کا معمول خدا ہی جانے
تیرے غم خوار کا معمول خدا ہی جانے
کس قدر رہتا ہے مشغول خدا ہی جانے
ہم نے الفت کا سبق سیکھا ہے دیوانوں سے
اس کا باقاعدہ اسکول خدا ہی جانے
جبہ سائی در جاناں پہ کیا کرتا ہوں
کس لئے کیوں مرا معمول خدا ہی جانے
اجڑے گلشن میں مرے دل کے بہاریں آئیں
داغ دل بن گئے کیوں پھول خدا ہی جانے
آج کل ہم سے وہ خائف ہیں خلاف عادت
جانے کیا ہم سے ہوئی بھول خدا ہی جانے
دیکھتے دیکھتے آصیؔ نے ہدایت پا لی
کس طرح ہو گیا مقبول خدا ہی جانے