تیرے دل میں جو حقارت ہے ترے بس میں نہیں
تیرے دل میں جو حقارت ہے ترے بس میں نہیں
تیرے بچپن کی یہ عادت ہے ترے بس میں نہیں
تم نہیں مانو گے اتنی تو خبر ہے مجھ کو
چار لوگوں پہ حکومت ہے ترے بس میں نہیں
کج سخن ہے تو منافق ہے تو کم ظرف بھی ہے
اس حوالے سے جو شہرت ہے ترے بس میں نہیں
آنکھ میں نیند اترنے ہی نہیں دیتا ہے
خواب زاروں سے جو ہجرت ہے ترے بس میں نہیں
سانس لینے کو بھی اب تیری اجازت چاہوں
ایک ناکام سی حسرت ہے ترے بس میں نہیں
تجھ سے اچھا ہے جو اک عکس تجھے بھاتا نہیں
یہ جو آئینے کی حیرت ہے ترے بس میں نہیں
یہ تری آنکھ کے چھالے ہیں کسی اور سبب
اور چہرے پہ جو وحشت ہے ترے بس میں نہیں