تیرا وہ کرم تیری جفا یاد ہے اب تک

تیرا وہ کرم تیری جفا یاد ہے اب تک
سب کچھ مجھے اے جان حیا یاد ہے اب تک


آیا تھا زباں پر مری کیوں حرف تمنا
کیوں ہو گیا تھا کوئی خفا یاد ہے اب تک


شانوں پہ مرے وصل کی شب خاص ادا سے
رہتی تھی تری زلف رسا یاد ہے اب تک


کہنے پہ مرے آؤ مرے پاس تو بیٹھو
وہ ان کے بگڑنے کی ادا یاد ہے اب تک


آ جاؤ اگر تم تو تمہیں سے کبھی پوچھوں
کیا بھول گیا ہوں مجھے کیا یاد ہے اب تک


برسی تھی جو پیمانہ اٹھاتے ہی ہمارے
کیا تم کو بھی وہ مست گھٹا یاد ہے اب تک


رہتا تھا مرے ہاتھ میں جو دست حنائی
اس ہاتھ کی خوشبوئے حنا یاد ہے اب تک


مدت ہوئی اس کو کہ مری خلوت شب میں
پیغام جو لائی تھی صبا یاد ہے اب تک


تائید میں جس کے تھے دھڑکتے ہوئے دو دل
کیا تم کو وہ پیمان وفا یاد ہے اب تک


تھا سوزؔ سر میکدہ جب کوئی ہم آغوش
وہ صحبت رنگیں بخدا یاد ہے اب تک