تیرا ہی میں گدا ہوں میرا تو شاہ بس ہے (ردیف .. ')
تیرا ہی میں گدا ہوں میرا تو شاہ بس ہے
مجھ شب کی روشنی کوں تجھ رخ کا ماہ بس ہے
سرمہ سے گرد مژگاں صف باندھ کے بٹھی ہیں
شاہ نین کوں تیری یو قبلہ گاہ بس ہے
دل کی شکستگی سوں پایا ہوں بادشاہی
کرنے کوں سروری کے ایسی کلاہ بس ہے
محشر کے خور کی تپ سیں کچھ ڈر نہیں ہمن کوں
زلف سیہ کا سایہ دل کی پناہ بس ہے
دو جا نہیں ہے جگ میں موجود جز خدا کے
اس بات کی شہادت اک لا الہ بس ہے
یکروؔ ہوا ہے پانی سن آبروؔ کا مصرع
''رکھنے کو یوسفاں کے اک دل کی چاہ بس ہے''