تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اب تک کتنے امن معاہدے ہوچکے ہیں؟
خبریں ہیں تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومتی نمائندوں کے مابین افغانستان میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ خبریں ہیں تحریک طالبان پاکستان کے ایک سرکردا رہنما عبدالولی مہمند عرف عمر خراسانی افغانستان میں مارے گئے، خبریں ہیں تحریک طالبان پاکستان خیبر پختون خواہ میں دوبارہ سرگرم ہو رہی ہے اور کچھ مقامی وزرا وغیرہ سے بھتہ وتہ بھی طلب کیا ہے، خبریں ہیں موجودہ طالبانی قائد مفتی نور ولی کی قیادت میں طالبان کے بیشتر دھڑے متحد ہوئے ہیں اور افغان طالبان کی طرز پر اپنی تنظیم سازی کی ہے، خبریں ہیں پاکستانی افواج نے افغانستان میں طالبانی ٹھکانوں پر فضائی حملہ بھی کیا تھا جس پر افغان حکومت نے احتجاج بھی کیا تھا، خبریں ہیں پھر جون میں پاکستان سے جرگہ ورگہ بھی گیا تھا جس نے مذاکرات کا ڈول ڈالا، اب خبریں ہیں پہلے آٹھ رکنی علما کا وفد طالبان سے مذاکرات کے لیے گیا جس کی سربراہی مفتی تقی عثمانی نے کی پھر سترہ رکنی جرگہ بھی افغانستان پہنچا۔
سب خبریں ہیں ،کچھ مصدقہ کچھ غیر مصدقہ۔ ادھر کے کبوتروں کی اڑائی ہوئی اُدھر کے کبوتروں کی پھیلائی ہوئی۔ اور ہم ہیں کچھ سمجھی کچھ نا سمجھی ادھ پہنچی باتوں کے درمیان بوکھلائے ہوئے۔ بس کچھ ایسے ہی حالات میں تحریک طالبان پاکستان کی ڈیڑھ دہائی پر محیط تاریخ پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ سمجھنے کی کوشش کی ہے کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ کیسے کیا؟ اب کیا ہوگا؟ جو سمجھ آیا آپ کو مختصر بتا رہے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد:
کہتے ہیں تحریک طالبان پاکستان دسمبر 2007 میں قبائلی علاقوں میں موجود مختلف مسلح گروہوں کے ملاپ سے تشکیل پائی۔ یہ گروہ پاکستان کے نو گیارہ کے بعد امریکی اتحادی بننے کے خلاف تھے اور سیخ پا تھے کہ آخر پاکستانی افواج قبائلی علاقے جنہیں فاٹا کا نام دیا جاتا تھا، میں کیوں گھس آئیں ہیں۔ وہ امریکہ کے لیے سہولت کار کا کردار کیوں ادا کر رہی ہیں۔ پھر آپ کو پتہ ہے کہ لال مسجد والے واقعے نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔
دسمبر 2007 میں تیس سے چالیس مختلف مسلح عسکریت پسند جماعتوں کے افراد اور کچھ قبائلی عمائدین آپس میں ملے۔ کتاب پاکستان :دا طالبان ،دی القاعدہ اینڈ دا رائز آف ٹیررازم (Pakistan: The Talibn, Alqaida and the Rise of Terrorism)کے مطابق بیت اللہ محسود کو امیر، شمالی وزیر ستان سے حافظ گل بہادر کو نائب امیر، ملا فضل اللہ کو جنرل سیکرٹری منتخب کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ بنیاد ڈالی گئی۔ اس اجلاس میں مولوی فقیر محمد، عمر خراسانی اور مولوی نذیر جیسے مشہور نام بھی موجود تھے۔ کہتے ہیں فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں کی نمائندگی کے لیے کوئی نہ کوئی اس اجلاس میں شریک تھا۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں ہیڈکوارٹر تشکیل پایا۔ بیت اللہ محسود سے پاکستان کی افواج کا ان کی امارت سے پہلے بھی ایک امن معاہدہ ہوا تھا لیکن ناکام ہوا۔ پھر 2008 میں بات چیت ہوتی رہی اور سولہ نکاتی معاہدہ طے پایا۔ یہ بھی کچھ دیر پا ثابت نہ ہوا۔ اگست 2009 میں امریکی ڈرون حملے نے تحریک طالبان پاکستان کے پہلے امیر بیت اللہ محسود کی جان لے لی۔ بیت اللہ محسود کی امارت کے دوران ملک میں خود کش حملے بھی ہوتے رہے، امریکی ڈرونز بھی معصوم شہریوں سمیت عسکریت پسندوں کو مارتے رہے، سکیورٹی افواج بھی اپنا کام کرتی رہی اور امن معاہدے کی کاوشیں بھی ہوتی رہی۔
بیت اللہ محسود کے بعد طالبان کی قیادت حکیم اللہ محسود کے ہاتھ آئی۔ حکیم اللہ کے دور میں سکیورٹی افواج نے اپنے آپریشنز کا دائرہ خاصا وسیع کر لیا تھا۔ سوات آپریشن بھی انہیں کے دور میں ہوا۔ ان کا دور وہ دور تھا جب پورے پاکستان میں کسی بھی وقت کہیں بھی بم دھماکے کی خبر آ سکتی تھی۔
یکم نومبر 2013 کو امریکی ڈرون نے دوسرے طالبان امیر کو بھی ابدی نیند سلا دیا۔ اب طالبان کی قیادت مولوی ریڈیو کے نام سے مشہور ملا فضل اللہ کے ہاتھ آئی۔ ملا فضل اللہ ایک سخت گیر اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اخذ شدہ شریعت کے نفاذ پر مصر کمانڈر تھے۔ وہ نوے کی دہائی سے تحریک نفاذ شریعت محمدی چلاتے صوفی محمد کے داماد تھے۔ 2009 میں سوات میں ملا فضل اللہ نے طاقت پکڑی تو مبینہ طور پر گھروں میں سے ٹی وی نکال کر توڑے، خواتین کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کی، مردوں کی داڑھی کٹوانے پر پابندی لگائی۔ شہر میں موجود سٹوڈیوز، ڈی وی ڈی،اور کیسٹوں وغیرہ کی دکانیں توڑوائیں۔ انہیں کے سخت گیر اقدامات کی بنیاد پر سکیورٹی افواج نے سوات آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
اب یہی ملا فضل اللہ طالبان امیر بن چکے تھے۔ لیکن کہتے ہیں طالبان گروہ ان کے دور میں خاصے تتر بتر ہونے لگے تھے۔ جیسے مبینہ طور پر 2014 میں عمر خراسانی نے الاحرار نامی گروہ بنا لیا۔ 2014 میں ہی آپریشن ضرب عصب ہوا اور اسی سال کے آخر میں آرمی پبلک اسکول کا دلخراش سانحہ پیش آیا۔ مبینہ طور پر اس کے ماسٹر مائنڈ عمر خراسانی تھے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طالبان قیادت اس سانحے پر سخت نالاں تھی۔ خاصی متضاد اطلاعات ہیں اس سانحے کی ذمہ داری کے بارے میں۔لیکن کہتے ہیں جرنل راحیل شریف کے دور میں آپریشن ضرب عصب نے طالبان کی کمر توڑ دی اور وہ اپنے بہت سے مضبوط علاقے چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ یہ سکیورٹی افواج کا کامیاب ترین آپریشن تھا۔ کیونکہ اب افواج اپنے سابقہ تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی۔ 2018 میں ملا فضل اللہ بھی امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کے دور میں مبینہ طور پر طالبان کمزور ہوئے۔ پاکستانی افواج نے انہیں خاصا تتر بتر کر دیا۔ ان کے آپس میں اختلافات بھی ان کی کمزوری کا باعث بنے۔ لیکن پھر مفتی نور ولی محسود نے قیادت سنبھال لی۔
ان کے دور میں طالبان ایک دفعہ پھر متحد ہونے شروع ہوئے۔ پاکستانی افواج پر حملے بڑھنے لگے۔ طالبان کی افرادی قوت میں اضافہ ہونے لگا۔ 2021 سے نور ولی محسود کے ساتھ ایک دفعہ پھر مذاکرات جاری ہیں۔ ایک عارضی جنگ بندی بھی ہو چکی ہے۔ لیکن اب تک کوئی امن معاہدہ سامنے نہیں آ سکا۔ کہتے ہیں موجودہ افغان حکومت امن مذاکرات میں تعاون کر رہی ہے۔ باقی مصدقہ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں اب تک کی کہانی کی جو جاری ہے۔
امن معاہدے اور اہم سکیورٹی آپریشنز:
2001 میں امریکہ نے افغانستان میں آپریشن انڈیورنگ فریڈم enduring freedom کا آغاز کیا تو ادھر پاکستانی افواج اور عسکری گروہوں کے مابین جھڑپیں اور امن معاہدے ہونے اور پھر ٹوٹنے لگے۔ رپورٹس کے مطابق اب تک سات آٹھ امن معاہدے ہو کر ٹوٹ چکے ہیں اور ان سے کہیں بڑھ کر چھوٹے اور بڑے آرمی آپریشن۔
آپریشن المیزان پاکستانی افواج کا پہلا بڑا آپریشن تھا جو 2002 سے 2006 تک پانچ سال جاری رہا۔ اس آپریشن کا مرکز وزیرستان اور اس سے ملحقہ فاٹا کی ایجنسیز تھا۔ دی نیوز انٹرنیشنل کے مطابق پہلا امن معاہدہ 2004 میں مولوی نیک محمد کے ساتھ سامنے آیا۔ یہ معاہدہ مارچ سے اپریل 2004 کے آپریشن کے بعد تھا جس میں نیک محمد پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ چیچنیا، عرب اور ازبک جنگجوؤں کو جنوبی وزیرستان سے نکالیں۔ یہ ناکام ہوا۔ پھر 2005 میں بیت اللہ محسود کے ساتھ سراروگا معاہدہ سامنے آیا۔ پھر 2006 میں شمالی وزیرستان میں سرگرم کمانڈر حافظ گل بہادر کے ساتھ معاہدہ ہوا۔ یہ مئی 2007 تک چلا لیکن ٹوٹ گیا۔ دسمبر میں مختلف جنگجو گروہ ایک جھنڈے تلے آ چکے تھے جس کا نام تحریک طالبان پاکستان تھا۔ طالبان کے ساتھ پہلا معاہدہ 2008میں سامنے آیا۔ 2008 میں ہی باجوڑایجنسی میں مولوی فقیر محمد کے ساتھ معاہدہ بھی ہوا۔ لیکن 2009 میں جنگجوؤں کی شدید کاروائیوں، بیت اللہ محسود کے مارے جانے اور فورسز اور جنگجووں کے مابین عدم فضا نے امن کی کاوشوں پر بہت پانی پھیرا۔
امن معاہدے کی کاوشیں اور ٹوٹنے پر آرمی آپریشن کی کیفیات 2014 میں ضرب عصب تک جاری رہیں۔ لیکن پھر ریاستی پالیسی میں سختی آ گئی۔ خاص طور پر اے پی ایس کے سانحے کے بعد۔ آپریشن زلزلہ، آپریشن شیر دل، راہ نجات، آپریشن راہ حق چند بڑے آپریشنز ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے آپریشن فاٹا جنوبی اور شمالی وزیرستان ، سوات وغیرہ میں ہوتے رہے۔ ضرب عصب کے بعد رد الفساد سامنے آیا۔ افواج کی سخت کاروائی کے بعد بیشترٹی ٹی پی کے لوگ، خاص طور پر ان کے سرکردہ رہنما افغانستان منتقل ہو چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہیں سے وہ افواج کے خلاف اپنی کاروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب پھر جنگ بندی کی کاوشیں جاری ہیں۔ امید ہے اچھی خبر سامنے آئے گی۔
حاصل کلام:
چاہے کاروائی فاٹا میں افواج کریں، امریکی یا طالبان، اصل نقصان اٹھانے والے وہاں کے مقامی عام عوام ہوتے ہیں۔ دو دہائیوں کے درمیان ان کی زندگی تل پٹ ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اصل مظلوم ہیں اور دنیا کی توجہ بھی نہیں ہے۔ وہ اذیت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے لیے دو دہائیوں کے درمیان آرمی آپریشنز ہیں، طالبان کی عسکری کاروائیاں ہیں اور امریکی ڈرون ہیں۔ جان مال عزت آبرو سب داؤ پر لگا ہے۔ سوات کا علاقہ جو کبھی پاکستان کا سوئیزرلینڈ کہلاتا تھا اب تمام سیاحت سے ماند پڑ چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کیسے بھی ان علاقوں کی وہی زندگی لوٹے جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔