تحریک اعتماد، دنیا بھر میں کب کب، کس کس کو لے بیٹھی؟
دنیا میں تحریک عدم اعتماد پارلیمانی جمہوری سیاست کی شطرنج کا وہ مہرہ ہے جو اقتدار کی غلام گردشوں میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں خاصا اہم رہتا ہے۔ یہ مہرہ گزشتہ تین صدیوں سے سیاسی ایوانوں میں حل چل مچاتا کئی وزرائےاعظم کے ہاتھ سے طاقت کا قلمدان چھین چکا ہے۔ اس نے جنم پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ کی کوکھ سے 1782 میں لیا ، جب برطانوی وزیر اعظم لارڈ نورتھ کو امریکی جنگ آزادی ہارنے پر استعفیٰ دینا پڑ گیا تھا۔ آج یہ پاکستان، آسٹریلیا، بھارت، کینیڈا، برطانیہ سمیت کئی ممالک کے آئین کا حصہ ہے۔ کئی وزرائےاعظم اس کا شکار ہوئے ہیں اور کئی اس کی بھٹی سے بچ نکلنے کے بعد کندن بن کر نکلے ہیں۔
پاکستان میں یہ یکم نومبر 1989 کا دن تھا جب پہلی بار تحریک عدم اعتماد کا مہرہ چل کر ناکام ہوا۔ بے نظیر اپنے اتحادیوں سمیت 236 اراکین کی قومی اسمبلی میں موجود تھیں، جب انہوں نے بارہ ووٹوں سے اسے شکست دی۔ اسی طرح دوسری بار 2006 میں اسے وزیر اعظم شوکت عزیز کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اب کی بار دس اپریل 2022 کو یہ کپتان وزیر اعظم عمران خان کو خاصی سیاسی ہل چل کے بعد کلین بولڈ کر گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی تاریخ کے وہ تیئسویں وزیر اعظم ہیں جو اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر پائے۔
ہمسائے میں اگر دیکھیں تو ستائیس سے زائد مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی ہے۔ پندرہ دفعہ تو صرف وزیراعظم اندرا گاندھی کے خلاف ہی پیش ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ لال بہادر شاستری، اٹل بہاری واجپائی، نرسیماہا راؤ، ڈیسائی، راجیو گاندھی، جواہر لال نہروو اور موجودہ وزیر اعظم نرندرا مودی اس کا سامنا کر چکے ہیں۔
بھارت سے ہٹ کر اگر دنیا کی بات کریں تو تحقیق بتاتی ہے کہ سو سے زائد سربرہان مملکت یا حکومت اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر ملک میں اس تحریک کا طریقہ کار مختلف ہے۔ برطانیہ میں تحریک عدم اعتماد دو اقسام کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جس میں کسی وزیر یا وزیر اعظم کے خلاف اسے پیش کیا جاتا ہے اور کامیابی کی صورت میں اسے اقتدار سے ہٹنا پڑتا ہے ۔ دوسری قسم میں یہ پوری حکومت کے خلاف پیش کی جاتی ہے۔ حکومت کو پھر چودہ روز کے اندر ایوان کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے، نہیں تو نئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والی آخری وزیراعظم محترمہ ٹریسا مے تھیں جو کہ 2018 میں اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ تاریخ برطانیہ کی دوسری خاتون وزیر اعظم تھیں، ان سے پہلے مارگریٹ ٹھیچر تھیں۔
اسی طرح کینیڈا بھی ایک جمہوری پارلیمانی ملک ہے۔ اس میں پانچ وزرائےاعظم عدم اعتماد کی تحریک کا شکار ہو چکے ہیں۔ آخری وزیر اعظم سٹیون ہارپر 2011 میں اعتماد کے ووٹ کھونے کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی ہار گئے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی اس کا سامنا کیا تھا لیکن وہ اعتماد کے ووٹ اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے خلاف محاذ آرائی پچھلے سال 2021 میں بجٹ پر ہوئی تھی۔ لیکن وہ پارلیمان کے 121 اکثریتی ووٹ حاصل کر کے بچ گئےتھے۔
آسٹریلیا میں عدم اعتماد کے ووٹ کا نشتر ایک وزیر اعظم میلکم فریسر کی کرسی شکار کر چکا ہے۔ آسٹریلیا میں کچھ وزرائےاعظم ایسے بھی ہیں جو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر خود ہی اقتدار چھوڑ گئے تھے یعنی استعفیٰ دے گئےتھے۔ بنگلہ دیش میں عدم اعتماد کی صورتحال خاصی دلچسپ ہے۔ وہ ایک جمہوری پارلیمانی ریاست تو ہے، لیکن اقتدار میں موجود پارٹی کے اراکین کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کر سکیں۔ ان کے ہاں عدم اعتماد کی تحریک کے طریقہ کار کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل ستر (70) اراکین کو اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کرنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا وہاں کسی وزیر اعظم کو اس سے شکار کرنے کا امکان موجود نہیں۔ بنگلہ دیش کے آئین کا آرٹیکل ستر شاید ہمارے آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے بی (63AB) کی طرح ہے۔ لیکن بد قسمتی یا خوش قسمتی سے ہمارے آئین میں آرٹیکل پچانوے بھی ہے جو عدم اعتماد کی تحریک کا طریقہ کار وضع کرتا ہے۔ یہی اب روبہ عمل آیا ہے اور کل کے حزب اختلاف کو حکومت اور حکومت کو حزب اختلاف بنا گیا ہے۔