تحریک عدم اعتماد مستقل غیر یقینی کیفیت کو کیسے جنم دے گی؟

بھائی یہ روس نیٹو تنازعے سے کہیں سرد جنگ تو نہیں شروع ہو جائے گی؟۔۔۔   چپ چپ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آ گئی ہے۔

بھائی مہنگائی سے اپنی جان نکل رہی ہے۔۔۔ چپ چپ، قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آ گئی ہے۔

بھائی کووڈ نے تعلیم کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ کیا معیار تعلیم کو بہتر  کرنے کے لیے حکومت کچھ کرے گی؟ ۔۔۔ چپ چپ، تحریک عدم اعتماد آ گئی ہے۔

ترکی اسرائیل کی طرف بڑھا، ایران کی نیوکلیر ڈیل پر سیاستیں ہوئیں، روس پر پابندیاں لگیں،  اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی پر دل دہلا دینے والی رپورٹ آئی ،بھارت میں یو پی کے انتخابات ہوئے، مقامی طور پر بم دھماکے ہوئے، چیزوں کی قیمتیں چڑھیں، لوگ بلبلانے لگے، سٹاک مارکٹ چڑھی گری۔ بہت کچھ ہوا لیکن چپ رہو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آ گئی ہے۔ کیوں چپ رہو۔ اس  لیے کے سننے والوں کو اپنی پڑ گئی ہے۔

کچھ نیا نہیں، سب پرانا۔ وہی حکومت کی بقا کی جنگ اور اپوزیشن کی باری لینے کی۔ نہ ان کو پتہ کہ کیا ہوگا، نہ ہمیں۔ سیاسی غیر یقینی کی صورتحال۔   ہائے کاش سکرپٹ ہی بدل جائے، کچھ تو تماشے میں مزا ہو۔

خیر!

اب تماشالگ ہی گیا ہے تو طالب علم کی حیثیت سے سمجھتے ہیں کہ یہ سب تماشا ہے کیا اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

پاکستان کی  آئینی اور پارلیمانی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف یہ تیسری تحریک عدم اعتماد ہے۔ اس سے پہلے 1989 میں بے نظیر صاحبہ کے خلاف آئی تھی اور 2007 میں جناب شوکت  عزیز صاحب کے خلاف۔ الحمدللہ دونوں ناکام ہوئیں تھیں۔  ان ناکامیوں کی سیاسی کے ساتھ ساتھ کچھ آئینی وجوہات تھیں۔ ہم اس مضمون میں صرف  آئینی وجوہات  پر  بحث کریں گے کیونکہ یہی وجوہات آج بھی حکومت کو فائدہ دے رہی ہیں۔ انہیں کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ حکومت  کی ٹوکری میں  خاصے انڈے ہیں۔

کسی وزیر اعظم یا پارلیمان کے سربراہ، یا  ریاست پاکستان کے چیف ایکزیگٹو یا آئین کے مطابق سب سے طاقتور شخصیت کے خلاف  عدم اعتماد  کے ووٹ کا حق ہمارے قومی اسمبلی کے  اراکین کو آئین کی شق پچانوے دیتی ہے۔

یہ شق بتاتی ہے کہ قومی اسمبلی کے کم از کم بیس فیصد اراکین وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے   قومی اسمبلی میں قرارداد عدم  اعتماد جمع کروائیں گے۔    مزید شق 95.1 بتاتی ہے کہ اس قرارداد کے آنے کے بعد جو ووٹنگ ہوگی وہ تین سے سات دن کے اندر اندر ہوگی۔ موجودہ صورتحال میں، آٹھ مارچ 2022 کو منگل کے دن اپوزیشن کے وفد نے یہ قرارداد قومی اسمبلی میں جمع کروائی۔  اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئین  کی شق چون (54) کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کو بھی کہا جو کہ ابھی جاری نہیں تھا۔ آئین کی شق چون (54) کے مطابق، اگر ایک چوتھائی، یعنی پچیس فیصد اراکین اسمبلی اگر  اسپیکر کو اجلاس بلانے کا کہیں تو وہ پابند ہے کہ چودہ روز کے اندر اندر اجلاس بلا لے۔

یہاں ہماری کہانی میں ذرا ٹوسٹ آیا ہے۔   وہ یہ کہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی قرارداد  تو جمع کروا دی ہے جس پر ووٹنگ آئین کے مطابق تین سے سات دن کے اندر اندر ہونا ہے، لیکن اجلاس تو جاری ہے نہیں، اور نہ ہی اسد قیصر جو ہماری قومی اسمبلی کے اسپیکر ہیں، نے ابھی تک اجلاس بلایا ہے۔ پھر ووٹنگ کہاں سے ہوگی؟

اب ذرا یہ بات سمجھیں کہ اپوزیشن کے قائدین نے آٹھ مارچ کو  قرارداد عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ ساتھ اس کے آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق اسد قیصر صاحب کو کہا تھا، جناب قومی اسمبلی کا اجلاس بلوائیں۔  اب چونکہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل چون کے مطابق اجلاس بلوانے کو کہا ہے، لہٰذا وہ پابند ہیں کہ چودہ روز کے اندر اندر اجلاس بلوا لیں۔ اب یہ درخواست آٹھ مارچ کو  کی گئی تھی تو قیصر صاحب پابند ہیں کہ بائیس مارچ تک اجلاس بلوا لیں  اور  تئیس مارچ کو اجلاس شروع ہو جائے۔ تئیس مارچ کو اگر اجلاس شروع ہوتا ہے تو ووٹنگ  چھبیس سے تیس مارچ کے درمیان ہوگی۔

اس سے آگے کی کہانی کیا ہے  بھلا۔ اپوزیشن کو  آئین کے مطابق سادہ اکثریت  لینا ہے وزیر اعظم کو  ہٹانے کے لیے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے کل اراکین 342 ہیں۔ 342 کا نصف، یعنی پچاس فیصد ہوا 171۔ سادہ اکثریت سے مراد ہے کہ اپوزیشن کو کم از کم 172  اراکین اسمبلی کو منانا ہے کہ  ان کا ساتھ دیں۔  اب اگر وہ 172 اراکین اسمبلی کو منانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عمران خان حکومت ختم کر کے اپوزیشن بینچوں پر آ جائیں گے۔

ابھی ٹھہریے! کہانی ختم  نہیں ہوئی۔  ابھی کچھ مزید ٹوسٹ باقی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان  کی حکومت ختم  ہونے کا سوال ہے۔ چیزیں اتنی سادہ تو نہیں رہیں  گی ناں۔ اگر  اپوزیشن عمران خان کو کرسی سے اتار بھی لیتی ہے تو بھی یقین نہیں ہے  کہ وہ اپنی من چاہی حکومت لا سکے گی۔  بھلا وہ کیسے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔

اپوزیشن کے پاس  161 سیٹیں اپنی موجود ہیں۔ سادہ اکثریت کے لیے انہیں گیارہ  سیٹیں چاہییں۔ یا تو وہ حکومتی اتحادی پارٹیوں، یعنی بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، جی ڈی اے وغیرہ سے یہ ووٹ حاصل کر لے یا پھر حکومتی  پارٹی  تحریک انصاف کے اراکین سے۔ کوئی بھی  اتحادی پارٹی ابھی تک مکمل طور پر اپوزیشن کے ساتھ کھڑی نظر  نہیں آ رہی۔ البتہ تحریک انصاف کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن کیا تحریک انصاف کے اراکین اپوزیشن کا ساتھ د یں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت وزیر اعظم عمران کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس طرح کہ آئین کا ایک آرٹیکل ہے 63اے  یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی لائن کے خلاف کوئی قدم اسمبلی میں اٹھاتا ہے تو وہ پارٹی سربراہ کی طرف سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ ہیں عمران خان۔ وہ کہتے ہیں مجھے ووٹ دو۔ اگر رکن اسمبلی انہیں ووٹ نہیں دیتا تو وہ اسے فارغ کر سکتے ہیں۔  یعنی اگر اپوزیشن حکومتی اراکین کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو بھی عمران خان ان اراکین جنہوں نے اپوزیشن  کا ساتھ دیا ، کی رکنیت ختم کروا کر آئینی بحران پیدا کر سکتے  ہیں۔ جب آئینی بحران ہو گا تو اپوزیشن اپنا من چاہا وزیراعظم تو نہیں لا سکے گی ناں!

چلیں اگر عمران خان کچھ نہیں کرتے تو صدر عارف علوی کچھ کر سکتے ہیں۔ آئین نے صدر مملکت کو یہ اختیار دیا ہے کہ ووٹ آف نو کانفیڈنس یعنی عدم اعتماد کے بعد اگر وہ خیال کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں کوئی  ایسا رکن نہیں  جو وزارت عظمیٰ  حاصل کر سکے تو وہ اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ اگر اسمبلی ٹوٹتی ہے تو اپوزیشن کی  عام انتخابات کی خواہش تو بر آئے گی لیکن وہ ابھی کے لیے حکومت نہیں بنا سکے گی۔

ان سب حالات میں کیا وزیر اعظم اپنی حکومت برقرار رکھ پائیں گے، یہ غیر یقینی ہے تیس مارچ تک۔ اگر وزیر اعظم عمران خان فارغ ہوتے ہیں تو وہ کیا کریں گے، یہ غیر یقینی ہے تیس مارچ کے بعد جانے کب تک۔ تیس مارچ کے بعد کے حالات میں صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کا موقع ملتا ہے یا نہیں، یہ بھی غیر یقینی ہے جانے کب تک۔   چلیں اگر دو تین ماہ تک کچھ سیاسی صورتحال واضح بھی ہوتی ہے تو چند ماہ ہی ہوں گے اس اسمبلی کے پاس باقی۔ پھر وقت ہو جائے گا نئے عام انتخابات کا۔ جب تک پھر نئی حکومت نہیں آئے گی تب تک رہے گی غیر یقینی۔

               یہ ہے المیہ ہماری اب تک کی تاریخ کا۔ کسی چیز کا کچھ یقین نہیں۔ یقین ہے تو صرف اس چیز کا کہ غیر یقینی ہے۔ ہاں! اس سب صورتحال پر مجھے تو معروف فلم چل میرا پت کا لازوال فقرا ہی کہنے کو دل کرتا ہے:

"فیر  کہندے ہو بوٹا گالاں کڈدا ہے!"

متعلقہ عنوانات