تیغ شمشیر یا خنجر کی ضرورت کیا ہے
تیغ شمشیر یا خنجر کی ضرورت کیا ہے
جنگ جب خود سے ہو لشکر کی ضرورت کیا ہے
جس نے سمجھا مجھے باہر سے ہی سمجھا صاحب
کس کو معلوم کہ اندر کی ضرورت کیا ہے
گر ترا قرب میسر ہو تو اے جان ادا
سرد راتوں میں بھی بستر کی ضرورت کیا ہے
بے وفائی کا تری زخم کوئی کم تو نہیں
چوٹ دینی ہو تو پتھر کی ضرورت کیا ہے
قید رکھتا ہے جو طوفان کو اپنے اندر
ایسے قطرے کو سمندر کی ضرورت کیا ہے
اس کو سجدہ تو زمیں عرش سبھی کرتے ہیں
اس کے قدموں کو مرے سر کی ضرورت کیا ہے