طویل خطبے دینا مناسب نہیں

ابووائل کہتے ہیں کہامیر المومنین   سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور بہت مختصر اور نہایت بلیغ دیا۔  پھر جب وہ منبر سےاترے  تو ہم نے کہا: اے ابوالیقظان! آپ نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا اور اگر آپ ذرا اس خطبہ کو طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا اور بعض بیان میں  جادو ہوتا ہے۔ (یعنی تاثیر رکھتا ہے)۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر  869

 

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خطبہ دیا اور لمبی چوڑی گفتگو کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خطبوں میں بہت زیادہ باتیں  کرنا شیطانی فضولیات میں سے ہے۔

الأدب المفرد 876 وصححه الالباني

مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ بیس منٹ کے قریب ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ فیصل آباد میں خطبہ جمعہ پڑھایا اور حسب عادت بیس پچیس منٹ بعد ختم کر کے بیٹھ گئے۔

ایک مقامی شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا:

آپ نے اتنی جلدی  میں جمعے کا خطبہ ختم کر دیا؟

انھوں نے کہا: جی ہاں، میں جو عرض کرنا تھا وہ سب تو  کہہ دیا ہے۔

وہ بولا: ہمارے خطیب صاحب تو دو بجے تک خطبہ دیتے ہیں۔!

انھوں نے کہا: وہ جمعہ نہیں پڑھاتے، خطبے کا جنازہ پڑھاتے ہیں۔!!

ایک سائل نے ان سے ایک دفعہ تحریراً سوال پوچھا:

ہمارے خطیب صاحب جمعہ شروع کرتے ہیں تو ختم کرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ وقت سے گھنٹہ ڈیڑھ  گھنٹہ زائد بھی ہو  جاتا ہے۔

جواب دیا: ایسے خطیب کو پکڑ کر منبر سے نیچے اتار دیں، کیونکہ وہ سنت کے خلاف عمل پیرا ہے۔

 

ہمارے یہاں عمومی یہ رویہ ہے کہ خطیب حضرات جوشِ خطابت میں جمعے کی نماز کو موخر سے موخر تر کر دیا جاتا ہے ۔ خطبہ اس قدر طویل ہو جاتا ہے کہ جمعے کی نماز کا طے شدہ اور مقررہ وقت بہت پیچھے رہ جاتا پے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایک مسجد میں جمعے کی نماز اور پاس والی کسی مسجد میں عصر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے۔ اتحاد امت جب وقت کی پکار ہو تو یہ منظر تفرقے کا بد ترین پہلو پیش کرتا ہے۔