طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئی ہے
مرے خیالوں میں آج بھی خواب عہد رفتہ کے جاگتے ہیں
تمہارے پہلو میں کاہش یاد پاستاں تھک کے سو گئی ہے
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ نظریے ہی بدل گئے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں تھک کے سو گئی ہے
سحر کی امید اب کسے ہے سحر کی امید ہو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں تھک کے سو گئی ہے
نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ہوں کہ مجھ کو راہیؔ
خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئی ہے