طوائف
اے زن ناپاک فطرت پیکر مکر و ریا
دشمن مہر و وفا غارت گر شرم و حیا
تیری ہو شوخی لچر ہے تیرا ہر انداز پوچ
سخت تر ہے سنگ و آہن سے تری باہوں کا لوچ
تیرا ظاہر خوش نما ہے تیرا باطن ہے سیاہ
ہر ادا تیری مکمل دعوت جرم و گناہ
تیری چٹکی کی صدا ہے یا کہ شیطاں کا خروش
رحم کر انسانیت پر او بت عصمت فروش
الاماں اے تیرے مصنوعی تبسم کا فریب
تھرتھرا اٹھتی ہے جس کے زور سے نبض شکیب
یہ نزاکت کی نمائش یہ فریب آمیز چال
دوش ہستی پر تیرا ناپاک ہستی ہے وبال
تیرے ہر غمزے کی تہ میں ہے بناوٹ کا شکوہ
جس کے آگے سر بہ سجدہ معصیت کے دشت و کوہ
تیرا چہرہ ارغوانی تیرا دل بے آب و رنگ
زندگی کیا ہے تری قانون سے فطرت کے جنگ
تیری پیشانی کا ہر خط معصیت آلودہ ہے
تیرا ہر اقدام نا فرجام ہے بے ہودہ ہے
تیرے ہونٹوں پر ہنسی ہے دل ترا افسردہ ہے
تو بظاہر جی رہی ہے روح تیری مردہ ہے
تو حصول زر کی خاطر کس قدر بے چین ہے
کسب دولت زندگی کا تیری نسب العین ہے
تیرے مذہب میں حفاظت آبرو کی ہے گناہ
مانگتی ہے تیری باتوں سے نسائیت پناہ
تیرا دل ہے زنگ آلودہ مگر چہرہ ہے صاف
تیرے ظاہر اور باطن میں ہے کتنا اختلاف
جانتی ہے اپنی رسوائی کو تو وجہ نمود
صنف نازک کی کھلی توہین ہے تیرا وجود
تیری بیداری نہیں ہے اک مسلسل خواب ہے
کیا تو واقف ہے کہ عصمت گوہر نایاب ہے
جانتا ہوں تیری باہوں کی لچک کو بد شعار
کیوں دکھاتی ہے جڑاؤ کنگنوں کو بار ابر
میری نظروں کو خدا را دعوت کاوش نہ دے
جگمگاتے موتیوں کے ہار کو جنبش نہ دے
ریشمیں رومال سے ہونٹوں کی سرخی کو نہ چھو
مجھ پہ چھل سکتا نہیں تیرا فریب رنگ و بو
زلف مشکیں کو حنائی انگلیوں سے مت سنبھال
کھل چکا ہے میری نظروں پر تیرا راز جمال
ریشمیں ساڑی کو سر سے خود ہی ڈھلکاتی بھی ہے
بالارادہ بے حیائی کر کے شرماتی بھی ہے
سسکیاں بھرتی ہے تو انگڑائیاں لیتی ہے تو
اف اے مکارہ بھری محفل کو جل دیتی ہے تو
کوئی ہو جاتا ہے جب تیرے تصنع کا شکار
چپکے چپکے کام کرتا ہے فریب آمیز پیار
تو دلا دیتی ہے اس کو اپنی الفت کا یقیں
سچ تو یہ ہے تیرے کاٹے کا کوئی منتر نہیں
زندگی کو اس کی یکسر تلخ کر دیتی ہے تو
کانپ جاتا ہے جگر وہ چٹکیاں لیتی ہے تو
بھاگتا ہے جیسے کوئی سانپ کی پھنکار سے
دور رہنا چاہیے یوں ہی ترے کردار سے