توفیق سے کب کوئی سروکار چلے ہے
توفیق سے کب کوئی سروکار چلے ہے
دنیا میں فقط طالع بیدار چلے ہے
ٹھہروں تو چٹانوں سی کلیجے پہ کھڑی ہے
جاؤں تو مرے ساتھ ہی دیوار چلے ہے
ہر غنچہ بڑے چاؤ سے کھلتا ہے چمن میں
ہر دور کا منصور سر دار چلے ہے
رنگوں کی نہ خوشبو کی کمی ہے دل و جاں کو
توشہ جو چلے ساتھ وہ اک خار چلے ہے
دل کے لیے بس آنکھ کا معیار بہت ہے
جو سکۂ جاں ہے سر بازار چلے ہے
حیرت سے شگوفوں کی جھپکتی نہیں آنکھیں
کس آن سے کانٹوں کا خریدار چلے ہے
خورشید وہاں ہم نے سلگتے ہوئے دیکھے
کرنوں کا جس آشوب میں بیوپار چلے ہے
اک جنبش مژگاں کی اجازت بھی نہیں ہے
دل ساتھ چلا ہے کہ ستم گار چلے ہے
تھے خضر بھی لاکھوں یہاں عیسیٰ بھی بہت تھے
آزار جو دل کا ہے سو آزار چلے ہے