تصویر خوش آداب ہے دریا کے کنارے
تصویر خوش آداب ہے دریا کے کنارے
یا حسن جہاں تاب ہے دریا کے کنارے
اک گوہر خوش تاب ہے دریا کے کنارے
یا دیدۂ بے خواب ہے دریا کے کنارے
آنکھوں میں ہے اک جلوۂ شفاف مسلسل
اور ذہن میں گرداب ہے دریا کے کنارے
اس شوخ کی انگڑائی کا ہے عکس سر شام
یا سایۂ محراب ہے دریا کے کنارے
ہر آنکھ پئے دید جو اٹھتی ہے بصد شوق
گویا کوئی مہتاب ہے دریا کے کنارے
ہے عشق کی لکھی ہوئی پاکیزہ عبارت
یا حسن کا اک باب ہے دریا کے کنارے
دیکھا جو خطیبؔ اس کا سراپا سر منظر
دل صورت سیماب ہے دریا کے کنارے