تصوف کیا ہے اور صوفی کون ہے؟
رم جھم بارش کے بعد جیسے ہی دھوپ نکلی میں گھر سے باہر آگیا۔ نرم، سبز گھاس پر موتیوں کی سفید بے ترتیب لڑیاں بکھری پڑی تھیں۔ میں نے چاہا انھیں اپنی ہتھیلیوں میں سمیٹ لوں مگر وہ بکھر گئے۔ بہت دیر تک میں اس کے لئے کوشاں رہا مگر کچھ حاصل نہ ہوااور ایک بھی موتی کا دانا میرے حصے میں نہ آیا۔ دماغ نے کہا نادان کبھی پانی کے قطرے سمیٹے جاتے ہیں۔ تیری ہر کوشش بیکار جائے گی، یہ موتی نہیں پانی کے قطرے ہیں جو چمک کر تجھے فریب دے رہے ہیں۔ ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھا اور ان حسین موتیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جسے بارش نے گھاس پر بکھیر رکھے تھے کہ میرے بچے نے کرتے کا دامن کھینچ کر آسمان کی جانب متوجہ کیا۔ میں نے دیکھا اوپر قوس قزح کے سات رنگ بکھرے پڑے تھے۔ قدرت کی پینٹنگ کا وہ دلکش نظارہ میری نگاہوں کے سامنے تھا جو بے خود کئے دے رہا تھا۔ میرا جی چاہا فضا میں اڑ جائوں اور اندر دھنش کو اتار کر زمین پر لائوں۔ جو دور سے اتنا حسین لگ رہا تھا وہ قریب سے کتنا دلکش ہوگا۔ اس کے رنگوں کو اگر لاکر دیواروں پر لگادیا جائے تو کتنی خوبصورت اور جاذبِ نظر لگیں گی یہ دیواریں۔ میری نگاہیں بادلوں پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ قدرت کے شاہکار میں الجھا ہوا تھا کہ پھر موسم کا رنگ بدلا اور وہ اندر دھنش کہیں غائب ہوگیا۔ اب میری نظر گھاس پر پڑی تو پانی کے وہ موتی بھی اپنا وجود کھو چکے تھے، جو ابھی کچھ دیر پہلے تک چمک رہے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ جو موتی مجھے نظر آرہے تھے ان کا کوئی وجود نہ تھا اور جو اندردھنش مجھے دکھائی دے رہا تھا وہ بھی بس میری نگاہوں کا دھوکا تھا۔ سوال یہ ہے اس دنیا میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، اس میں کتنا کچھ حقیقت ہوتا ہے اور کیا کیا فریب نظر؟ ہماری یہ زندگی بھی کیا پانی کے اس موتی سے کچھ الگ ہے جسے ہم گھاس پر بکھرا اور پتیوں پر اٹکا ہوا دیکھتے ہیں۔ زندگی کے رنگوں کی حقیقت کیا قوس قزح کے دلفریب رنگوں سے کچھ الگ ہے جو ہمیں نظر تو آتے ہیں مگر ان کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سچ پوچھو تو اس دنیا کی حقیقت بس اللہ کا وجود ہے کیونکہ وہی باقی ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ سب قوس قزح کے خوبصورت رنگوں کی طرح ہے جو اپنی دلکشی سے ہمیں فریب تو دے سکتا ہے مگراس کا وجود فانی ہے۔ کوئی گھاس پر بکھرے ہوئے اوس کے موتی کی طرح چند لمحوں کا مہمان ہے تو کوئی اندردھنش کی طرح ہمیں دلفریب نظر تو آتا ہے مگر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ازلی حقیقت بس ایک ہے اور وہ ہے خالق ومالک کی ذات، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔
باقی اس دنیا کی تمام چیزیں چند لمحوں کی مہمان ہیں، ایک جھلک دکھا کر اپنی جانب متوجہ کریں گی اور پھر ہمیشہ کے لئے غائب ہوجائیں گی۔ اسی لئے جنھیں عرفانِ الٰہی حاصل ہوجاتا ہے، ان کی نظروں میں اس دنیا کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی۔ وہ ہمیشہ اس دولت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ وہ اندردھنش کے رنگوں سے مسحور نہیں ہوتے کیونکہ انھیں ہر جگہ اس کے خالق کے جلوے نظر آتے ہیں۔ فانی چیزوں کے پیچھے وہ بھاگتے ہیں جنھیں ’باقی‘ کا عرفان نہیں ہوتا۔
پوچھتے ہو کہ سرِّ وحدت کیا
ماسوا کی بھلا، حقیقت کیا
اللہ والوں کے ’’اس گروہ کو صوفی کہا جاتا ہے جس نے حقیقت ازلی کی محبت میں خود کو فنا کردیا۔ یہ عشق و عرفان ہی ان اللہ والوں کا اوڑھنا بچھونا بن گیا اور انھیں اس کے علاوہ کسی اور سے غرض نہیں رہی۔‘‘
عشق ہی انسانی زندگی کا مقصود ہے، جسے صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جنھیں اس سے پالاپڑجائے۔ عقل والوں کے لئے یہ ایک فضول سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ مادیات کو سمجھ لیتے ہیں، چاند تک رسائی حاصل کرنا ان کے لئے آسان ہوتا ہے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تدبیریں کرتے ہیں مگر عرفان ذات نہیں حاصل کرپاتے اور عرفان ذات سے ہی عرفانِ الٰہی کا راستہ نکلتا ہے۔ صوفیہ کا مشہور قول ہے کہ ’’جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔‘‘ یعنی خود آگہی سے خدا آگاہی کا راستہ کھلتا ہے۔
یوں ملوں تم سے میں، کہ میں نہ رہوں
دوسرا جب ہوا تو خلوت کیا
کائنات کو سمجھنے کے مقابلے اپنی ذات کو سمجھنا آسان ہے مگر اہل خرد سب کچھ سمجھ لیتے ہیں، اگر نہیں سمجھتے تو خود کو۔۔۔ کائنات کی مادی حقیقت کو سمجھنے کے لئے دماغ کی ضرورت ہے اور خود کو سمجھنے کے لئے دل کی۔۔۔ یہاں ضرورت ہوتی ہے، اپنے اندر کی تیسری آنکھ کھولنے کی۔۔۔ تھوڑے سے جنون ِشوق کی۔۔۔ اور ’’پاسبانِ عقل‘‘ کو تنہا چھوڑنے کی۔۔۔ کیونکہ یہ راستہ عقل نہیں، عشق کی رہنمائی میں طے ہوتاہے۔۔۔ عقل کی ایک حد ہوتی ہے، جس سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتی اور عشق کی کوئی حد نہیں ہے۔۔۔ جہاں عقل تھک جاتی ہے، وہاں سے عشق کا سفر شروع ہوتا ہے۔۔۔ جو عقل کی انتہا ہے وہی عشق کی ابتدا ہے۔
کمی نہ جوشِ جنوں میں نہ پائوں میں طاقت
کوئی نہیں جو اٹھالائے گھر میں صحراکو
عرفانِ الٰہی کی تعلیمات کو ’’تصوف‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تصوف امن و شانتی کا پیغام ہے، جو محبت، اخوت اور بھائی چارہ سے عبارت ہے۔ محبت اس دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور ضرورت بھی۔ مذہب کی اصل روح یہی ہے، جو تمام آسمانی مذاہب میں موجود رہی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ تک، اللہ کے سبھی پیغامبروں نے اسی کا درس دیا، صحابہ نے اسی کی تبلیغ کی اور ان کے بعد اسی پیغام کو اپنے قول وعمل سے صوفیہ نے عام کرنے کی کوششیں کیں۔ تصوف کی تعلیمات کو اسلام اور تعلیمات پیغمبر سے الگ کرکے دیکھنے کی کوشش، بعد کے دور کی بدعت واختراع ہے۔ حقیقت میں اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اسلام کی تاریخ۔ بعض رسومِ تصوف سے اختلاف ممکن ہے جس کی نوعیت فقہی اور علمی اختلاف کی ہے مگر اصل تصوف سے انکار روح مذہب سے انکار کے مترادف ہے۔ تصوف سے مذہب کو الگ دیکھنا در حقیقت جسم بے روح دیکھنے جیسا ہے۔
تصوف اور صوفی کے الفاظ کی تحقیق میں علماء تصوف نے بہت کچھ کہااورلکھا ہے، لیکن ہم یہاں عہدِوسطیٰ کے ایک معروف صوفی حضرت سیدعلی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کشف المحجوب سے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں، جن سے واضح ہوجائے گا کہ بلندپایہ صوفیہ خود تصوف اور صوفی کے تعلق سے کیا خیالات رکھتے ہیں،
’’صفا، ولایت کی منزل ہے اور اسکی آیت وروایت ہے اور تصوف، صفا کی ایسی حکایت وتعبیر ہے جس میں شکوہ وشکایت نہ ہو۔‘‘
( اردو ترجمہ کشف المحجوب، صفحہ۶۹)
’’اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صوفی کو صوفی اس لئے کہاجاتاہیکہ وہ صوف کے کپڑے پہنتے ہیں، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ وہ اول صف میں ہوتے ہیں اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ اصحاب صفہ کی نیابت کرتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ نام صفا سے ماخوذ ہے۔ غرض کہ ہر وجہ تسمیہ میں طریقت کے بہ کثرت لطائف ہیں۔‘‘
( ایضا، ص۶۳)
’’میں کہتا ہوں کہ صفا، کدورت کی ضد ہے اور کدورت صفات بشری میں سے ہے۔ حقیقتاصوفی وہ ہے جو بشری کدورتوں سے گزر جائے۔‘‘
( ایضا، ص۶۶)
تصوف اور صوفی کے الفاظ کو لے کر علماء میں زبردست بحث رہی ہے۔ اسے صوف، صفہ، صفا اورصوف کے الفاظ سے مشتق مانا جاتا رہاہے۔ درست خواہ جو ہو لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ ان سبھی الفاظ سے اہل تصوف کا بڑا گہرا، معنوی تعلق رہا ہے۔ ایک صوفی کی اگر مکمل زندگی پرنظر ڈالیں توصرف اس ایک لفظ سے اس کا مکمل احاطہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کا کوئی لفظ دکھائی نہیں پڑتا، جسے ادا کر کے اہل تصوف کے حالات کی تعبیر کماحقہٗ ہوسکے۔
(۷۹۔ ۸۰)
صوفیہ کے نظریات دنیا میں عہدقدیم سے چلے آرہے ہیں۔ ترک دنیا اور تجرد ہردور میں موجود رہاہے۔ کوہ و بیابان میں عابدوں کی عبادت گزاری اور زہاد کی چلہ کشی ہرزمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ احادیث وسیرت کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول محترمﷺ کئی کئی دن کے لئے غار حرامیں چلے جاتے اور عبادت وریاضت میں مصروف رہتے۔ حتیٰ کہ پہلی وحی کا نزول بھی اسی مقام پر ہوا۔ اصحاب رسول میں بھی ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو فقر کی زندگی گزارتے تھے۔ دنیا کے اسباب میں سے صرف اتنا ہی لیتے تھے جتنے سے کم پر گزارا ممکن نہ تھا۔ جو کچھ مال ملتا، اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کردیتے تھے۔ بندگان خدا کی خدمت اور انکے دکھ درد میں کام آنا ان کا مشغلہ تھا۔ ان میں خلفاء راشدین اور اہل بیت نبوت رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔ اس دور میں اکثر وہ اعمال وافعال موجود تھے، جو اہل تصوف کا شعاررہے ہیں۔ مگر لفظ تصوف موجود نہ تھا۔ کسی کو ’’صوفی‘‘ کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔ یہ الفاظ بعد میں رائج ہوئے۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے ’عوارف المعارف‘ کے مطابق یہ الفاظ زمانۂ نبوت میں رائج نہ تھے۔ ’الرسالۃ القشیریہ‘ کے مطابق صوفی کا لفظ دوسری صدی ہجری کے اخیر میں رائج ہوا مگر ’کتاب اللمع‘ کے مطابق شیخ ابونصرسراج طوسی علیہ الرحمہ، اسے دوسری صدی ہجری کی ابتدا میں بھی رائج بتاتے ہیں یعنی حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ کے دور میں، جو تابعی تھے اور ۱۱۰ھ میں انتقال ہوا۔ بیشتر محققین کا ماننا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے نصف اخیر میں صوفی لفظ کا چلن شروع ہوا اور سب سے پہلے ابوالہاشم کوفی اور جابر بن حیان کوفی کو صوفی کہا گیا۔ ان دونوں کا انتقال ۱۶۰ھ کے آس پاس ہوا۔ یہ دونوں کوفہ کے رہنے والے تھے۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی اور امام سیوطی سمیت کچھ دیگر اہل علم نے ابوالہاشم کوفی کی اولیت کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے علم قلوب پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر عبیداللہ فراہی نے اپنی کتاب ’تصوف ایک تجزیاتی مطالعہ‘ میں کئی کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ،
’’تصوف کا آغاز عالم اسلام کے انھیں دونوں شہروں یعنی کوفہ اور بصرہ سے ہوا۔ کوفہ پرمانی کی فکر کا اثر تھا اور بصرہ پر ہندستانی علم وفکرکا۔ مانی کے مذہب میں عشقِ خداوندی کے عناصر پائے جاتے ہیں جب کہ ہندستانی فلسفہ میں سارا زور ترک وتیاگ پر ہے۔‘‘
دوسری صدی ہجری تصوف کے لئے بے حد اہم رہی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ممالک اسلامیہ میں انتشار پھیلا ہوا تھااندرونی اور بیرونی سازشیں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔ نئے نئے مسائل سر اٹھا رہے تھے۔ ایسے میں عابدوں اورزاہدوں کا ایک بڑاطبقہ دینداری اورتحفظ ایمان کے تعلق سے فکر مند تھا۔ حکومت وقت کے خلاف اٹھنے والی کئی آوازیں خاموش کی جا چکی تھیں۔ ایسے میں کوئی مسلح جدوجہد مشکل ہی سے کامیاب ہو سکتی تھی۔ اب حالات اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ تحفظ دین کے لئے کوئی پرامن، غیرمسلح تحریک شروع کی جائے، جس سے عام لوگوں کی اصلاح کی راہیں ہموارہوں اور بندگان خداکو خدا کی طرف موڑا جا سکے۔ انھیں حالات میں عالم اسلام کے دو مشہور شہروں کو فہ اور بصرہ میں اللہ والوں نے عام لوگوں کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ ان کا زور باطنی اصلاح پر زیادہ ہوتا تھا، کیونکہ اگرباطن کی اصلاح ہوگئی تو ظاہر کی خود بخود ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے کو بعد میں تصوف کہا جانے لگااور اس طریقے پر چلنے والوں کو صوفی کہا گیا۔ اس کی اشاعت ایران اور عراق سے نکل کر پورے عرب وعجم میں ہو گئی اورآج دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں تصوف کے سلاسل نہ پائے جاتے ہوں۔ ڈاکٹر عبیداللہ فراہی لکھتے ہیں،
’’تصوف میں ایک ساحرانہ جذب اور کشش ہے۔ اس نے ناآسودہ ذہنوں کوبالخصوص متاثر کیا ہے۔ دوسرے عرفانِ حقیقت کا شوق اور ایک نئی راہ چلنے کا جذبہ، جو کچھ کم لذت آگیں نہیں ہوتا، بہتوں کو اس راہ پر کھینچ لایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اسے پذیرائی حاصل ہوتی رہی اوروارفتگان شوق برابر اس کی طرف لپکتے رہے۔ اگرچہ اس کا دائرہ محدود اور مخصوص تھا لیکن تاریخ کا کوئی بھی دور اس سے خالی نہیں رہا۔‘‘
(تصوف ایک تجزیاتی مطالعہ، صفحہ۔ ۸)