وقت کے ساتھ تعلیم و تدریس کے انداز کیسے بدل گئے!
تعلیم کسی بھی معاشرے کی کامیابی کے لیے ایک لازم و ملزوم کلید ہے۔ وقت کی رفتار بڑھنے سے طریقہ تعلیم میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ زمانہ کے ابتداء سے اگر مشاہدہ کیا جائے تو قلم کا استعمال عام تھا۔ ہمارے بزرگ یعنی والدین قلم سے لکھتے رہے ہیں ۔اس کی نب تیار کرنی اس کا ٹک تیار کرنا پھر سیاہی تیار کرنے کے لیے پڑیاں ہوتی تھیں۔ بچے سیاہی خود بناتے تھے ۔پھر تختی کا استعمال ، روزانہ بچوں نے قلم سے لکھنا بعد ازاں اس کو گاچی سے دھونا اور دھوپ میں خشک ہونے کے لیے رکھ دینا۔ یہ وہی قلم ہے جس کی قسم خالق کائنات قرآن مجید میں اٹھاتا ہے۔ " وہ قلم جس سے تم لکھتے ہو".
وقت آگے بڑھا لکڑی کی تختی کی جگہ لوہے کی سلیٹ آگئی قلم کی جگہ سلیٹی نے لے لی۔ مٹانے میں آسانی ہونے لگی۔ یاد ہے ہمارے بزرگ اساتذہ جب بورڈ پر لکھتے تھے پہلے چاک کی مدد سے لائن لگاتے تھے۔ لائن پر لکھنا سکھاتے تھے۔ کافی حروف کی بناوٹ الف سے ے تک ہر حرف کی اپنی بناوٹ ہے۔ خوبصورتی سے لکھنا اور لکھائی کو نمایاں کرنا یہ اس وقت کا طریق تھا۔ ذرا آگے بڑھے پنسل و کاغذآیا۔ مٹانے کے لیے ربڑ آگئی۔ تعلیم مہنگی ہونے لگی۔ یہ پنسل بھی مختلف اقسام کی ہوتی تھی ۔لیڈ پنسل، ایچ بی کی پنسل اور اس طرح مختلف انواع تھیں۔ وقت نے ترقی کی پنسل کی جگہ پن آیا ۔ بنی بنائی انک آنے لگی۔ پن سے بھی لکھاری و کاتبین لکھنا سکھاتے تھے کہ پن کیسے پکڑنا ہے لکھنا کیسے ہے ؟ اگر سکولوں کو دیکھیں ہم ذرا پچھلی صدی کے اواخر میں جائیں تو سکول میں داخل خارج بھی قلم سے لکھے جاتے تھے۔ افسران بالا بھی قلم سے وزٹ کے بارے مفصل تحریر کرتے تھے۔ کچھ عرصہ گزرا پوائنٹر آگئے نیلے ،پیلے ،کالے بچے لکھنے لگے نہیں پتہ لکھنا کس سمت سے ہے؟ ہر طرف سے پوائنٹر استعمال ہونے لگا۔ بعد میں بال پوائنٹ آگئے۔ اب تو کچی کے بچے کے ہاتھ میں بال پوائنٹ ہےکیا اس نے لکھائی سیکھنی ہے کیا لکھنا ہے ؟ خطاط کی دکانیں ہوتی تھیں بچے ان کے پاس سیکھنے جاتے تھے۔ بندہ خود جناب غلام حسین کاتب، ناظم جامعہ اشاعت القرآن میلسی کا خطاطی کے معاملے میں شاگرد رہا۔ لکھائی بہتر کروانا والدین کا شوق ہوتا تھا۔
وقت گزرا ٹائپ رائٹر آیا۔ کمپیوٹر آیا۔ کام لکھنے کے لیے مائیکروسافٹ آفس آگیا۔ کی بورڈ سے لکھا جانے لگا۔ لکھائی کا کام ختم ۔ اب طلبا و طالبات کی تعلیم ایم فل ہوتی ہے اور ہاتھ سے لکھنا ان کے لیے محال ہوگیا ہے۔ نمبروں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خیر بحیثیت معلم سکولوں میں اس روایت کو زندہ کیا جائے تاکہ لکھائی بہتر ہو ۔ سیکھنے کا عمل آسان ہو۔ رحیم بخش ریڈر کا قاعدہ ہوتا تھا اور درجات الاملاء کی کتاب ہوتی تھی۔ اس سے اردو سیکھتے تھے۔ ہم آواز الفاظ کی پہچان کروائی جاتی تھی۔ مطلب بتائے جاتے تھے۔ عام لوگوں نے آم کھائے۔ بعض لوگوں نے باز پکڑے وغیرہ۔ ایسے جملے سیکھنے کو ملتے تھے۔ اب ہم قومی زبان بھول چکے ہیں ۔ نہ انگریزی آتی ہے نہ اردو۔ اردو لکھتے ہوئے بولتے ہوئے کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔ انگریزی کیا سیکھنی تھی مروجہ قوانین ہی بھول گئے۔ بولتے ہوئے نہیں پتہ فرسٹ پرسن کون ہے ؟ سیکنڈ کون ہے اورتھرڈ کون ہے ؟ پھر کہنے لگے یہ تو سپوکن ہے ۔ خیر جو بھی ہے اس روایت کو زندہ کیا جائے۔ نئی نسلیں لکھائی کے کام سے عاری ہوچکی ہے۔ جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔