طرز نو کی شاعری
توسن طبع رسا کے پاؤں میں کچھ لنگ ہے
لیکن اس صورت میں چپ رہنا بھی وجہ ننگ ہے
شعر کا سامان ہے کم یاب دور جنگ ہے
شاعری بھی فرض ہے اور قافیہ بھی تنگ ہے
قافیے اور وزن کی بندش سے ہو کر تلخ کام
اے سمند طبع تجھ کو کر رہا ہوں بے لگام
نثر نظم آلود ہے یہ طرز نو کی شاعری
ماش کی کھچڑی ہے جو پوری طرح پکی نہ ہو
یا وہ حاجی ہے کراچی تک جو جا کر لوٹ آئے
غالباً آدھا ہے تیتر اور آدھا ہے بٹیر
کر دیا صیاد نے پر قینچ اڑ سکتا نہیں
میں انہی شعروں سے پیدا کر رہا ہوں انقلاب
حافظؔ و خیامؔ سے کہہ دو کہ محشر ہو گیا
تندیٔ صہبا سے چکناچور ساغر ہو گیا
شاعری کی فکر ہے سرکس کی بیلی ڈانسر
توڑ کر بندش کو تقریباً برہنہ ہو گئی
خرمن شعر و ادب پر بجلیاں گرنے لگیں
''آگ اس گھر کو لگی ایسی کی جو تھا جل گیا''
اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہے بلینک ورس
''ورس'' ہو جاتا ہے جب بھی ذہن ہو بالکل بلینک
طرز نو کی شاعری بھی صور اسرافیل ہے
شاعری ہابیل ہے اور طرز نو قابیل ہے
اس کے اندر زندگی کی قدر کرتے ہو تلاش
اور لیے پھرتا ہے بھائی دوسرے بھائی کی لاش
طرز نو کی شاعری ہو جائے جب بے حد بلیغ
لوگ کہتے ہیں کہ پیدا ہو گیا ادب لطیف
طرز نو کی شاعری کے دیکھیے موضوع بھی
''حریت'' ''نسوانیت'' ''احساس'' ''مفلس کا شباب''
''چاندنی راتیں'' پپیہا، تو کہاں'' ''سرمایہ دار''
''بورژوا قدریں'' ''مہاجن'' ''زندگی کے موڑ پر''
''مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں''
''ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں''
طرز نو کی شاعری میں مد و جزر بحر شعر
اف غضب
ایک مصرعہ فیل بے زنجیر کی زندہ مثال
دوسرا اشتر کی دم
دریا میں شیر خاک اڑاتا تھا ناؤ پر
بسمل دو زانو بیٹھا تھا پشت بلاؤ پر
نظم لوٹ آئی ہے پھر اپنی پرانی بحر میں
ہے عجب تاثیر پنہاں طرز نو کے سحر میں
طرز نو کی شاعری کی کوئی کل سیدھی نہیں
شہر بھر میں اونٹ بے چارہ عبث بد نام ہے
طرز نو کی شاعری کو اونٹ سے دے کر مثال
چاہتا ہوں اونٹ سے جا کر معافی مانگ لوں
ہاتھ لیکن اس کی گردن تک پہنچ سکتے نہیں
گرچہ بے چارہ ہے لیکن ہے بڑا گردن دراز
آہ اونٹ!