ترک وفا گرچہ صداقت نہیں
ترک وفا گرچہ صداقت نہیں
پر یہ ستم سہنے کی طاقت نہیں
ترک کر اپنا بھی کہ اس راہ میں
ہر کوئی شایان رفاقت نہیں
کوئی دوا مجھ سے کی کرتا ہے لیک
اب کے طبیبوں میں حذاقت نہیں
کسب ہنر کر نہ کہ اس وقت میں
اس سے بڑی اور حماقت نہیں
نام ہی قائمؔ کا گیا ہے نکل
ورنہ کچھ اتنی تو لیاقت نہیں