تاریخ کی تعمیر نو، تہذیب کی تشکیل نو
’’ہندی/اردو‘‘ کی اصطلاحات کب اور کس طرح رائج ہوئیں، ان کے بارے میں کس کس طرح کے اساطیر وضع کیے گئے اور ان کی اصل، تاریخی صورت حال کیا ہے، ان معاملات کا مندرجہ بالا مختصر بیان ضروری تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بہت سے علما اس رائے کے حامل ہیں کہ وہ زبان جسے آج ہندی کہا جاتا ہے، برصغیر کی ادبی تاریخ میں اس سارے علاقے کی حق دار ہے جو (کم از کم سترہویں صدی تک) اس زبان کے زیرنگیں تھا جسے آج ہم اردو کہتے ہیں، اور جو اس وقت تک ہندی/ہندوی/دکنی/ریختہ کہلاتی تھی۔ جہاں تک سوال برج بھاشا، اودھی، اور ان کی طرح کی دیگر جدید شمالی ہندوستانی بولیوں کا ہے، جدید ’’ہندی‘‘ والوں نے تقسیم ہند کے پہلے ہی سے ان کی تاریخ کو اپنی تاریخ کا ایک حصہ قرار دینا شروع کردیا تھا۔ 1 اور جہاں تک سوال ’’اردو‘‘ کی تاریخ کا ہے تو ’’ہندی‘‘ والوں کے یہ دعوے، کہ وہ بھی ’’ہندی‘‘ کی ہی تاریخ کا حصہ ہے، تقسیم ملک کے بعد شروع ہوئے۔ 2 اور آج ہندی/اردو کی تاریخ کے بارے میں کوئی بحث اس امر کو نظرانداز نہیں کرسکتی کہ ایک ہی ادبی اور لسانی روایت کی امانت داری کے دو دعوے دار ہمارے منظر نامے پر ہیں۔ دو سری بات، جو اتنی ہی اہم ہے، یہ ہے کہ ان دعاوی کے پیچھے علمی نکات نہیں، بلکہ سیاسی مصلحتیں، محاذ آرائیاں، اور ’’ہندوستانی/ہندو‘‘ تشخص کے بارے میں مفروضات ہیں۔ ژول بلاک (Jules Bloch) کا قول ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد ہندی آہستہ آہستہ ’’ہندوؤں کی لنگوافرانکا‘‘ کی شکل میں نمودار ہوئی۔ بلاک اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ للوجی لال نے ’’گلکرسٹ کے زیر اثر‘‘ اپنی مشہور کتاب ’’پریم ساگر‘‘ لکھ کر سب کچھ ’’بدل ڈالا‘‘ ۔ بقول بلاک ’’اس کے نثری حصے بحیثیت مجموعی اردو ہیں لیکن اس میں فارسی الفاظ کی جگہ ہند آریائی الفاظ رکھ دیے گئے ہیں۔‘‘ 3 تاراچند کہتے ہیں کہ ہندی علما بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے مشہور ہندی ادیب چندر دھرشرما گلیری کے ایک مضمون، مورخہ ۱۹۲۱ء کا ایک اقتباس اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ 4 اردو کے بالمقابل ’’ہندی‘‘ کو قائم کرنے کے اثرات اردو کی ادبی تہذیب کے لیے بہت دوررس ثابت ہوئے۔ لیکن ان میں کم ہی ایسے ہیں جن کو کسی جگہ منضبط طور پر بیان یا درج کیا گیا ہو، صحیح تناظر میں ان کا تفصیلی مطالعہ اور توجیہ تو بعد کی بات ہے۔ جس زمانے میں جدید ’’ہندی‘‘ کو بناسنوار کر اسے برصغیر کے لسانی اور ادبی منظر نامے میں مرکزی مقام دلانے کی کوششیں ہو رہی تھیں، اسی زمانے میں ایک ذیلی ڈراما بھی چل رہا تھا۔ اس کا مقصد تھا، اردو کو ’’اخلاقی‘‘ اور ’’مذہبی‘‘ بنیادوں پر مطعون و مردود ٹھہرانا۔ مثال کے طور پر بھارتیندو ہریش چندر (۱۸۵۰ء تا ۱۸۸۵ء) کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ بھارتیندو کو ’’جدید، معیاری ہندی کا باوا آدم‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں وہ اردو چھوڑ کر ’’ہندی‘‘ کی طرف جارہے تھے اور یہی نہیں کہ وہ اردو کو ترک کررہے تھے، وہ ’’اردوبیگم‘‘ کی ’’موت‘‘ کے بارے میں انتہائی جارحانہ، بلکہ رکیک طنزیہ تحریریں بھی لکھ رہے تھے۔ ’’اردو بیگم‘‘ کے ماتم داروں میں حسب ذیل زبانیں تھیں: عربی، فارسی، پشتو، اور پنجابی۔ وجہ یہ تھی کہ ان چاروں کا رسم خط ’’غیرملکی‘‘ تھا۔ بھارتیندو کے اپنے الفاظ میں، ناگری حروف کو رائج کرنے سے ان (مسلمانوں) کا نقصان یہ ہوگا کہ لوگوں کو لوٹنے کھسوٹنے کا موقع ان کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس وقت وہ لکھتے کچھ اور پڑھتے کچھ اور ہیں اور تحریروں کے مفاہیم بھی غلط بیان کرتے ہیں۔۔۔ دفاتر میں فارسی حروف کا استعمال نہ صرف یہ کہ ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ یہ محترمہ ملکۂ عالیہ (ملکہ وکٹوریہ) کی وفادار رعایا کی اکثریت کے لیے زحمت اور ناخوشی کا بھی باعث ہے۔ 5 اس زمانے میں اور بھی آوازیں اردو کی مخالفت میں اٹھ رہی تھیں اور بنارس میں یہ آوازیں زیادہ بلند تھیں لیکن ان میں بھی بھارتیندو کے طعنے تشنے ہمیں نمایاں سنائی دیتے ہیں، کیونکہ ان کا مصنف ایسا شخص ہے جس نے اردو کے ادیب کی حیثیت سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اور اسے آج بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایک مقام حاصل ہے۔ بھارتیندو کی تبدیل حال کا پورا مفہوم سمجھنے کے لیے یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا بیان (۱۸۸۲ء) کے دس ہی گیارہ برس پہلے (۱۸۷۱ء میں) بھارتیندو اعلان کرچکے تھے کہ ان کی، اور ان کی قوم کی عورتوں کی بھی، زبان ’’اردو‘‘ ہے۔ اگر وال بنیوں کی پچھاہیں (مغربی) شاخ سے تعلق رکھنے کے باعث، بھارتیندو کو تو بنارس کی مقامی بولی کی خبر بھی نہ ہوگی اور وہ اگر والوں کی پوربیا (مشرقی) شاخ کو بہرحال بہ نگاہ تحقیر دیکھتے تھے، 6 لہٰذا ان کی زبان کو اختیار کرنے کا کوئی سوال بھی ان کے سامنے نہ اٹھا ہوگا، چہ جاے کہ اس جدید ’’ہندی‘‘ کو اختیار کرنے کا، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں شعر کہنا، برج بھاشا میں شعر کہنے کی بہ نسبت مشکل ہے، شاید اس لیے کہ پنگل کے اصول کھڑی بولی کے موافق نہیں آتے۔ 7 بھارتیندو کے وقت میں کسی اور قابل ذکر ہندو ادیب نے اردو کو ترک کرکے ہندی تو نہ اختیار کی لیکن اس زبان کے لیے جسے آج ہم ’’اردو‘‘ کہتے ہیں، لفظ ’’ہندی‘‘ کا استعمال انیسویں صدی کی نویں دہائی (۱۸۸۱ء تا ۱۸۹۰ء) کے آتے آتے بہت کم ہونے لگا۔ اور جب لفظ ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان رائج ہوگیا تو انگریزوں نے بھی لفظ ’’ہندوستانی‘‘ کو ترک کردیا۔ اس میں ان کا فائدہ بھی تھا، کیوں کہ لفظ ’’اردو‘‘ میں ’’مسلمانی رنگ‘‘ لفظ ’’ہندوستانی‘‘ سے زیادہ تھا، اور انگریز یہی چاہتے تھے کہ ’’اردو‘‘ کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر جاناجائے۔ 8 ہندوؤں میں نئے اردو ادیب تو پھر بھی پیدا ہوتے رہے لیکن مسلمانوں نے اب ایک نیاطریقہ اختیار کیا۔ شاید غیرشعوری طور پر انگریزوں کے نفسیاتی اور سیاسی دباؤ کے باعث، یا پھر اردو/ ہندی کے جھگڑوں میں روز بروز بڑھتی ہوئی تلخی کی بناپر، مسلمانوں نے ہندوؤں کو اردو کی فہرست استناد (canon) سے خارج کرنے کا رجحان اپنانا شروع کیا۔ (فارسی کے ساتھ بھی یہی کیا گیا، لیکن وہ الگ قصہ ہے۔) اپنی بے انتہا مقبول تاریخ شعر ا ءاردو، یعنی ’’آب حیات‘‘ (اول اشاعت ۱۸۸۰ء) میں محمد حسین آزاد (۱۸۳۰ء تا ۱۹۱۰ء) کو صرف ایک ہندو شاعر (دیا شنکر نسیم، ۱۸۱۱ء تا ۱۸۴۴ء) لائق ذکر دکھائی دیا اور ان کا بھی تذکرہ آزاد نے تاریخی ترتیب کے صحیح مقام پر نہیں بلکہ میر حسن (۱۷۲۷ء تا ۱۷۸۶ء) کے ساتھ لکھا۔ لہٰذا ڈھونڈنے والا اگرچاہے بھی تو نسیم کا بیان آسانی سے ڈھونڈ نہیں سکتا۔ 9 ملحوظ رہے کہ ’’آب حیات‘‘ کے ذیلی عنوان میں دعویٰ تھا کہ یہ ’’اردو کے مشاہیرشعرا‘‘ کی سوانح ہے۔ لہٰذا پڑھنے والے کو، خاص کر جدید اردو کی صورت حال میں، جہاں ایسی کوئی تاریخ یا فہرست استناد پہلے سے موجود نہ تھی، خواہ مخواہ یہ خیال ہوا کہ جو لوگ اس کتاب کے باہر ہیں، وہ ’’مشاہیر شعرا‘‘ کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کا نقصان سب کو اٹھانا پڑا، گجراتی اردو ادیبوں کو، (ان کا نام و نشان بھی اس کتاب میں نہیں)، دکنی اردو ادیبوں کو، (کہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ دکن کی شاعری قابل اعتنا نہیں۔ یہاں ’’دکن‘‘ سے موجودہ کرناٹک اور تامل ناڈاور مہاراشٹر بھی مراد ہیں۔) عورتوں اور ہندوؤں، پنجاب اور پورب کے لکھنے والوں کا نقصان اور بھی زیادہ ہوا، کیوں کہ گجری اور دکنی کے ساتھ تو بعد کے زمانے میں آہستہ آہستہ تھوڑا انصاف برتا بھی گیا، لیکن عورتوں، ہندوؤں، پنجابیوں، اور پوربیوں کو اب بھی ان کی مناسب جگہ نہیں مل سکی ہے۔ خیر، یہاں بات ہو رہی تھی انگریزوں کی پالیسی کے زیر اثر یا اس کی وجہ سے مسلمانوں کے رجحان کی، کہ ہندوؤں کو اردو کی فہرست استناد سے خارج رکھا جائے۔ ’’آب حیات‘‘ نے اس کام میں اہم کردار ادا کیا۔ آزاد نے اٹھارویں صدی کے سربرآوردہ اردوگو ہندو شعرا، اور ان سے بھی زیادہ سربرآوردہ فارسی/اردو گو ہندو شعرا کو اپنی کتاب میں بالکل نظرانداز کردیا، گویا ان سیکڑوں ہندوؤں نے اردو کے لیے کبھی کچھ کیا ہی نہ ہو۔ مولانا محمد حسین آزاد کو سرب سکھ دیوانہ (۱۷۲۷ء/۱۷۲۸ء تا ۱۷۸۸ء) جیسے ذولسانین جگت استاد کی بظاہر کوئی خبر نہیں۔ اور کچھ نہیں تو ان کے شاگردوں، جعفر علی حسرت اور حیدر علی حیران ہی کے حوالے سے ان کا ذکر خیر ہوجاتا۔ اجے چند بھٹناگر (۱۵۵۰ء) جس نے ’’مثل خالق باری‘‘ لکھی، اس کا ذکر تو امیر خسرو کی ضمن میں محمد حسین آزاد بھلا کیا کرتے، (اس کے بارے میں انہیں معلوم نہ رہا ہوگا) لیکن انہوں نے ٹیک چند بہار (وفات ۱۷۶۶ء) کا بھی نام نہ لیا، حالانکہ بہار کے فارسی لغت ’’بہار عجم‘‘ نے اردو شعرا کو ہزارہا نئے مطالب و تراکیب سے آشنا کیا تھا۔ اور بہار نے ریختہ میں بھی تھوڑا بہت کہا ہے۔ اس زمانے کے اکثر تذکروں میں ان کا ترجمہ ملتا ہے۔ پھر بدھ سنگھ قلندر (وفات غالباً ۱۷۷۰ء اور ۱۷۸۰ء کے درمیان)، ٹیکا رام تسلی (زمانہ، ۱۷۸۰ء کے آس پاس)، کانجی مل صبا (زمانہ تقریباً وہی)، جسونت سنگھ پروانہ (۱۷۵۶ء/ ۱۷۵۷ء تا ۱۸۱۳ء)، بندرابن خوشگو (وفات ۱۷۵۶ء/۱۷۵۷ء)، راجا رام نرائن موزوں (وفات ۱۷۶۲)، راجا کلیان سنگھ عاشق(۱۷۵۲تا۱۸۲۱)، راجا راج کشن داس (۱۷۸۱ء تا ۱۸۲۳ء) جیسے کتنے ہی صاحب کمال تھے جن پر مولانا کی نگاہ نہ پڑی۔ انیسویں صدی میں آئیے تو آزاد نے دیاشنکر نسیم کے علاوہ گھنشیام لال عاصی (۱۷۹۸ء تا ۱۸۶۹ء)، شاگرد شاہ نصیر (۱۷۶۰ء تا ۱۸۳۸ء) کو بس ایک حاشیے کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔ ذوق بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے، آزاد نے حق شاگردی سے زیادہ ہی حق ادا کیا اور ذوق کو ’’آب حیات‘‘ میں تمام شعرا سے بڑھاکر پیش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’قفس کی تیلیاں / خس کی تیلیاں‘‘ والے معرکے میں عاصی نے ذوق کے علی الرغم شاہ نصیر کا ساتھ دیا تھا، اور عاصی کی غزل بھی اس موقعے پر ذوق کی غزل سے بہتر ٹھہری تھی۔ عاصی کے صاحب زادے من موہن لال ماتھر کا بیان ہے کہ آزاد نے عاصی کے حالات ان سے منگوائے تھے کہ انہیں ’’آب حیات‘‘ میں درج کریں گے لیکن وہ معلومات انہوں نے استعمال نہ کیں۔ 10 آزاد نے بس اتنا کیا کہ عاصی کا ذکر اس معرکے کی ضمن میں ایک حاشیے میں کیا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ عاصی کے شعر کو شاہ نصیر کے صاحب زادے وجیہ الدین منیر سے منسوب کردیا، اور پھر حاشیہ لکھا، بعض بزرگوں سے سنا کہ (یہ شعر) لالہ گھنشام داس عاصی نے پڑھا تھا، وہ بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ اور ان دنوں میں نوجوان لڑکے تھے۔ 11 یہ بھی ملحوظ رہے کہ آزاد نے عاصی کا نام تک صحیح نہ لکھا، گھنشیام لال کو گھنشام داس لکھ دیا۔ عاصی کا کلام میں نے دیکھا ہے۔ ان کا مرتبہ کسی طرح انیسویں صدی کے ان شعرا، مثلاً مصطفیٰ خاں شیفتہ سے کم نہیں جن کا مختصر تذکرہ ’’آب حیات‘‘ میں ہے۔ مولانا حالی (۱۸۳۷ء تا ۱۹۱۴ء) نے ۱۸۹۳ء میں اپنا شہرۂ آفاق ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ شائع کیا۔ ’’آب حیات‘‘ کے بعد ’’مقدمہ‘‘ انیسویں صدی کی اردو نثر کا مؤثر ترین اور مقبول ترین کارنامہ ہے۔ اس میں جو خیالات بیان ہوئے ہیں، ان کا احترام و نفوذ اب بھی دور دور تک ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اردو شعرا کے اشعار اور اذکار جگہ جگہ ملتے ہیں۔ مگر نہیں ملتے تو ہندو شعرا کے شعر نہیں ملتے۔ ایک دیا شنکر نسیم کا نام چاربار ضرور لیا گیا ہے، دوبار بالکل سرسری طور پر، اور ہر بار ناپسندیدگی کے لہجے میں۔ بالمکند حضور (شاگرد میر درد) کا ایک شعر ملتا ہے، لیکن میر کے نام سے۔ 12 مولوی سید احمد دہلوی کی ’’فرہنگ آصفیہ‘‘، جلد اول (مطبوعہ ۱۹۰۱ء) پر قبل اشاعت تبصرہ کرتے ہوئے حالی نے لکھا کہ اردو کا لغت لکھنے کا اہل ہونے کے لیے دوشرطیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ لکھنے والا دہلی کا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ڈکشنری لکھنے والا شریف مسلمان ہو، کیوں کہ خود دلی میں بھی فصیح اردو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ ہندوؤں کی سوشل حالت اردوے معلیٰ کو ان کی مادری زبان نہیں ہونے دیتی۔ 13 یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پوری ہندوقوم کو شائستہ اردو کے دائرے سے خارج کرنے، اور ہندوؤں کی ’’سوشل‘‘ حالت کے بارے میں ایک ذرا پراسرار اور دہشت انگیز فقرہ لکھتے وقت حالی جیسے شخص کو بھی احساس نہ ہوا کہ وہ کوئی ان مل بے جوڑ یا بے تکی بات کہہ رہے ہیں۔ وہ تو (شعوری یا غیرشعوری طور پر) اپنے مغربی حاکموں کے خیالات کی صداے بازگشت کا کام انجام دے رہے تھے۔ ورنہ یوں تو حالی انتہائی انسان دوست شخص تھے اور تعصب یا تنگ نظری سے انہیں کوئی علاقہ نہ تھا۔ اردو زبان میں ہندوؤں کو پیدائشی اور سماجی طور پر نااہل قرار دینے میں وہ اپنے معاصر یورپی علما کی طرح تھے جو پوری ہمدردی اور انسان دوستی کے ساتھ اس نظریے کے حامل تھے کہ بچاری ’’سیاہ‘‘ قومیں پیدائشی طور پر ’’سفید اقوام‘‘ سے کمتر ہیں۔ شبلی اس بات کے کھلے دل سے معترف تھے کہ ہندوؤں کو معیاری، بامحاورہ اردو پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ ہندوؤں میں بہت سے روشن خیال اصحاب ہیں جو زبان اردو کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ ’’مسلم گزٹ‘‘ لکھنؤ، بابت ۹/اکتوبر ۱۹۱۲ء میں شبلی نے لکھا، کہا جاتا ہے کہ ہندو ہماری قومی زبان اردو کو مٹا رہے ہیں، لیکن کیوں کر؟ کیا اس طریقے سے کہ اردو زبان کے عمدہ سے عمدہ تر میگزین اور رسالے ’’ادیب‘‘ اور ’’زمانہ‘‘ ہندو نکال رہے ہیں؟ اور اردو مصنفین کی قدر افزائی کرکے بہت سے نئے انشا پردازان اردو تیار کر رہے ہیں؟ کیا اس طریقے سے کہ ممالک متحدہ کے قابل ہندو انشا پردازی میں مسلمان انشاپردازوں کے دوش بدوش چل رہے ہیں؟ ’’زمانہ‘‘ کے اوراق الٹتے ہوئے بار بار میں نے ہندو مضمون نگاروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ 14 شبلی کی بات حرف بہ حرف صحیح ہے، لیکن ان کے پہلے جملے پر غور کیجیے۔ وہ اردو کے لیے ’’ہماری (یعنی مسلمانوں کی) قومی زبان اردو‘‘ کا فقرہ استعمال کر رہے ہیں۔ ہندو اس کے ماہر ضرور ہیں لیکن زبان یہ مسلمانوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی نے کسی تکلف یا جھجک کے احساس کے بغیر پریم چند کی تعریف میں کہا کہ مشرقی یوپی کا یہ کائستھ ایسی زبان لکھتا ہے جس پر بڑے بڑے دہلی والے اور لکھنؤ والے رشک کریں۔ شبلی کی اس معصومانہ برتری/ فروتنی کی ذرا ظریفانہ بازگشت جوش ملیح آبادی کے دوست قاضی خورشید احمد کے ایک لطیفے /واقعے میں ملتی ہے۔ اسے خود جوش صاحب نے بیان کیا ہے۔ ان کے بقول وہ خود اور قاضی صاحب موصوف مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد (۱۸۶۴ء تا ۱۹۴۰ء) کے یہاں ایک دعوت میں حاضر تھے، اور قاضی صاحب مسلسل ایسی باتیں کہہ یا کر رہے تھے جنہیں آداب مجلس کے خلاف قرار دیا جاسکتا تھا۔ جوش صاحب لکھتے ہیں، ہر چند میں قاضی کی حرکتوں سے دریائے شرمندگی میں ڈوبا ہوا تھا، پھر بھی موڈ پر قابو پاکر میں نے مہاراجہ کی دوغزلیں قاضی کو سنادیں۔ انہوں نے میز پر اپنی ٹوپی پٹک کر کہا، ’’میاں جوش، بہت غنیمت۔ مہاراج نہ دہلوی ہیں نہ لکھنوی، لیکن اچھے شعر کہتے ہیں اور وہ بھی ہندو ہوکر۔ ہندو ہوکر!‘‘ 15 داتا دیال مہرشی شیو برت لال ورمن (۱۸۶۰ء تا ۱۹۴۰ء) بیسویں صدی کے نصف اول کے سربرآوردہ ہندو سنت، گیانی اور مصلح تھے۔ انہوں نے کئی سو کتابیں اردو میں تصنیف کیں لیکن وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ’’سواے ہندی کے دنیا کی اور کوئی زبان ہماری مذہبی ضرورتوں کو رفع نہیں کرسکتی۔‘‘ اپنے رسالے ’’مارتنڈ‘‘، لاہور، بابت جولائی ۱۹۱۰ء، میں انہوں نے لکھا، ہم بھی تو اردو ہی میں سب کچھ لکھا کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہندی کی بھلائی کا دھیان ضرور ہے۔ جن کو اردو تصنیف و تالیف کا شوق ہے وہ اسی کے ذریعے ہندی کے لیے آئندہ راستہ بناتے ہیں۔ ہندی کے لفظ کثرت سے لائیں۔ یہ اردو کے مصنفین براہ دیگر ہندی کے سچے مددگار ثابت ہوں گے۔ 16 داتا دیال شیوبرت لال ورمن کا یہ ارشاد کہ ہندوؤں کی ’’مذہبی ضرورتوں‘‘ کو ہندی زبان ہی رفع کرسکتی ہے، اس تصور کا آئینہ دار ہے کہ زبان کا بھی مذہب ہوتا ہے اور بالخصوص اردو زبان کا مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔ بیسویں صدی کے شروع کی دہائیوں میں یہ خیال ہندومسلمان دونوں فرقوں میں عام ہوچکا تھا کہ ہندوؤں کی زبان ہندی ہے، مسلمانوں کی زبان اردو۔ اس عقیدے میں تبدیلی ۱۹۳۰ء کی دہائی سے آنے لگی، یعنی اس وقت سے، جب اردو والوں نے محسوس کیا کہ اگر ہندوؤں کی زبان ہندی ہے، اردو نہیں، تو ہندوؤں کے زیر تسلط ہندوستان میں اردو کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ اب اردو کے لوگ، کیا ہندو کیا مسلمان، بزور کہنے لگے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، اور ’’اردو مساوی مسلمان‘‘ کی مساوات جھوٹ اور حمق پر مبنی ہے۔ لیکن یہ خیال پھر بھی باقی رہا کہ مسلمانوں کو اردو میں زیادہ درک ہے۔ فراق صاحب نے اپنے ایک مضمون موسوم بہ ’’ایک خط کا جواب‘‘، مطبوعہ اگست ۱۹۴۵ء، میں لکھا، اردو میں مسلمانوں سے بھی زیادہ چمک جانے کے لیے اس کی ضرورت نہیں کہ ہندو اپنا دھرم چھوڑدے یا مشرف بہ اسلام ہوجائے۔۔۔ ضرورت اس کی ہے کہ وہ اس زبان کی بھیتری رگوں کو اس طرح مٹھی میں لے جس طرح میر، درد، سودا، غالب، انیس، آتش، اور داغ نے اردو یا پچھانہی ہندی کی بھیتری رگوں کو زیادہ قریب کرلیا تھا۔۔۔ اردو کے مسلمان شعرا کا کلام پڑھ کر بڑے دل دماغ والا ہندو میر اور اقبال سے بڑا اردو شاعر بن سکتا ہے۔ 17 استادی شاگردی کا ادارہ اٹھارویں صدی کی دہلی میں شروع ہوا اور بہت جلد اسے غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ادارے کی اہمیت اتنی بڑھی کہ کسی شاعر کی خوبی کا ایک معیار یہ بھی تھا کہ وہ کس کا شاگرد ہے۔ شروع شروع میں مسلمانوں کو ہندوؤں کا شاگرد بننے میں کوئی عار نہ تھا۔ سرب سکھ دیوانہ کی جگت استادی اور جعفر علی حسرت، حیدر علی حیران جیسے جید لوگوں کا ان کی شاگردی قبول کرنا اوپر مذکور ہوچکا ہے۔ انیسویں صدی میں ہندو =ہندی، اور مسلمان =اردو کے تصور کو زور و شور سے فروغ ملنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ہندوؤں کے مسلمان شاگردوں کی تعداد گھٹنے، بلکہ غائب ہونے لگی۔ ہندوشعرا بھی ممکن حد تک ہندوی اساتذہ کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ انیسویں صدی کے شمالی ہند میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد، جسے اردو پڑھنا چاہیے تھا، ہندی کی طرف جھکنے لگی۔ اور ناگری رسم خط میں جدید ’’ہندی‘‘ کو ترقی دینے اور جارحانہ طور پر اس کو بڑھاوا دینے والے بہت سے ادارے وجود میں آگئے۔ لیکن ہندوؤں میں اردو ادیب پہلے ہی کی طرح پیدا ہوتے رہے، اور یہ بات ہندو/اردو ذہن کو تاریخ کی لازوال تعریف کا استحقاق عطا کرتی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتامی برسوں میں اردو کے منظر نامے پر بہت سے ہندو ادیب ہیں جو اس منظر نامے پر حاوی ہو رہے ہیں، یا حاوی ہوجانے کا امکان رکھتے ہیں۔ رتن ناتھ سرشار (۱۸۴۶ء تا ۱۹۰۳ء)، تربھون ناتھ ہجر (۱۸۵۳ء تا ۱۹۳۸ء؟)، درگا سہائے سرور (۱۸۷۳ء تا ۱۹۱۰ء)، جوالا پرشاد برق (۱۸۶۳ء تا ۱۹۱۱ء)، بشن نرائن ابر (۱۸۹۶ء تا ۱۹۱۶ء)، ونایک پرشاد طالب (۱۸۴۸ء تا ۱۹۲۲ء)، برج نرائن چکبست (۱۸۸۲ء تا ۱۹۲۶ء)، شنکر دیال فرحت (۱۸۴۳ء تا ۱۹۰۴ء)، سورج نرائن مہر (۱۸۵۰ء تا ۱۹۳۱ء)، لالہ سری رام (۱۸۷۵ء تا ۱۹۳۰ء)، ایسے نام نہیں جنہیں ہماری تاریخ فراموش کرسکے گی۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں، مثلاً برج موہن دتا تریہ کیفی (۱۸۶۶ء تا ۱۹۵۴ء)، جو بیسویں صدی میں بھی دیر تک سرگرم عمل رہے اور جنہوں نے اردو لسانیات و نحو و صرف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے۔ جہاں تک سوال نظریات ادب کا ہے، تو ان ادیبوں نے بھی حالی اور آزاد کا اثر اسی طرح قبول کیا تھا جس طرح ان کے مسلمان بھائیوں نے قبول کیا تھا۔ دونوں کے ’’اصلاحی‘‘ سروکار اور پروگرام مشترک تھے، دونوں ایک ہی ادبی زبان لکھتے اور بولتے تھے، اور دونوں کے ادبی +تہذیبی مفروضات بھی مشترک تھے۔ یہ سب صحیح، لیکن انگریزوں کے بوئے ہوئے زہر نے برگ و بار لانا شروع کر ہی دیا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ انیسویں صدی میں فریزر (R.W.Frazer) جیسے منصف مزاج انگریز مؤرخ بھی تھے جو حقیقت کے بیان سے کتراتے نہ تھے۔ فریزر نے لکھا، جب (اردو کو) مسلمان لوگ ادبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تو اس کی لفظیات کا بڑا حصہ فارسی یا عربی ہوتا تھا۔ اور جب یہ ہندوستان کی مختلف بولیوں کے بولنے والوں کے لیے لنگوافرانکا کی حیثیت سے استعمال ہوتی، تو اس کی بیش تر لفظیات بازار میں بکار آنے والے الفاظ پر مشتمل ہوتی۔۔۔ ادبی ہندی تو محض ایک کتابی زبان ہے جو انگریزوں کے زیر اثر شکل پذیر ہوئی۔ انہوں نے دیسی مصنفوں کو ترغیب دلائی کہ عام استعمال کے لیے ہندوستانی کے ایسے روپ میں کتابیں تصنیف کریں جس میں عربی فارسی کے تمام الفاظ نکال کر سنسکرت کے الفاظ ڈال دیے گئے ہوں۔ 18 یہ کتاب پہلے پہلے ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی۔ فریزر کو کہنا چاہیے تھا، ’’جب ہندو اور مسلمان اس زبان کو استعمال کرتے تھے۔۔۔‘‘، لیکن انگریزوں کی سرکاری لائن سے بہت دور جانا اسے غالباً منظور نہ تھا۔ جدید ہندوستانی مؤرخوں میں ڈاکٹر تاراچند نے اردو/ہندی معاملے کے پیچھے چھپی ہوئی سیاست کا برملا ذکر کیا۔ ۱۹۳۹ء میں آل انڈیا ریڈیو، دہلی نے ’’ہندوستانی کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے چھ تقاریر براڈ کاسٹ کیں۔ مقررین حسب ذیل تھے، ڈاکٹر تاراچند، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، پنڈت کیفی اور آصف علی۔ وہ وقت اور وہ موضوع، دونوں ہی ہیجان اور جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ اردو کا معاملہ پنڈت کیفی اور مولوی عبدالحق نے سب سے زیادہ قوت اور استدلال کے ساتھ پیش کیا۔ ڈاکٹر تاراچند نے معاملے کا تاریخی پس منظر اور تجزیہ، اوروں کے مقابلے میں زیادہ تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا۔ یہ تقریریں مذکورہ بالا چھ اشخاص نے مندرجہ بالا ترتیب سے ۲۰فروری ۱۹۳۹ء تا ۲۵ فروری ۱۹۳۹ء، آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر کیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انہیں مکتبہ جامعہ نے آل انڈیا ریڈیو کی اجازت سے، ’’ہندوستانی‘‘ کے زیر عنوان کتابی شکل میں چھاپا۔ تارا چند نے کہا، ہندوؤں کے لیے للولال جی، بدل مصر، بینی نرائن وغیرہ کو (ارباب فورٹ ولیم کالج سے) حکم ملاکہ نثر (گدھ) کی کتابیں تیار کریں۔ انہیں اور بھی زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ادب یا ساہتیہ کی بھاشا تو برج تھی لیکن اس میں گدھ یا نثر نام ہی کے لیے تھا۔ کیا کرتے، انہوں نے راستہ یہ نکالا کہ میرامن، افسوس وغیرہ کی زبانوں کو اپنایا۔ پر اس میں سے فارسی، عربی کے لفظ چھانٹ دیے اور سنسکرت اور ہندی (=برج، اور دیگر بولیوں) کے لفظ رکھ دیے۔۔۔ اس طرح دس برس سے بھی کم مدت میں دو نئی زبانیں اپنے اصلی گہوارے سے سینکڑوں کوس کی دوری پرودیسیوں کے اشارے سے بن سنور، رنگ منچ پر آکھڑی ہوئیں۔ دونوں کی صورت مورت ایک تھی، کیوں کہ دونوں ایک ہی ماں کی بیٹیاں تھیں۔ پھر دونوں کے سنگار، کپڑے اور زیور میں کچھ فرق نہ تھا۔ پر دونوں کے مکھڑے ایک دوسرے سے پھرے ہوئے تھے۔ اس ذرا سی بے رخی نے دیس کو دبدھا میں ڈال دیا۔ اور اس دن سے آج تک ہم الگ الگ دوراہوں پر بھٹک رہے ہیں۔ 19 ریڈیو پر اپنی تقریر میں تاراچند نے اس بات کی طرف صاف اشارہ کیا تھا کہ اردو/ہندی معاملے کے پیچھے انگریزی سیاست تھی۔ پانچ سال بعد، اپنی مختصر کتاب The Problem of Hindustani میں انہوں نے ’’فورٹ ولیم کے کچھ پروفیسروں کے غلط رو جوش و خروش‘‘ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے نتیجہ پھر بھی وہی نکالا کہ پروفیسروں کے اقدامات کے نتیجے میں، ایک نئی طرح کی اردو (وجود میں آئی) جس میں اردو فارسی کی جگہ سنسکرت الفاظ رکھ دیے گئے تھے۔ بادی النظر میں ایسا اس لیے کیا گیا کہ ہندوؤں کو ان کی اپنی ایک زبان مہیا کی جائے۔ لیکن اس اقدام کے نتائج بہت دور تک گئے، اور ہندوستان آج بھی زبانوں کی اس مصنوعی تقسیم کے باعث دکھ اٹھا رہا ہے۔ 20 تاراچند کے تیس ہی برس بعد جدید ہندستان کے سب سے بڑے ماہر لسانیات سنیتی کمار چٹرجی نے اپنے ایک رسالے میں ’’ہندی‘‘ کے مبلغوں کے نعروں کا ذکر کیا۔ چٹرجی نے ان کو ’’ظلمت پسند‘‘ (Obscurantist) نعروں کا نام د یا۔ بعض نعرے جو انہوں نے نقل کیے، حسب ذیل ہیں۔ چٹرجی نے پہلے ہندی مبلغوں کانعرہ لکھا، پھر اس پر اظہار رائے کیا، (۱) ’’ہند، ہندو، ہندی۔ یہ تین ہمارے لیے ایک ہیں۔ ’’اس پر چٹرجی لکھتے ہیں، ’’یہ بات جزوی طو رپر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اس تصور سے مشابہ ہے کہ سچے یا صحیح ہندوستانی اقوام اور فرقے وہی ہیں جو ہندو مذہب کے پیرو ہیں۔ (مزید) استدراک غیر ضروری ہے۔‘‘ (۵) ’’اردو صرف مسلمانی زبان ہے، الگ بھاشا نہیں، اردو کی فارسی/عربی لپی (رسم خط) کو ہٹاؤ، اردو اپنا سچا روپ۔۔۔ ہندی پراپت (حاصل) کرے گی۔‘‘ اس پر ڈاکٹر چٹرجی کا اظہار خیال تفصیل سے نقل کرنے کے لائق ہے، لسانیاتی نقطہ نظر سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہندی اور اردو ایک ہی زبان، مغربی ہندی بولی یا دہلی کی کھڑی بولی ہندوستانی، کے دوروپ ہیں۔ لیکن تاریخی اعتبار سے اردو، اس چیز کی ترمیم شدہ ’’مسلمانیائی ہوئی‘‘ شکل نہیں جو آج ہندی (یعنی سنسکرت زدہ کھڑی بولی) کے نام سے معروف ہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہی ہے۔ وہ فارسی آمیز ہندوستانی، جس نے ا ٹھارویں صدی میں مغل دربار کے حلقوں میں فروغ پایا، (اور جو اس سے پہلے دکن کے دکنی روز مرہ میں ملتی ہے) اسے ہندوؤں نے اپنایا۔۔۔ (پھر) انہوں نے دیسی ناگری کو اپنایا اور بڑی گاڑھی سنسکرت آمیز لفظیات کا استعمال شروع کردیا۔۔۔ اور اس طرح انہوں نے آج کی ادبی ہندی کی تشکیل کی۔ یہ کام ۱۸۰۰ء کے آس پاس ہوااور خاص کر کلکتہ میں۔ آگے چل کر سنیتی کمار چٹرجی کہتے ہیں کہ اگرچہ اس معاملے میں ان کا خیال پہلے کچھ اور تھا لیکن اب انہیں تاراچند کے اس نظریے سے اتفاق ہے کہ ’’سنسکرت آمیز ہندی‘‘ کو ’’فارسی آمیز اردو کے نمونے پر‘‘ خلق کیا گیا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ بچارے سنیتی کمار چٹرجی نے اگرتارا چند کا نظریہ قبول کرنے میں کچھ تعویق کی تو انہیں کسی الزام کامستوجب نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اپنا تو یہ حال ہے کہ خود اردو کے بہت سے ’’ماہرین‘‘ ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ اردو پہلے تھی، جدید ہندی بعد میں آئی۔ میں نے آج تک اردو کے کسی ماہر لسانیات کو صاف لفظوں میں کہتے نہ دیکھا نہ سنا کہ جدید ہندی کچھ نہیں، اردو کی ایک ’’شیلی‘‘ (طرز) ہے۔ واضح رہے کہ ’’شیلی‘‘ کا لفظ ہندی کے علما میں اردو ہندی کا تعلق بیان کرنے کے لیے اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا عام قول یہ ہے کہ اردو کچھ نہیں، وہ ہندی کی محض ایک ’’شبلی‘‘ ہے۔ خیر، اب سنیتی کمار چٹرجی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (۱۰) ’’دراوڑ سینا، شیو سینا جیسی ایک ’ہندی سینا‘بناؤتاکہ ہندی کے لیے لڑیں۔‘‘ سنیتی کمار چٹرجی نے اس پر کوئی استداک نہیں کیا ہے، شاید اس لیے کہ یہاں ان کا ناطقہ سربہ گریباں رہ گیا ہوگا۔ 21 لیکن سنیتی کمار چٹرجی اور تاراچند جیسے ذی ہوش اور غیر متعصب مؤرخین کے بیانات بدظنی اور شک کے پیڑ کو اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہوئے، خاص کر اس لیے کہ اس کی آبیاری تنگ نظری اور متعصبانہ قوم پرستی کے پانیوں نے کی تھی۔ اردو ہندی کے قضیے میں ہندوؤں کے درمیان حاوی اور اکثریتی نظریہ کم و بیش وہی رہا جسے راجا جے کشن داس اور شیوپرشاد نے انیسویں صدی کے اواخر میں بیان کیا تھا۔ فرانسس رابنسن کا قول ہے کہ ’’انیسویں صدی کے اواخر میں کئی باتوں کے باعث اردو بولنے والے اشرافیہ کا غلبہ آہستہ آہستہ گھٹ گیا اور ان میں سے زیادہ تر باتیں انگریزی راج کی وجہ سے تھیں۔‘‘ 22 انگریزوں کی پالیسی کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ ہندوؤں اور خاص کر شمالی ہندوستان کے ہندوؤں میں یہ عقیدہ پیدا کیا جائے کہ ان کے تشخص کو اپنے اظہار کے لیے ایک الگ زبان کی ضرورت تھی، راجا جے کشن داس سرسید کے قریب ترین دوستوں میں تھے۔ انہوں نے ہندی اور ناگری رسم الخط کے مقصود کی حمایت ہرممکن طریقے سے کرنی شروع کردی۔ انہوں نے سرکاری دفتروں سے اردو کی منسوخی کے لیے کوششیں کیں۔۔۔ جب ہندی/ ناگری کا جھنڈا بلند کیا گیا تو بہت سے (ہندو) اشرافیہ جو اردو بولتے تھے، اس جھنڈے کے تلے آگئے۔۔۔ 23 فرانسس رابنسن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ’’۔۔۔ ۱۸۸۰ء اور ۱۸۹۰ء کی دہائیوں میں ہندی تحریک میں ایک اہم نئی بات یہ ہوئی کہ ہندی تحریک نے اردو زبان کے خلاف ایک فرقہ وارانہ صلیبی جنگ کی شکل اختیار کرلی۔۔۔‘‘ 24 یہاں ۱۸۸۲ء کے ایجوکیشن کمیشن کی کارروائی اور اس کے سامنے جو گواہیاں گزریں، ان کی طرف دوبارہ توجہ دلانا غیر مناسب نہ ہوگا۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس کمیشن کے سامنے بھارتیندو نے اردو کے رسم الخط کے بارے میں کیا گل افشانیاں کی تھیں۔ اب اس کمیشن کے سامنے شیو پرشاد کی گواہی کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ بابو شیو پرشاد، ستارۂ ہند، یوپی کے محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے۔ انہوں نے اردو کو چھوڑ کر اپنی وفاداری ہندی سے منسلک کرلی تھی۔ کمیشن کے سامنے انہوں نے کہا، ہندوؤں کی نظر میں، ہندی سے مراد ہے وہ زبان جس سے تمام عربی اور فارسی الحاق مادے کا اخراج اور تنقیہ کردیاگیا ہو۔ یہ مادہ وہ تھا جس کی موجودگی سے ہندوؤں پر مسلمانوں کی بالادستی کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ اس کے برخلاف، ناگری رسم خط کی ایک مذہبی معنویت تھی۔۔۔ اس کے علی الرغم، مسلمانوں کی نظر میں ہندی ایک غلیظ شے تھی اور اسے سیکھنا وہ انتہائی کسر شان سمجھتے تھے۔۔۔ انیسویں صدی کے نصف دوم میں اردو، اور اس کا فارسی رسم خط مسلمانوں کی قوت اور اثر کی علامت بن گئے تھے۔۔۔ 25 سرسید نے اس بات کو دیکھ لیا تھا کہ ایک الگ ’’ہندی‘‘ زبان کاقیام ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضرور رساں ہوگا، اگرچہ ضرر کے اسباب دونوں جگہ مختلف ہوں گے۔ ۲۹ اپریل ۱۸۷۰ء کو انہوں نے محسن الملک کو انگلستان سے لکھا، ایک اور مجھے خبر ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو شیو پرشاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آیا ہے کہ زبان اردو خط فارسی کو، جو مسلمانوں کی نشانی ہے، مٹادیا جائے۔۔۔ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندو مسلمان میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔ مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور اگر ہندو مستعد ہوئے اور ہندی پراصرار کیا، تو وہ اردو پر متفق نہ ہوں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ہندو علیحدہ مسلمان علیحدہ ہوجاویں گے۔ یہاں تک تو کچھ اندیشہ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان ہندو سے علیحدہ ہوکر اپنا کاروبار کریں تو مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہوگا اور ہندو نقصان میں رہیں گے۔ الا اس میں صرف دو امر کا خیال ہے۔ ایک خاص اپنی طبیعت کے سبب سے کہ میں کل اہل ہند، کیا ہندو کیا مسلمان، سب کی بھلائی چاہتا ہوں۔ دوسرے، بڑا خوف اس بات کا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت بداقبالی اور ادبار چھایا ہے۔۔۔ وہ ہرگز اس قابل نہیں ہونے کے جو اپنی بھلائی کے لیے کچھ کرسکیں۔ 26 اردو بولنے والوں کے لیے ہندی/ناگری تحریک کے تہذیبی نتائج میں ایک یہ بھی تھا کہ انہیں اردو رسم الخط اور املا دونوں کے بارے میں جرم اور کم تری کااحساس پیدا ہونے لگا۔ اوپر میں عرض کرچکا ہوں کہ بھارتیندو نے اردو کے خلاف جو زہر اگلا تھا اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس کا رسم خط ’’غیرملکی‘‘ تھا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی قرأت میں ابہام ممکن تھااور اس باعث یہ رسم خط لوگوں کو فریب دہی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ناگری کے طرف دار یہ بھی دعویٰ کرتے تھے کہ یہ داخلی اور فطری طور پر اردو رسم خط سے بہتر ہے۔ گارساں دتاسی نے ہمیں ایک مضمون کے بارے میں خبردی ہے جو راجندرلال متر 27 نے ناگری کی حمایت میں لکھا تھا۔ اس میں مترصاحب نے یہ بھی کہا کہ اردو کا رسم خط ناگری سے کمتر درجے کا ہے۔ 28 یہاں میں یہ بات بھی برسبیل تذکرہ کہتا چلوں کہ ان خیالات کی بھی بیخ افگنی گلکرسٹ کی مرہون منت ہے۔ اس نے ایک بار یہ تجویز رکھی تھی کہ بہت سی مشرقی زبانوں، بشمول سنسکرت، عربی، اور ’’ہندوستانی‘‘، کو رومن رسم الخط میں لکھنا چاہیے۔ 29 مرورایا کے ساتھ اردو رسم خط مخالف آوازیں قوت پکڑتی گئیں اور بالآخر خود اہل اردو میں بہت سے لوگوں کو یقین آگیا کہ یہ آوازیں سچ کہہ رہی ہیں۔ انگریزوں نے تو بہرحال ہندوستانی فوجی اردو کے لیے رومن رسم خط جاری کردیا تھا۔ رومن رسم الخط، اردو کی بہت سی آوازوں کو ادا کرنے سے عاری ہے، لیکن فوجی ضروریات کوئی بہت زیادہ نفاست پر مبنی تھیں بھی نہیں۔ (انجیل کے نئے عہد نامے کے رومن اردو ایڈیشنوں کے علاوہ، جو مشنری اسکولوں میں بکار آمد تھے، ہندوستانی فوج کے باہر بہت کم لوگوں کا سابقہ رومن اردو سے ہوا ہوگا۔) 30 لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اردو کے رسم الخط کو رومن کردینے کی تجویز پر سنجیدگی سے کبھی غور نہیں کیا گیا۔ گارساں دتاسی ہمیں بتاتا ہے کہ اردو کے نکتہ چیں، جو ’’تعصب سے اندھے ہو رہے ہیں‘‘، اس کے رسم الخط کی برائیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہی رہا تو انگریز شاید یہ فیصلہ کرگزریں کہ اردو کو رومن رسم خط میں لکھا جائے۔ دتاسی لکھتا ہے کہ انگریزوں نے اگر یہ فیصلہ کیا، تو یہ بڑی بری بات ہوگی۔ 31 گارساں دتاسی یا اردو کے دوسرے بہی خواہوں کا جو بھی خیال رہا ہو لیکن اردو املا، حتی کہ اس کے رسم خط میں بھی، ’’اصلاح‘‘ کی مانگ اب تک ہوتی رہتی ہے۔ اور اس مانگ کے اٹھانے والے صرف اردو مخالف لوگ نہیں ہیں۔ اردو کاادبی اور لسانی سماج دنیا میں غالباً واحد سماج ہے جو اپنی زبان کے املا اور رسم الخط کے تقریباً ہر پہلو کے بارے میں کچھ نا آسودہ، بلکہ مجرم بھی محسوس کرتا ہے۔ اس پر طرہ اس بات پر احساس جرم ہے کہ اردو کہیں واقعی ’’فوجی‘‘ اور ’’لشکری‘‘ زبان نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ اس آخری بات کے لیے ذمہ دار ہمارے وہ جدید مؤرخین زبان و ادب ہیں جنہوں نے ۱۸۸۰ء کے بعد ہماری تاریخیں لکھیں یا مرتب کیں۔ ان لوگوں کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ اگر اسم لسان کے طور پر لفظ ’’اردو‘‘ اٹھارویں صدی کے آخری چند برسوں سے ہی مستعمل ہوا، تو پھر اس نام کے پیچھے کسی فوجی تعلق یا پس منظر کا ہونا غیر ممکن ہے۔ علامہ حافظ محمود شیرانی مرحوم نے یہ بات لکھی ضرور، کہ زبان کے نام کے طور پر لفظ ’’اردو‘‘ کی تاریخ بہت پرانی نہیں، لیکن انہوں نے اس کے مضمرات پر غور نہ کیا۔ 32 اوروں کو تو یہ بھی کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ گریہم بیلی واحد مؤرخ ادب ہے جس نے اس تضاد کو محسوس کیا اور اس نے کچھ جھجکتے ہوئے اس مسئلے کاایک حل بھی پیش کیا۔ افسوس یہ کہ اس ضمن میں اس نے بہت سی ایسی باتیں بھی کہیں جنہیں بمشکل ہی سنجیدہ کہا جاسکتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر بیلی کے مباحث کو کسی نے آگے نہ بڑھایا۔ بیلی نے لکھا ہے، اردو کی پیدائش ۱۰۲۷ء کی ہے۔ اس کی جاے پیدائش لاہور اور قدیم کھڑی بولی اس کی سوتیلی ماں ہے۔ برج سے اس کا کوئی براہ راست رشتہ نہیں۔ زبان کا نام ’’اردو‘‘ سات سو برس بعد ظہور میں آیا۔۔۔ 33 اس بات سے قطع نظر، کہ اردو کی ’’تاریخ پیدائش‘‘، ’’جائے پیدائش‘‘، اور ’’سوتیلی ماں‘‘ کے بارے میں بیلی کے بیانات گپ سے زیادہ نہیں، بیلی نے مزید کہا کہ ہمیں تین سوالوں کے جواب دینے ہیں، (۱) ’’اردو‘‘ نام دینے میں صدیوں کی مدت کیوں لگی؟(۲) اگر اٹھارویں صدی میں کوئی نیا نام دینا ہی تھا، تو پھر نئے نام کے لیے ایسا لفظ کیوں اختیار کیا گیا جس کا استعمال ’’فوج‘‘ کے معنی میں بھی ایک مدت مدید پہلے ترک ہوچکا تھا؟(۳) اگر بابر کے زمانے (۱۵۲۶ء) میں فوج کو بھی ’’اردو‘‘ نہیں کہتے تھے، تو یہ نام ایسی زبان کو کیوں دیا گیا جو اس وقت سے کم از کم پانچ سو برس پہلے معروض وجود میں آچکی تھی؟ 34 گریہم بیلی کے سوالات تو پتے کے تھے، لیکن اس نے کہا کہ مسئلے کو بیان کرنا آسان اور اسے حل کرنا مشکل ہے۔ خود اس نے مسئلے کا جو حل پیش کیا وہ نہایت کمزور تھا۔ اس نے کہا کہ شاید، ’’زبان اردو‘‘، یا اس طرح کا کوئی نام یا بیانیہ فقرہ، لوگوں کی زبان پر اسی وقت سے رواں رہا ہوگا جب فوج کے لیے ’’اردو‘‘ کا لفظ استعمال تھا۔ اور بہت آہستہ آہستہ، کئی سو برس بعد، یہ فقرہ کتابوں میں بھی دبے پاؤں داخل ہوگیا۔ اور جس زمانے سے اس کا استعمال ہمارے علم میں ہے، شاید یہ اس کے بھی پہلے سے رائج تھا۔ تنہا لفظ ’’اردو‘‘ اور بھی تاخیر سے استعمال میں آیا۔ 35 مندرجہ بالا بیان کسی اعتبار سے درست نہیں، نہ تاریخی نہ منطقی۔ لیکن بیلی کو اس بات کا اعزاز ضرور ملنا چاہیے کہ اس نے اس بات کا احساس کیا کہ تنہا لفظ ’’اردو‘‘ کا استعمال بالکل حال حال کا ہے۔ اور ’’اردو‘‘ کے نام کے بارے میں کچھ گڑ بڑ ہے جو حل کا تقاضا کرتی ہے۔ اب اگر اردو علما نے اس کے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی، تو یہ ان کا مسئلہ تھا۔ بیلی نے ایک اور حل کی طرف اشارہ کیا لیکن خاصی جھجک کے ساتھ۔ اس نے لکھا، ژول بلاک نے ایک توجہ انگیز بات تجویز کی ہے۔ وہ یہ کہ ’’اردو‘‘ نام یورپی لوگوں کی دین ہے۔ لیکن وہ خود کہتا ہے کہ یہ اس کا محض ایک وجدانی تصور ہے۔ اسے پایۂ ثبوت تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ 36 بیلی کے جس مضمون سے میں نے اقتباسات دیے ہیں، وہ ۱۹۳۰ء کا ہے۔ اس نے بلاک کے خیال پر مزید تحقیق وتفحص نہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ گلکرسٹ اس زبان کو ہمیشہ ’’ہندوستانی‘‘ کہتا تھا اور اس نے ۱۷۹۶ء میں خود کہا ہے کہ اسے کبھی کبھی ’’اردو‘‘ بھی کہتے تھے، 37 اس لیے یہ نام انگریزوں کا تجویز کردہ نہیں ہوسکتا۔ بیلی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ’’اردو‘‘ نام انگریزوں کا دیا ہوا نہ تھا۔ لیکن اس نے اس بات کو نظرانداز کردیا کہ ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان کے معنی ’’لشکر‘‘ وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ یہ نام ’’زبان اردوے معلاے شاہ جہاں آباد‘‘ کا مخفف ہے۔ اور یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس نا م کو بظاہر سیاسی وجوہ کی بناپر دور و نزدیک میں رائج کیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ بیلی بھی ’’لشکری‘‘ غلطی کا شکار ہوگیا، کہ اردو زبان میں ’’اردو‘‘ کے معنی ’’لشکر، فوج‘‘ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو کیا، ہندی/گجری/ریختہ/دکنی، کسی بھی زبان میں لفظ ’’اردو‘‘ بہ معنی ’’لشکر، فوج‘‘ کے استعمال کی کوئی مثال دستیاب نہیں۔ ہمارے یہاں اس لفظ کے مقبول ترین معنی تھے ’’شہر شاہجہاں آباد‘‘، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اور جیسا کہ خود فیلن اور پلیٹس جیسے انگریزوں کے تحریر کردہ لغات سے بھی ظاہر ہے۔ 38 اسی طرح، اس بات کا بھی الزام اردو کے علما پر جانا چاہیے کہ جدید ہندی کی قدامت بلکہ اردو پر اس کے تفوق زمانی کے بارے میں ہندی علما نے جو کہا، اس کا رد اردو علما نے سائنسی اور تاریخی بنیادوں پر نہ کیا بلکہ کیا ہی نہیں۔ جب ہندی والوں نے دعویٰ کیا کہ اردو کچھ نہیں، ’’ہندی‘‘ کی محض ایک ’’شیلی‘‘ (طرز) ہے، تو اردو کے علما کو جواباً کہنا چاہیے تھا کہ آج کی ہندی دراصل اردو کی ایک شیلی ہے، اور جس زبان کو آج اردو کہا جاتا ہے، اس کا قدیم نام ہی ’’ہندی‘‘ ہے۔ پریم چند کہیں سے بھی مؤرخ نہ تھے، لیکن اس معاملے میں ان کے خیالات ا ردو مؤرخوں سے زیادہ صاف تھے، اگرچہ آخر آخر میں وہ بھی بہتی گنگا کے دھارے میں بہہ گئے، جیسا کہ ہم نے باب اول کے شروع میں دیکھا۔ 39 پریم چند نے ’’ہندوستانی‘‘ کورائج کرنے کی سفارش کی اور ’’ہندوستانی‘‘ سے ان کی مراد تھی، سہل کی ہوئی اردو/ہندی۔ لیکن انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ جدید ہندی الگ سے کوئی زبان نہیں۔ بمبئی کے مقام پر ایک خطبہ انہوں نے ۱۹۳۴ء میں دیا تھا۔ اس میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں ہندی اور اردو دونوں ایک زبان ہیں۔ کریا (فعل) اور کرتا (فاعل)، فعل اور فاعل، جب ایک ہیں تو ان کے ایک ہونے میں کوئی سندیہہ (شک) نہیں ہوسکتا۔‘‘ 40 اسی طرح، ۱۹۳۴ء ہی میں انہوں نے مدراس میں دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ’’مزہ یہ ہے کہ ’ہندی‘، مسلمانوں کا دیا ہوا نام ہے۔ ابھی پچاس سال پہلے تک جسے آج اردو کہا جارہا ہے، اسے مسلمان بھی ’ہندی‘ کہتے تھے۔‘‘ 41 لیکن پریم چند کے یہ الفاظ اور ان کی طرح کے اور بیانات، محض برسبیل تذکرہ رایوں کا حکم رکھتے تھے، تھیوری کا نہیں۔ لہٰذا اردو کے ’’مسلم فوجی کردار‘‘ کے بارے میں افسانے رائج رہے، اور آج بھی بڑی حدتک رائج ہیں۔ ورنہ تاراچند کا قول ہم سے کیوں نظر انداز ہوجاتا کہ گزشتہ صدیوں میں کیا ہندو کیا مسلمان، شائستہ سوسائٹی کی زبان اور سارے ملک کی لنگوافرانکا، ’’ہندی‘‘، یعنی فارسی آمیز ہندوستانی (=کھڑی بولی) تھی، نہ کہ وہ جدید ہندی جو سنسکرت آمیز ہندوستانی (=کھڑی بولی) ہے۔ (ملاحظہ ہو باب دوم، حاشیہ۶۔) حواشی(۱) کرسٹو فرکنگ کا کہنا ہے کہ جدید ہندی میں کھڑی بولی کی روایت چونکہ نسبتاً نوعمر ہے، اس لیے ’’انیسویں صدی میں ہندی کے حامیوں اور بیسویں صدی میں ہندی کے مؤرخوں نے عام طور پر برج، اودھی اور دوسری علاقائی معیاری بولیوں کو بھی قدیم ’ہندی‘ ادب کے مباحث میں شامل کرلیا ہے۔ اور ماضی قریب اور زمانۂ حال کے ادب سے بحث کرتے وقت وہ عام طور پر ان بولیوں کی روایت پر صرف کھڑی بولی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ ایسے اساطیر کی تعمیر، جن کے ذریعے اشرافیہ طبقہ، گروہی تشخص کو قائم کرنے والی علامتوں کو قدر کا حامل سمجھتا ہے، خود ان علامتوں کے داخلی تضاد کو نظر انداز کرکے ہی ہوتی ہے۔‘‘ کنگ، ص۲۵۔ (۲) اس سمت میں پہلا بڑا قدم غالباً ڈاکٹر بابو رام سکسینہ نے اٹھایا۔ ملاحظہ ہو ان کی کتاب ’’دکنی ہندی‘‘، مطبوعہ الٰہ آباد، ۱۹۵۲ء۔ اس اطلاع کے لیے میں پروفیسر جعفر رضا کا ممنون ہوں۔ (۳) ڈاکٹر تاراچند نے بلاک کا اقتباس اصل فرانسیسی میں نقل کرکے ساتھ ہی اس کا انگریزی ترجمہ دیا ہے۔ ملاحظہ ہو تارا چند: The Problem of Hindustani, Allahabad Indian Periodicals, Ltd. 944, p.88.(۴) تاراچند: ایضاً، ص۸۷۔ (۵) یہ بھارتیندو ہریش چندر کی اس گواہی کا اقتباس اور ترجمہ ہے جو انہوں نے ۱۸۸۲ء کے ایجوکیشن کمیشن کے روبرو بہ زبان انگریزی گزاری تھی۔ اس کی مزید تفصیلات، اور ’’اردو بیگم‘‘ کے بارے میں بھارتیندو کی ہجویہ تحریر کے لیے دیکھیے، Sagaree Sen Gupta, “Krsna the Cruel Beloved: Harishechandra on Urdu”, in Annual of Urdu Studies, no.9, University of Wisconsin, Madison. Ed. Muhammad Umar Memon.(۶) وسودھا ڈالمیا، ص ص ۱۱۸ تا ۱۱۹۔ مزید دیکھیں، تاراچند، ص۸۶۔ تاراچند نے بھارتیندو کا وہ اقتباس بھی دیا ہے جو وسودھا ڈالمیا نے نقل کیا ہے۔ تاراچند نے اسی صفحے پر یہ بھی کہا ہے، ’’ان تمام صدیوں میں ہندی (یعنی فارسی آمیز ہندوستانی)، نہ کہ جدید ہندی (سنسکرت آمیز ہندوستانی) ہندوستان کی لنگوافرانکا تھی، اور شائستہ سوسائٹی کی زبان تھی، خواہ ہندو خواہ مسلم۔‘‘ (۷) مثال کے طور پر ملاحظہ ہو بھارتیندو کا خط، کلکتہ کے رسالے ’’بھارت متر‘‘ کے مدیر کے نام۔ بحوالہ ’’بھارتیندو‘‘ از مدن گوپال، اردو ترجمہ از مظفر حنفی، نئی دہلی، ساہتیہ اکاڈمی، ۱۹۸۴ء، ص ص ۶۹ تا ۷۰۔ (۸) پلیٹس کی ڈکشنری (۱۸۸۴ء) کا پورا عنوان لائق لحاظ ہے: A Dictionary of Urdu, Classical Hindi, and English. چند ہی برس پہلے فیلن نے اپنی ڈکشنری (۱۸۷۹ء) کا نا م رکھا تھا A New Hindustani English Dictionary۔ پلیٹس نے ۱۸۷۴ء میں جب اپنی گرامر لکھی تو دونوں طرف اپنے پاؤں رکھے، یعنی کتاب کا نام A Grammar of Hindustani, or Urdu. رکھا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزوں نے پہلے پہلے تو لفظ ’’ہندوستانی‘‘ پر زور دیا، پھر آہستہ آہستہ ’’اردو‘‘ کو اختیار کرلیا۔ (۹) محمد حسین آزاد کے خیالات کے بارے میں میرا انگریزی مضمون ملاحظہ ہو:Constructing a Literary History, a Canon and a Theory of Poetry “Ab-e-Hayat” by Muhammad Husain Azad, in “Scocial Scientist”. New Delhi, Vol.23, no. 10-12, guest edited by Sheldon Pollock.(دیا شنکر نسیم کے لیے دیکھیں، ’’آب حیات‘‘، ص ص ۳۰۸ تا ۳۰۹) (۱۰) گھنشیام لال عاصی، ’’کلام عاصی‘‘، مرتبہ من موہن لال ماتھر، دہلی، تاریخ ندارد، (غالباً ۱۹۳۰ء) ص ص ۷ تا ۸۔ (۱۱) ’’آب حیات‘‘، ص ۵۵۶۔ (۱۲) خواجہ الطاف حسین حالی، ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘، الٰہ آباد، رام نرائن لعل، ۱۹۵۳ء (۱۸۹۳ء)، ص۱۹۰۔ اس صفحے پر دو شعر درج ہیں۔ حالی نے دونوں کو میر سے منسوب کیا ہے۔ دوسرا شعر درحقیقت بالمکند حضور کا ہے۔ دیا شنکر نسیم کے بارے میں دیکھیں، ص ص ۲۱۶ تا ۲۱۷، ۲۳۴ تا ۲۳۵، ۲۳۷، ۲۳۸۔ (۱۳) الطاف حسین حالی، ’’کلیات نثر حالی‘‘، جلد دوم، مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۸ء، ص ص ۲۰۳ تا ۲۰۴۔ (۱۴) علامہ شبلی نعمانی، ’’مقالات شبلی‘‘ جلد ہشتم، اعظم گڑھ، معارف پریس، ۱۹۳۹ء، ص۱۸۹۔ (۱۵) جوش ملیح آبادی، ’’یادوں کی برات‘‘، دہلی میڈیا انٹرنیشنل، ۱۹۹۷ء، ص۴۳۰۔ (۱۶) محمد انصار اللہ، ’’اردو نثر پر ہندو مذہب کا اثر‘‘، مطبوعہ ’’نیا دور‘‘، لکھنؤ، ستمبر ۱۹۹۴ء، ص ص ۱۹ تا ۲۰۔ مزید دیکھیے، محمد انصار اللہ: ’’داتا دیال مہرشی شیوبرت لال ورمن‘‘، نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی، ۱۹۹۱ء، ص۳۸۔ (۱۷) فراق گورکھ پوری، ’’ایک خط کا جواب‘‘، مطبوعہ یادگاری سودینیئر، فراق گورکھ پوری فاؤنڈیشن، دہلی ۱۹۹۶ء، ص ص ۴۰ تا ۴۱۔ فراق صاحب کا یہ مضمون پہلی بار پندرہ روزہ ’’آج کل‘‘ دہلی، بابت ۱۵/اگست ۱۹۹۵ء (مدیر وقارعظیم) میں شائع ہوا تھا۔ اگست ۱۹۹۵ء کے ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی (مدیر، محبوب الرحمن فاروقی) میں یہ دوبارہ شائع ہوا۔ (۱۸) W.Frazer: A Literary History of India, London, 1915, p.265.(۱۹) ’’ہندوستانی‘‘، مطبوعہ دہلی، مکتبہ جامعہ، (غالباً) ۱۹۳۹ء، ص ص ۱۱ تا ۱۲۔ (۲۰) Tara Chand: The Problem of Hindustani, pp57-58.مزید دیکھیں، فرمان فتح پوری، ’’ہندی اردو تنازع‘‘، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۷۷ء، ص۵۳۔ (۲۱) Suniti Kumar Chatterji: India: A Polyglot Nation, and its Linguistic Problems vis a vis National Intgegration, Mumbai, Mahatma Gandhi Memorial Research Centre, 1973, pp. 50-54(۲۲) Francis Robinson: Separatism Among Indian Muslims, Cambridge, 1974, p.3.(۲۳) فرانسس رابنسن، ص۷۴۔ (۲۴) فرانسس رابنسن، ص۷۵۔ (۲۵) بابو شیوپرشاد نے اپنی گواہی انگریزی میں گذاری تھی، یہ ان کے انگریزی الفاظ کا ترجمہ ہے۔ شیوپرشاد نے اس بات پر بھی خفگی کا اظہار کیا کہ اردو کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے، اور وہ بہت سے ہندوؤں کی مادری زبان بن گئی ہے۔ رابنسن، ص۳۶۔ (۲۶) سرسید احمد خاں، ’’مکتوبات سرسید‘‘، مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، جلد اول، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۶ء، ص ص ۴۶۳ تا ۴۶۴۔ (۲۷) راجندر لال متر، جن کا صحیح نام راجیندر لال مترا تھا، اوائلی جدید بنگالی کی تہذیب میں بڑی بااثر اور مؤثر شخصیت تھے۔ خود انہوں نے ماکس میولر (Max Mueller) اور گرانٹ ڈف (Grant Duff) جیسے ’’مستشرقین‘‘ اور ’’مؤرخین‘‘ کا اثر قبول کیااور بھارتیندو جیسے ہندوستانی ادیبوں کو متاثر کیا۔ وہ عرصۂ دراز (۱۸۵۶ء تا ۱۸۹۱ء) تک مختلف حیثیتوں میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال سے منسلک رہے اور انہوں نے مغربی اور ہندوستانی (=ہندو) متون (texts) اور سبھاؤ (ethos) کے درمیان علمی تعلقات قائم کرنے کے کام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس عمل کے دوران انہوں نے ہندوستانی / ہندو حقیقت کی تعمیر اس نہج پر کرنے میں مدد دی کہ ان کی وہ مدد ہندو قوم پرستی کی اٹھتی ہوئی لہر کے لیے بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ (وسودھا ڈالمیا، ص ص ۱۳۲ تا ۱۳۳، ۴۱۸ تا ۴۱۹) (۲۸) بحوالہ فرمان فتح پوری، ’’اردو املا اور رسم الخط‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۷ء، ص۷۲۔ (۲۹) ملاحظہ ہو، M.Atique Siddiqi: Origin of Modern Hindustani Literature: Gilchrist Letter, Aligarh, 1963, pp.39-40 ہندوستان میں سامراجی نو آبادیاتی کلام (discourse) کی زبردست کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محمد عتیق صدیقی جیسا جدید ذہن اور روشن فکر مؤرخ بھی اس بات کی تعریف کرتا ہے کہ گلکرسٹ نے ہندوستانی زبانوں کا رسم خط رومن کردینے کی تجویز رکھی تھی۔ عتیق صدیقی کے خیال میں یہ تجویز ہمارے ملک کو ’’متحد‘‘ کرنے کی طرف ایک قدم تھی۔ بقول صدیقی، ’’ہندوستانی رسم خط کو متحد کرنے کی غرض سے گلکرسٹ کی یہ تجویز، کہ ان سب کو رومن میں بدل دیا جائے، اس کی غالباً سب سے بڑی کارگزاری تھی۔ اس نے ۱۸۰۳ء میں اپنی کتاب The Oriental Fabulist یہ ثابت کرنے کے لیے شائع کی کہ Hindoostanee, Persian, Arabic, Brij Bhasha, bongla اور Sanskrit کو آسانی اور صحت کے ساتھ رومن رسم الخط میں لکھا جاسکتا ہے۔‘‘ (۳۰) ’’رومن اردو‘‘ کاکچھ اندازہ لگانے کے لیے دیکھیں، Major J. Willatt. A Text Book of Urdu in the Roman Script, Madras, OUP, 1941.(۳۱) بحوالہ فرمان فتح پوری، ’’اردو املا اور رسم الخط‘‘، ص۷۳۔ (۳۲) ملاحظہ ہو، ’’مقالات شیرانی‘‘، جلد اول، صفحہ ۱۰ تا ۴۴۔ (۳۳) Grahme Bailey: Studies in North Indian Languages, London, Lund, Humphrys & Co. Ltd., 1938, p. 1. اس کتاب کی طرف متوجہ کرنے کے لیے میں پروفیسر فرانسس پرچٹ کا ممنون ہوں۔ (۳۴) بیلی، ص۶۔ (۳۵) بیلی، ص۶۔ (۳۶) بیلی، ص۳۔ (۳۷) ملاحظہ ہو، باب اول حاشیہ۱۸۔ (۳۸) ملاحظہ ہو، باب اول حاشیہ ۲۷۔ (۳۹) ملاحظہ ہو، باب اول حاشیہ۱۔ (۴۰) پریم چند، ’’ساہتیہ کا ادیشیہ‘‘، الٰہ آباد، ہنس پرکاشن، ۱۹۸۳ء، ص۱۲۴۔ (۴۱) پریم چند، ’’ساہتیہ کا ادیشیہ‘‘، ص۱۰۸۔ پریم چند کی ان تحریروں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے میں پروفیسر جعفر رضا کا ممنون ہوں۔