ترقی پسند تحریک پر ایک نظر
آزادؔ نے آب حیات میں میرؔ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک کرم فرما نے ان کے لیے ایک ایسے مکان کا انتظام کیا، جس کے ساتھ ایک بہت اچھا باغ بھی تھا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے جاکر دیکھا تو باغ کی طرف کی کھڑکیاں بند تھیں اور میرؔ فکر سخن میں مصروف۔ انہوں نے کھڑکیاں کھولیں اور میرؔ سے کہا کہ ادھر باغ ہے اور میں آپ کو اس لیے یہاں لایا تھا کہ آ پ کی کچھ تفریح ہو۔ میرؔ نے اپنے اشعار کے مسودوں کی طرف اشارہ کرکے کہا میں تو اس باغ کی تیاری میں ایسا مصروف رہتا ہوں کہ اس باغ کی خبر ہی نہیں۔
ترقی پسند تحریک دراصل اس نقطۂ نظر کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر شروع ہوئی۔ اس نے خون جگر کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ایک ادبی تحریک ایسا کر بھی نہیں سکتی۔ لیکن اس نے خون جگر کے ساتھ فطرت کی رنگینی اور انسانی جدوجہد کی لالہ کاری پر بھی زور دیا۔ کوسلر نے اپنی کتاب یوگی اور کمیسار (The Yogi and Commissar) میں ترجنیف کے متعلق لکھا ہے کہ وہ لکھتے وقت گرم پانی کی بوتل پیروں کے قریب رکھتا تھا اور اپنا دریچہ کھلا رکھتا تھا۔ ہمارے یہاں یہ دریچے ایک عرصے تک بند رہے اورجب کھلے تو بعض لوگوں نے دریچے کی سیر ہی کو ادب سمجھا۔ مگر پوری ترقی پسند تحریک دریچے کا ادب نہیں ہے اور نہ دریچے کی سیر ہے۔ یہ دریچے تازہ ہواؤں اور نئے تصورات کے اندر آنے کے لیے اور اندر کے فتنوں کو دن کی روشنی میں لانے کے لیے ہیں۔
یوں تو اردو ادب میں ترقی پسند عناصر غدر کے بعد سے نمایاں ہیں اور غدر کے پہلے کے ادب میں بھی جابجا ان کی جھلک ملتی ہے۔ یعنی ترقی پسندی محض آج کل کے ادیبوں کی جاگیر نہیں ہے۔ مگر حالیؔ کے زمانے سے یہ رجحان ادب میں اتنا اہم ہو گیا کہ اس نے ساری فضا کو متاثر کیا۔ حالیؔ کے بعد پریم چند، اقبالؔ اور جوشؔ نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور اس میں بعض مستقل اضافے کئے مگر یہ تحریک باقاعدہ طو پر ۱۹۳۵ء سے شروع ہوئی۔ جب چند ترقی پسند مصنفین کاایک اعلان شائع ہوا اور ملک کے بعض مقتدر ادیبوں نے اس کی حمایت کی۔
چنانچہ گزشتہ دس گیار برس میں اس تحریک نے چند اصولی سوال اٹھائے ہیں، زندگی اور ادب کے کچھ مطالعے کئے ہیں، تخلیقی جوہر کو ذہن دیاہے، موضوع اور اسلوب کی دنیا میں کچھ تجربے کئے ہیں، کچھ بت توڑے ہیں، کچھ بنائے ہیں، کچھ فریبوں سے آزاد ہوئی ہے اور کچھ میں مبتلا ہوگئی ہے۔ کہیں فکر انسانی کو روایت پرستی اور فرسودگی کی لعنت سے آزاد کیا ہے۔ کہیں اس کے لیے بعض پابندیاں خوشی سے قبول کرلی ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی اپنے نصب العین، اپنے اثرات اور اپنے امکانات کی وجہ سے، علی گڑھ تحریک کے بعد اردو میں یہ دوسری بڑی تحریک ہے اور اب اسے شروع ہوئے اتنا عرصہ گزر گیاہے کہ اس کی رفتار پر ایمان داری سے تبصرہ ہو سکتا ہے۔
علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک دونوں میں بعض باتیں مشترک ہیں، اس لیے علی گڑھ تحریک کا موازنہ ترقی پسند تحریک سے کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔ علی گڑھ تحریک ایک خالص ادبی تحریک نہ تھی، ترقی پسند تحریک بھی صرف ادبی نہیں۔ لیکن علی گڑھ تحریک کے بانیوں میں بعض دیوپیکر اشخاص تھے، جو اس تحریک کو نصیب نہ ہوئے۔ سرسید، آزادؔ، حالیؔ، نذیر احمد، قدیم سرمائے سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہیں زبان اور متعلقہ علوم پر اچھی خاصی قدرت تھی۔ یہ قدرت ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں کے یہاں عام نہیں ہے۔ علی گڑھ تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ ترقی پسند تحریک ایک باغیانہ تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ایک نئے متوسط طبقے کی جینے کی خواہش پر مبنی تھی۔ ترقی پسند تحریک متوسط طبقے کے لیے ذہنی غذا فراہم کرنے کے بجائے ایک نئے اجتماعی نظام کی آواز ہے۔
دونوں تحریکیں محض ادب برائے ادب یا ادب برائے جمال کی قائل نہیں۔ دونوں نے ادب سے ایک کام لیا۔ علی گڑھ تحریک نے ادب ہی کے ذریعے سے اصلاح، تبلیغ اور تلقین کی۔ اس نے سب سے پہلے علانیہ ادب کو پروپیگنڈا بنایا اور اس پر زور دیا کہ اس پروپیگنڈے سے ادب کو بھی نفع پہنچ سکتا ہے۔ اس کے سامنے ایک اخلاقی اورسماجی نصب العین بھی تھا اور اگرچہ اخلاق اور سماج دونوں کے متعلق اس کا تصور قدرے محدود تھا، مگر نیچر، قوم، اخلاق کے نعرے ادب کی محفل میں نئے بھی تھے اور صحت بخش بھی۔ اس کے اثر سے ہماری ذہنی فضا وسیع ہوئی، مغرب اور مغربیت، مشرق کے سنگین قلعے میں درآئے اور اپنا رنگ دکھانے لگے۔ ادب، چٹخارے اور چاشنی کی جگہ غذا اور تغزیہ کی طرف مائل ہوا، اس نے اپنی ملکوتیت اور ماورائیت کچھ کم کی اور اس دنیا کے حسن کو بھی نظر بھر کر دیکھا۔
جذبات کے ہیجان کی بجائے ذہن میں روشنی پیدا کرنے کی فکر ہوئی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ نثر کی خاموش اور دلنشیں آواز نے بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ لوگ الفاظ پر سر دھننے کی بجائے معنی اور مفہوم پر بھی غور کرنے لگے۔ ادبی شعور نے شاعری کو ایک ’’مقدس دیوانگی‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا، اور عقلیت کی روشنی میں شعر اور اس کے لوازم پر بحث ہونے لگی۔ ابھی تک ادب بغیر سہارے کے تو نہ چل سکتا تھا مگر اس نے جو سہارے لیے وہ برگزیدہ اور استوار سہارے تھے۔ اس وجہ سے باوجود ایک مدھم آغاز کے بیسویں صدی کے شروع ہی میں اس نے ساری ادبی دنیا پر قبضہ کر لیا اور پہلی جنگِ عظیم تک قدیم اور جدید کی جنگ کا پہلا معرکہ سر ہو چکا تھا۔
لیکن انیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے، دورنگ ادب میں نمایاں ہورہے تھے۔ ایک وہ جو نیاکم تھا اور پرانا زیادہ، جو شبلیؔ وشررؔ کے یہاں اپنی بہار دکھاتا ہے۔ دوسرا مخزنؔ اور اس کے حلقے کا رنگ ہے۔ جو نئی تعلیم یافتہ نسل کی ادبی بلوغت کو ظاہر کرتا ہے۔ شبلیؔ نے ابوالکلام، محمد علی اور اقبال کو پیدا کیا۔ نئی نسل نے پہلے ادب لطیف کو گلے لگایا، اور مغربیت کے شوق میں نثر میں شاعری کی، مگر جنگ عظیم نے بہت جلد اس کا نشہ ہرن کر دیا اور جنگ کے بعد جو سیاسی خلفشار رونما ہوا اس کے نتیجے کے طور پر ادب میں وطن پرستی، مقامی رنگ، غنائیت، سادگی جذباتیت، ماحول کی مصوری، فطرت کے حسن کا احساس آیا۔ غزل کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ گیتوں کا رواج ہوا اور ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ اقبال کے باوجود عظمت اللہ، افسرؔ، جوشؔ، حفیظؔ، اخترؔ شیرانی کی نظمیں اور حسرت وفانیؔ کی غزلیں بہت مقبول تھیں۔ نثر یا تو رنگین تھی یانشہ آور۔
نئی نسل کے سب اچھے لکھنے والے ادب لطیف کے دلدادہ تھے، یا پھر عبدالحق اور پریم چند کے ذریعے سے حالیؔ کا رنگ اپنا اثر جما رہا تھا۔ ۱۹۳۰ء کے قریب پریم چند کے متعدد افسانوں اور کئی ناولوں کی شہرت آسمان پر تھی، یعنی شہری زندگی میں دیہات کی فضا کا نفوذ لوگوں کو بھا رہا تھا اور وہ جذباتی، اصلاحی اور صلح پسند پیغام جو پریم چند پیش کر رہے تھے، حریت اور مساوات کی شدید مگر قدرے سطحی خواہشات کے لیے آسودگی کا باعث ہو رہا تھا۔ اس وقت تک ادب کے متعلق وہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے جو آرنلڈ نے انیسویں صدی کے اپنے ادب کے متعلق کہی تھی کہ باوجود توانائی اور تخلیقی قوت کی بہتات کے، یہ علم کے لحاظ سے تہی مایہ تھی۔
With plenty of energy
Plenty of creative force
It did not know enough.
چنانچہ اس ادب میں جو امید پروری ملتی ہے، جو سنہرے خواب ہیں، جو جذباتیت اور شدت ہے وہ اس کی سطحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ادب ابدیت کم رکھتا ہے۔ اس کے نغموں کی شیرینی کچھ عرصے کے بعد پھیکی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کے پاس جذبات ہیں، ذہن نہیں ہیں۔ گرمی ہے، روشنی نہیں ہے، دل ہے، دماغ نہیں ہے، خیالات محدود ہیں اور معلومات ناکافی پھر بھی اس کی سچائی اوراس کا خلوص قابلِ قدر ہے۔ مجھے اب تک یاد ہے 1932ء میں علی گڑھ میں ایک مشاعرہ ہوا تھا، جس میں اور مقتدر شعرا کے ساتھ حفیظؔ بھی تھے۔ لیکن سب سے مقبول وہی ہوئے، چھے سات برس کے بعد وہ علی گڑھ آئے۔ ان کے کلام پر واہ واہ بھی بہت ہوئی مگر غالباً جیسی وہ چاہتے تھے، ویسی نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ شاید ان کے کلام میں وہ زور نہیں رہا۔ یہ بات نہ تھی، سننے والوں کا ادبی شعور کہیں سے کہیں پہنچ چکا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں ۱۹۳۰ء کے بعد ہی سے ایک نئی تلخی اور بیزاری ملتی ہے جسے مغرب کے اثر نے اور تیز کردیا مگر جو محض مغربیت کی پیداوار نہیں ہے۔ جنگ عظیم نے جو اژدہے کے دانت بوئے تھے ان کی کھیتی اب تیار ہوچکی تھی۔ اقبالؔ نے اگرچہ ’’خضرِ راہ‘‘ میں مزدور کی حکومت اور آنے والے دور کا پیغام سنایا تھا مگر لوگ پریم او رشانتی اور امن کے خواب دیکھنے میں اتنے محو تھے کہ انہوں نے اس آواز پر کان نہیں دھرا۔ یہاں تک کہ نذرالاسلام کے ترجموں اور جوشؔ کے نئے سماجی رحجان اور بعض مخصوص اقتصادی حالات نے ’’انگارے’‘ کی اشاعت کو ایک ادبی بغاوت کا رنگ دے دیا۔
اس ادبی بغاوت کی موافقت اور مخالفت میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس نے مریض روحانیت، تصوف اور نام نہاد مذہب کی آمریت کے خلاف جو آواز اٹھائی وہ صحیح تھی۔ اس نے خوابوں کی دنیا میں واقعیت کی ننگی تلوار سے ہل چل بھی ڈال دی۔ اس نے نفسیاتی تحقیق سے کام لے کر لاشعور کے سربستہ رازوں کو بھی خوب بے نقاب کیا، اس نے معاشرت کے زخموں کو کرید کر علاج کے لیے فضا بھی پیدا کی۔ اس کے فارم میں تجربے خیال انگیز بھی ثابت ہوئے۔ اس نے فن کاروں کے افق ذہنی کو وسیع بھی کیا۔ اس نے عوام سے قربت کی خواہش ظاہر کرکے گویا زندگی سے قریب بھی ہونا چاہا۔
مگر شروع میں اس نے بڑی رعونت سے کام لیا۔ اس نے ماضی کی بعض مفید قدروں سے انکار کرکے اپنی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اس نے مارکس کے خیالات کی مدد سے بعض تاریخی اور جدلیاتی حقائق کو عام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، اس نے مارکس کو ادیب بھی ثابت کرنا چاہا۔ اس نے اقبالؔ کی مذہبیت سے چڑ کر ان کے کلام میں مسولینی وغیرہ کی شخصیتوں کی تعریف سے دھوکا کھا کر (حالانکہ برنارڈ شا نے بھی کئی دفعہ ہٹلر کی تعریف کی) اقبالؔ کی شاعری میں ترقی پسند، بلکہ انقلابی خیالات کو نظر انداز کر دیا۔ ’’ذوق یقین‘‘ کی اصطلاح میں اسے عقیدے کا پرتو بدنما نظر آیا۔ اس لیے اس نے بے یقینی میں پناہ لینی چاہی۔
پرانے لوگ چونکہ ماحول، سماج اور زمانے کے اثرات کا اعتراف کرتے ڈرتے تھے، حالانکہ ان کے جلوے ان کے کلام میں لازمی طور پر ہوتے تھے۔ اس لیے ردعمل کے طور پر اس نے انفرادی تجربے، ذاتی احساس اور مخصوص تخلیقی صلاحیتوں سے انکار کرنا پسند کیا۔ ۱۹۳۸ء یا ۱۹۳۹ء میں ایک مجموعہ’’آزادی کی نظمیں’‘ شائع ہواتھا۔ اس کے پڑھنے سے یہ خیال ہوتا تھا کہ آزادی کے نام لیوا، ترقی پسندتحریک سے پہلے کچھ یونہی سے تھے۔ گویا وہابی تحریک، غدر، مومنؔ کی مثنویاں اور ذوقؔ کے اشعار، خلافت کی تحریک اور ترک موالات کے معر کے محض تبرک تھے۔
شروع شرو ع میں یہ تحریک بھی’’میں’‘ ’’ہم‘‘ اور’’ہم لوگ‘‘ کے چکر میں گرفتار رہی۔ گروہ بندی سے نہ نکل سکی۔ اپنے نئے پن کے جوش میں ’’دوزخی‘‘ کی لکھنے والی کی طرح آٹھ دس سال پہلے کے ادب کو پرانا کہہ کر ٹھکراتی رہی۔ اس کا فنی شعور بہت گہرا نہ تھا۔ اس کی زبان ترجمہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے خیالات بیشتر اس کے اپنے نہ تھے۔ یہ ادبی مزاج سے گھبرا کر آمریت قائم کرنا چاہتی تھی اور فارمولے اور نظریے کے پیچھے شعریت، ادبیت اور حسن کو پس پشت ڈالنے کے لیے تیار تھی۔ اس نے تنقید پر جو زور دیا تھا وہ درست تھا۔ اس نے جو اصولی سوال اٹھائے تھے، وہ اہم تھے، اس نے مغز، وزن، اور استدلال کی طرف جو توجہ دلائی تھی وہ صحیح تھی۔
اس نے سائنس اور دوسرے علوم کے جن حقائق سے ہمیں آشنا کیا وہ ضروری تھے۔ اس نے ادب کے ساتھ جو بے ادبیاں کیں وہ بھی کچھ ایسی بری نہ تھیں۔ کیونکہ ادب کو خالص ادب اور جمالیائی اور ماورائی چکر سے نکالنا ضروری تھا۔ مگر اس میں مشرق سے زیادہ مغرب، ہندوستان سے زیادہ روس اور اردو سے زیادہ انگریزی جلوہ گر تھی۔ اقبالؔ اور جوشؔ کی بعض نظمیں اور پریم چند کے آخری افسانے اس دور کی سب سے وقیع پیداوار کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس دور کے غیر فانی حصے میں نوجوانوں کے مقابلے میں بزرگوں کا سرمایہ زیادہ ہے۔
ترقی پسند تحریک کے پہلے پانچ سال ادبی اہمیت سے زیادہ تبلیغی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس زمانے میں ادب پرکم اور ’’ترقی پسند‘‘ پر زیادہ زور ہا۔ مگر اس تحریک کے اصولوں کو عام کرکے مقصدی، سنجیدہ اور سماجی ادب کے لیے پروپیگنڈا کرکے ادیبوں کو مل جل کر ادبی اور سماجی مسائل پر سوچنے کی ضرورت کا احساس دلاکر، انقلاب کے ترانے گا کر، انقلاب کی آمد کا اعلان کرکے، اس کے لیے ذہنوں کو تیار کرکے، اس نے ایک مفید خدمت انجام دی۔ اس نے آنے والی جنگ کے خطرے کی طرف توجہ دلائی۔ اس نے یورپ، امریکہ اور چین کے مسئلے کو اپنا مسئلہ قرار دیا۔ اس نے زبان کی ترقی، مقبولیت اور اصلاح کو ادیبوں کے لیے بنیادی اہمیت کا سوال ٹھہرایا۔
اس نے رسم الخط اور اصطلاحات پر غور کرنے کے لیے شاعروں اور افسانہ نگاروں کو بھی مجبور کیا تاکہ جس معاملے سے وہ من مانے کھیل کھیلتے اس کی قدرت اور امکانات سے وہ واقف بھی ہو سکیں۔ اس نے منہ کا مزا بدلنے کے لیے تخریب کے دیوتا کو دعوت دی اور ایک دریا ئے خون کی بشارت۔ کچھ شریف لوگ پہلے بھی چھپ چھپ کر لونڈیوں، باندیوں، سیدھی سادی دیہاتی لڑکیوں اور کم سن پجارنوں کو ایک رات کی رانی بناتے تھے۔ لیکن اب ادیبوں نے اس راز کو فاش کر دیا اور اس لمحے کو مقید کر دیا جب وہ پہلے پہلے عورت بنیں مگر بیوی نہ بن سکیں۔ اس رجحان نے سماج کے پوشیدہ زخموں کو چھیڑا اور بعض نفسیاتی الجھنوں کی طرف توجہ عا م کی اور اس طرح ذہنی صحت کا ایک معیار قائم کیا۔
عمر کے ساتھ اس کے تبلیغی رجحان میں کمی آتی گئی۔ خطابت کی جگہ سنجیدہ دلائل نے لے لی۔ مزدور اور انقلاب یا جدلیاتی اور اشتراکی تصورات جادو کی چھڑی نہ رہے، ان کی وضاحت ضروری ٹھہری۔ ترقی پسند تحریک نے اپنے دوسرے دور میں اس سرزمین میں اپنی جڑیں مضبوط کیں، ماضی کی طرف نظر دوڑائی اور اس میں ایک مسلسل، بامعنی اور روشن مقصد دیکھا اور پایا۔ نظیرؔ کو بعض لوگوں نے جوش میں آ کر پرولتاری انقلاب کا علمبردار کہا تھا۔ اب اس جوش میں ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ ہر مزدور ہیرو اور ہر کسان فرشتہ نہ رہا۔ ان کی انسانی کمزوریاں بھی نظر آنے لگیں۔ ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ اس نے وقتی سیاست کی خاطر ادبی اصولوں کو پس پشت ڈالنا چھوڑ دیا۔ یہ زیادہ روادار، زیادہ وسیع القلب، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ بیدار ہو گئی۔
جو لوگ اقبالؔ کو فاشسٹ بتاتے تھے اور اس پر زور دیتے تھے کہ ٹیگور اور اقبالؔ کی شاعری’’بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے۔’‘ ان کی باتیں قابلِ اعتنا نہ رہیں، لوگ حالیؔ، چکبستؔ، اقبالؔ کے علاوہ غالبؔ، میرؔ، ولیؔ کے ادبی اور تاریخی کارناموں کو سراہنا ضروری سمجھنے لگے اور اس طرح صحیح وصالح ترقی پسند تنقید کا آغاز ہوا۔
بیسویں صدی میں سب سے زیادہ توجہ تنقید پر کی گئی۔ اور اس وقت تنقید پر ترقی پسند رجحانات غالب ہیں۔ مجنوں ؔ، فراقؔ، فیضؔ، احتشام اوردوسرے ترقی پسند نقادوں نے ہمارے ادبی شعور کو وزن و وقار عطا کیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں ترقی پسند تنقید کے عام نقائص کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعض ان نظریوں سے بھی اختلاف ظاہر کیا ہے جن پر اس تنقید کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ان کا خیال صحیح ہے کہ بعض ترقی پسندوں کی تنقیدوں میں تکرار پائی جاتی ہے۔ وہ انفرادیت نہیں رکھتے، وہ اشتراکیت کے پرچار کو ادبیت پر ترجیح دیتے ہیں، مگر انہوں نے ترقی پسند تنقید کی اس عظیم الشان خدمت سے انکار کیا ہے کہ اس نے جمالِ حسن، اخلاق، ابدیت جیسی اصطلاحوں کی اندھی پرستش سے ادب کو آزاد کیا ہے۔
اس نے اصطلاحوں کا فریب بھی ظاہر کیا ہے اور ان کی تنگی بھی۔ اس نے قالب، ظاہر، لباس یا جلد پر توجہ کرنے کے بجائے، روح، باطن یا اقبالؔ کے الفاظ میں ’’اندرون‘‘ میں خلل ڈالا ہے۔ اس نے یہ بتایا ہے کہ ادب میں جان انفرادیت سے آتی ہے۔ مگر آزاد، مکمل اور شاداب انفرادیت کو سماج کے تعلق سے تازہ خون ملتا ہے۔ ترقی پسند تصور خودی میں ڈوبنے کو برا نہیں سمجھتا۔ مگر اس ڈوبنے کے بعد ابھرنے کا، اس خودی کے بعد بے خودی کادرجہ ہے۔ یہ تصوف کی بازی گری نہیں، زندگی کی ایک حقیت ہے۔ اقبالؔ نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے،
خودی میں ڈوبے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کا رہ نہیں
اگر ترقی پسند تنقید کے علم برداروں میں سب کے یہاں یہ ڈوب کر ابھرنا نہیں ملتا تو اس سے ان اصولوں میں کیا خرابی لازم آتی ہے۔ ترقی پسندی ایک رجحان، ایک کیفیت ذہنی، ایک میلان ہے۔ بعض کے یہاں اس میلان کے ساتھ چیزے دگر کی بھی آمیزش ہے۔ جس طرح آج بھی کچھ لوگ ذہنی طور پر اشتراکی، عملی دنیا میں سرمایہ دار، لاشعور میں جاگیر دار نظر آتے ہیں۔ جس طرح لوگوں کے یہاں وحدت کم ہوتی ہے، کثرت زیادہ۔ اسی طرح ترقی پسندوں میں بھی کم ترقی پسند اور زیادہ ترقی پسند ملتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو ماضی کی ہر زنجیر سے آزاد ہونے کو ترقی پسندی سمجھتے ہیں۔ اوروہ بھی جو کچھ عرصے تک ساتھ رہے اور پھر الگ ہو گئے یا کچھ دن الگ رہ کر قافلے میں آملے۔
تنقید میں بڑی اہمیت اس تجربے کی ہے جو شاعر یا ادیب کا ہے۔ یہ تجربہ کیسا ہے، کیسے حاصل ہوا، اس تجربے میں تخیل کی کارفرمائی کس حد تک ہے۔ خود تخیل کی طلسمی دنیا میں حقائق کے کتنے اجزا موجود ہیں۔ انفرادی تجربے میں میراث، ذاتی حالات اور عصری رجحانات کو کس قدر دخل ہے، کیا بعض چیزوں کی مصوری ہی ادب ہے یا اس مصوری میں کچھ فکر کا عنصر بھی ضروری ہے۔ حقیقت نگاری کے کیا معنی ہیں اور واقعیت کس حد تک اچھی چیز ہے۔ تجربہ ممکن ہے قابل قدر ہو، لیکن تجربے کی زبان ناقص ہو سکتی ہے، ناقص زبان اور کارآمد زبان کے کیا معنی ہیں۔ زبان کیسے بنتی بگڑتی ہے۔ استعارے کا کیا کام ہے۔ ادبی اصول مستقل ہوتے ہیں یا نہیں اور قوموں اور ملکوں کے لیے علاحدہ علاحدہ اصول ہوتے ہیں یا عالم گیر بھی ہو سکتے ہیں۔ خارجیت اور داخلیت، انفرادیت اور اجتماعیت کس حد تک اشارے میں اور کس حد تک مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ مزے دار شاعری، اچھی شاعری اور بری شاعری میں کیا فرق ہے؟
یہ اور اس قسم کے بہت سے ایسے سوال ہیں جو تنقید کے لیے اہمیت رکھتے ہیں اور خوشی کی بات ہے کہ ترقی پسند نقادوں نے ان پر بحث شروع کرکے ادب اور ادیب دونوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ یہی ایک بہت بڑا احسان ہے۔
ترقی پسند تنقید نے لوگوں کو تنقید کے مطالعے کا شوق دلایا ہے اور آج لوگ تنقیدیں بھی ذوق وشوق سے پڑھنے لگے ہیں۔ اس نے تنقید کو محض لفظی یا صنعتی یا شعبدہ باز ہونے سے بچایا ہے۔ اصطلاحوں کے چکر سے یہ بھی ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی ہے۔ ماحول اور زمانے کی خاطر اب بھی کبھی کبھی یہ شخصی اور ذاتی اور انفرادی خصوصیات کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ مگراس نے تحسین اور سخن فہمی کا معیار اونچا کیا ہے۔ اس نے غزل کی مقبولیت کو کم کیاہے (اور غزل کے معیار کو بلند) اور شاعروں اور ادیبوں سے بعض مطالبے کرکے اور ان سے بعض توقعات وابستہ کرکے، انہیں سوچنے اور سیکھنے اور سوچنے اور سیکھتے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس نے ادب میں جمہوریت کا میلا ن بڑھایا ہے۔ اس نے زبان کے مسئلے کو سیاست کی الجھنوں سے علاحدہ کرکے سماجی اورعلمی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، اس نے آزاد نظم، بے قافیہ نظم اور اسی قسم کے دوسرے تجربوں کے لیے میدا ن صاف کیا ہے، اس نے شہر تیں بنائی اور بگاڑی ہیں۔ اس نے ہمارے ادب کو عصریت اور ارضیت عطا کی ہے اور ماضی کی نئی پہچان میں بھی حصہ لیا ہے۔ اس نے تجربے اور تجربے میں فرق کرنا سکھایا ہے۔ اس نے تنقید کو تخریب یا عیب جوئی یا نکتہ چینی نہیں ہونے دیا۔ اس نے بتایا ہے کہ تنقید محض گلستان میں کانٹوں کی تلاش نہیں ہے، بلکہ کانٹوں کے باوجود اس کی بہار کا احساس رکھنے کی کوشش ہے۔
یہ تنقید ذہنی صحت کا معیار قائم کرتی ہے، اور تجربے کی قدر وقیمت متعین کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذہنی صحت کا اجارہ صرف ترقی پسندوں نے نہیں لیا۔ دوسروں کے یہاں بھی یہ چیز جلوہ گر ہے، اور حال میں نفسیاتی تنقید کی بھی اچھی مثالیں ملتی ہیں مگر اب تک ہماری تنقیدمیں ترقی پسند تنقید کا کارنامہ سب سے زیادہ وقیع اور عظیم الشان ہے۔
ترقی پسند شاعری کے معیار کی بلندی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کلیم الدین احمد نے ایک جگہ قومی شاعری کو فوجی باجے سے تشبیہ دی ہے۔ وقتی نظموں کے متعلق یہ خیال غلط نہیں اور ترقی پسندوں نے بھرتی کے دفتر اور ۱۹۴۲ء کے ہنگامے پر کچھ ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں، مگر بحیثیت مجموعی فراقؔ کی غزلوں، فیضؔ کی نظموں، اور مجازؔ، مخدومؔ محی الدین، اخترؔ انصاری، سردارؔ جعفری او جذبیؔ وغیرہ کی شاعری میں ہمیں انقلاب کی شعریت اور انقلاب کا حسن ملتا ہے۔ فراقؔ کی نظم ’’آج کی دنیا‘‘ یا فیضؔ کی نظم ’’ہم لوگ‘‘ میں ہمیں جوادبی شعور ملتاہے، وہ باوجود پچھلے شعرا سے ملتے جلتے ہونے کے اس سے مختلف بھی ہے۔
اس پر جنگ اور موجود ہ زندگی کی تلخیوں نے اپنا اثر چھوڑ ا ہے۔ بعض کے یہاں ان تلخیوں کی وجہ سے مایوسی، تھکن، احساسِ شکست، فرار، نمایاں ہے۔ مگر یہ مایوسی محض پچھلی قنوطیت کی طرح نہیں ہے، یہ غم سے لذت لینے کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ دوزخ میں سموئی ہوئی جنت دیکھ کر پیدا ہوئی ہے۔ ترقی پسند شاعری نے اس دور کے تمام واقعات سے بھی اثر قبول کیا ہے، اس کی علامات میں تازگی اور ندرت بھی ملتی ہے۔ اس کے استعارے بھی نئے ہیں۔ مثلاً فراقؔ کی شاعری کو لیجئے۔ اس میں مغربیت ہے۔ مگر یہ مغربیت ایک نئے تہذیبی احساس میں ظاہر ہوئی ہے۔ اس میں ہندو کلچر اور ایک آفاقی کلچرکا سنجوگ دکھائی دیتا ہے۔ فیضؔ اور راشدؔ کے بہت سے اشعار مغربی ادب سے واقفیت کے بغیر لکھے نہیں جاسکتے تھے۔ یہ لازمی طور پر کوئی اچھی بات نہیں ہے مگر نئی بات ضرور ہے اور اس کا اچھا اثر بھی ہوا ہے۔ اس سے زبان میں تازگی پیدا ہو گئی ہے۔
ترقی پسند شعرا نے فارم میں تبدیلی کو ضروری نہیں سمجھا۔ انہوں نے نظم کی آسانیوں سے اچھی طرح کام لیا۔ مگر خوشی کی بات ہے کہ سانیٹ کے طرز پر جو نظمیں لکھی گئی تھیں اور جن میں زیادہ گنجائش نہ تھی، مگر جن میں قافیوں کو اِدھر اُدھر کرکے ایک تازہ آہنگ پیدا کیا گیا تھا، ان کے بعد بعض شاعر بے قافیہ اور پھر آزاد نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ فیضؔ کی شاعری میں بے قافیہ اور راشدؔکی شاعری میں آزاد نظم کے کامیاب نمونے ملتے ہیں۔ پنجاب کے کئی نوجوان شاعر آج کل بے قافیہ اور آزاد نظمیں لکھنے میں مصروف ہیں۔ اور ان کی شعریت اور حسن سے کوئی ادب کا طالب علم انکار نہیں کر سکتا ہے۔
آزاد نظم یقیناً اس ذہنی فضا کی مرہونِ منت ہے جو ترقی پسند تحریک نے پیدا کی۔ اگرچہ راشدؔ اور میراجی کی بعض نظمیں ترقی پسند نقطۂ نظر سے قابل اعتراض ہیں۔ شررؔ، اسماعیلؔ، طباطبائی اور عظمت اللہ خاں نے بھی آزاد اور بے قافیہ نظمیں لکھی ہیں مگر آخرالذکر کے سوا ان کی حیثیت زیادہ ترتاریخی ہے۔ راشد کی آزاد نظموں میں جابجا شعریت، حسن اور تکنیک کا ایک حیرت انگیز احساس ملتا ہے۔ ان کی لذتیت، سستا فرار اور احساس شکست ترقی پسندانہ نہیں، نہ میراجی کی ذہنی کج روی، ابہام اور جنسی مسائل میں غرق ہونا، ترقی پسندوں کے نزدیک اچھی چیز ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس ابہام، کج روی اور لذتیت کی وجہ سے ترقی پسند تحریک بہت بدنام ہوئی ہے۔ مگر فن اور فارم کے یہ تجربے ضرور قابلِ قدر ہیں۔ اور ان تجربوں کی وجہ سے شاعری کو فائدہ پہنچا ہے، نقصان نہیں پہنچا۔
یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اس قسم کی نظمیں لکھنا بہت آسان ہے۔ غزل لکھنا بھی تو آسان ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اچھی غزل لکھنا کتنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایک مسلسل، مربوط اور فنی نقطۂ نظر سے مکمل آزاد نظم لکھنا معمولی کام نہیں۔ یہاں ایک لمحہ کی موسیقی کو دریافت کرنا ہوتاہے۔ ایک سطر میں آہنگ پیدا کرنا ہوتاہے۔ یہاں قافیے سے پیدا کردہ ترنم کے بجائے لفظ ومعنی کا گیت گانا ہوتاہے۔ اس میں دوسرے اصناف کی طرح دشواریاں بھی ہیں اور آسانیاں بھی۔ اس نوعمر صنفِ سخن کو ابھی دوسری ترقی یافتہ اور مرتب اصناف کے مقابلے میں پیش کرنابھی صحیح نہ ہوگا، مگر اس کی اہمیت، اس کے امکانات اور اس کی بعض خوبیوں سے انکار کرنا تنگ نظری ہوگا۔ فکر بدل جائے تو فن کو بھی بدلنا ہی پڑتا ہے۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ترقی پسند شاعری نے جنگ اور قحط بنگال کے متعلق، جو ترقی پسند ادب کے لیے بہترین موضوع ہو سکتے تھے۔ کوئی غیر فانی کارنامہ پیش نہیں کیا۔ وہ لوگ یہ نظرانداز کر جاتے ہیں کہ جنگ عظیم اور قحط پر نظمیں لکھنا ویسا ہی غیر متعلق ہے جیسا مارکس یالینن کا فلسفہ نظم کرنا، جو ہر بم کی ہجو ضروری نہیں، جوہربم کے اثرات کا علم، اس کے امکانات کااندازہ اور اس کے قیامت خیز اثرات کا احساس اہم ہے۔ یہ احساس ہوگا تو اس احساس کا اظہار بھی ہوگا اور براہ راست نہ ہوا تو بالواسطہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ قحط بنگال اور ہیروشیما Hiroshima کے متعلق کوئی طویل نظم آئندہ لکھی جائے، ابھی تو لوگوں کے احساسات اس قدر زخمی ہیں کہ مسلسل پرواز کے لیے اور ایک بڑی نظم کے لیے ان میں ہمت پیدا نہیں ہوتی۔ ملٹن نے اپنی نظم ’’فردوس گم شدہ‘‘ کتنی ذہنی کاوش کے بعد لکھی تھی اور کتنی ذہنی تیاری کے بعد۔ واقعہ نگاری ادب نہیں ہے ادب کو وقت کی روح سے متاثر ہونا ہے، وقتی بننے سے بچنا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے اثرات ا س وقت سب سے زیادہ نمایاں افسانوں میں ہیں۔ یہ اچھی بات بھی ہے اور بری بھی۔ اس کی وجہ سے افسانوں میں بڑی وسعت، بلندی اور گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ اور اس وجہ سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افسانے ہی ادب ہیں اور اس طرح سے اس تحریک کے سنجیدہ اور وقیع اور گہرے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ افسانوں کی غیر معمولی مقبولیت اور کثیر پیدا وار سنجیدہ تہذیبی مزاج کے لیے خطرہ ضرور ہے۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ افسانوں کی مقبولیت ترقی پسند تحریک کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کا راز ہماری تخلیقی قوتوں کے شعلۂ مستعجل ہونے میں ہے۔
کچھ غزل کے آرٹ نے ہمارے مزاج میں دخل کر لیا ہے۔ اس کا بھی یہ نتیجہ ہے کچھ سنجیدہ، تعمیری، علمی اور فنی کاوشوں سے بچنے اور سستی شہرت حاصل کرنے کا جذبہ بھی اس میں شامل ہے۔ مگر افسانوں کے موجودہ سرمایے کو دیکھئے تو اس میں ترقی پسندی کے تمام اثرات ملتے ہیں اور یہ اس تحریک کے بڑے اچھے آئینے ہیں۔ ان افسانوں کے ذریعہ سے حقیقت نگاری، نفسیاتی تخیل، سماجی تنقید، سیاسی مصوری، جنسی مسائل کی عکاسی، انسانیت کا حسن اور انسانیت کے زخموں کا حسن، کچلے ہوئے درماندہ لوگوں کی بلندی اور اونچی اٹاریوں کی ذہنی پستی سب کا ثبوت دیا گیاہے۔
حقیقت نگاری نے جابجا عریانی اور عریانی نے کہیں کہیں جنسی کج روی کی جگہ لے لی ہے۔ عریانی اور لذتیت اس بچے کی سی ہے جسے سخت پابندیوں کے بعد کھل کھیلنے کی اجازت مل گئی ہو، لیکن عصمت اورمنٹو کے یہاں جو عریانی ملتی ہے وہ سستی عریانی نہیں ہے۔ یہ حیرت انگیز فنی پختگی اور حقیقت نگاری کے اعجاز کی دلیل ہے۔ عصمت کا لحاف ایک اچھا افسانہ ہے۔ منٹو کا افسانہ’’کالی شلوار‘ ایک شاہکار ہے۔ ان افسانوں کی مخالفت غلط ہے، اس رنگ کی مخالفت ہو سکتی ہے۔ اس عریانی کے باوجود عصمت اور منٹو اردو کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہیں، جولوگ اس رجحان کی وجہ سے ان افسانہ نگارں کی تمام خوبیوں سے انکار کر دیتے ہیں، ان کا ادبی شعور مرتب نہیں اور نہ ان کا ذہن حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جنسی مسائل کی عکاسی بھی زندگی کے ایک بنیادی مسئلے کی عکاسی ہے۔ یہ ادب بھی ہے اور زندگی بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ساری زندگی نہیں ہے۔ یہ بڑی زندگی بھی نہیں ہے۔ اور بڑی زندگی اور صالح زندگی کے ہر تصور میں جنسی میلانات کی تہذیب ضروری ہے۔ اس لیے افسانوں کی کثرت اور اس قسم کے افسانوں کی کثرت جو فنی نقطۂ نظر سے بلند سہی مگر جنس کی دلدل میں گرفتار ہیں، دراصل ادبی اور تہذیبی نقطۂ نظر سے ایک خطرہ ضرور ہے۔ خصوصاً اس ملک میں جہاں قید وبند ٹوٹتے ہیں، تو ہر قید و بند سے انکار ضروری ہو جاتا ہے۔ جہاں عورت دور ہے اور جنسی ہیجان کو بڑھانے والی کتاب قریب، اور جہاں سخت جنسی پابندیوں نے لاشعورمیں عجیب وغریب الجھنیں پیدا کر دی ہیں، وہاں ایک صحیح وصالح تہذیبی تحریک کے علمبرداروں کو بعض پابندیاں خوشی سے قبول کر لینی چاہئیں تاکہ یہ بڑی تہذیبی تحریک جنسیات کی دلدل اور سستی لذتوں کے طلسم میں گھر کر نہ رہ جائے۔
میرے خیال میں بیدی، کرشن چندر، عصمت، منٹو، اختر انصاری، اختر اورینوی، حیات اللہ، حسینی اور عسکری، اس دور کے بہترین افسانہ نگار ہیں۔ بیدی سب سے اچھا فنی احساس رکھتا ہے۔ اس کے افسانے ہیرے کی طرح ترشے ہوئے ہیں۔ کرشن چندراپنی خطابت اور جذباتیت کے باوجود فضا پیدا کرنے میں جواب نہیں رکھتا۔ عصمت کے یہاں حیرت انگیز قوت، قدرت اور شدت ہے، نوجوان لڑکیوں کے نفسیات اور متوسط طبقے کے خاندانوں کی بظاہر پرسکون زندگی کے ہنگاموں کی عصمت سے پہلے کسی کو خبر نہ تھی، اس دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا اور منٹو کے کئی افسانے باوجود ایک خطرناک میلان کے اردو کے بہترین افسانوں میں شمار ہوں گے۔ ان میں نیا قانون، ہتک، کالی شلوار، دھواں ضرور ہوں گے۔
اختر انصاری کا’’ایک واقعہ‘‘ اختر اورینوی کی ’’کلیاں اور کانٹے’‘ حیات اللہ کی ’’آخری کوشش‘‘ حسینی کی ’’میلہ گھومنی‘‘ اور عسکری کی ’’چائے کی پیالی‘‘ کے تذکر ے کے بغیر یہ جائزہ مکمل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نوجوان لکھنے والے ہیں خصوصاً پنجاب میں، جنہوں نے ترقی پسند افسانے کو تقویت پہنچائی ہے۔ اردو کے بیشتر افسانہ نگار اس تحریک سے متاثر ہوئے لیکن عسکری کے بعض افسانوں میں اور ممتاز مفتی کے آخری مجموعے میں ہمیں جومیناکاری اور لاشعور کی مصوری ملتی ہے وہ ترکستان کی طرف لے جاتی ہے۔ لاشعور کی مصوری نشان راہ ہوسکتی ہے، منزل مقصود کبھی نہ ہونی چاہیے۔
اردو میں افسانہ اب بھی افسانہ کم ہے، مضمون یا مرقع یا وعظ زیادہ۔ افسانہ نگار اب بھی افسانوں میں ضرورت سے زیادہ جھانکتا ہے۔ تقلید اب بھی عام ہے، انشا پردازی کے جوہر دکھانے کا شوق اب بھی مرض کی حد تک ہے لیکن افسانے نے دس سال کے اندر اس تحریک کے زیر اثر جو حیرت انگیز ترقی کی ہے وہ مسلم ہے۔
ترقی پسند ادب کی مخالفت مختلف حلقوں میں کی گئی۔ جو لوگ اتنے پرانے خیال کے ہیں کہ ہر نئی چیز انہیں زہر نظر آتی ہے۔ انہیں نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ جو لوگ اخلاق اور مذہب کے اجارےدار بن کر اس ادب کی بداخلاقی پر اعتراض کرتے ہیں وہ مس میؤ کی طرح ہندوستان کے تاریک گوشے تلاش کر رہے ہیں، جو یقیناً وہاں ہیں، لیکن جو سب کچھ نہیں ہیں۔ بعض ترقی پسندوں کے یہاں عریانی بلکہ فحاشی ملتی ہے۔ لیکن اس گناہ میں شہر کے بہت سے لوگ شریک ہیں۔ اور یہ گناہ بعض اور گناہوں کے مقابلے میں سنگین نہیں رہتا۔ پھر ترقی پسندی اور عریانی مترادف الفاظ نہیں ہیں، نہ ترقی پسندی نراج یا ادبی بے راہ روی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہاں کچھ لوگ بعض اصولی اعتراض کرتے ہیں جو قابلِ ذکر ہیں۔
پروفیسر بخاری کا خیال یہ ہے کہ نئے لکھنے والے دولعنتوں میں گرفتار ہیں۔ وہ اپنے قدیم سرمایے سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے زبان پر قدرت نہیں رکھتے۔ اور دوسرے اردو اور انگریزی دومختلف اور ایک دوسرے سے اس قدر دور زبانیں جاننے یعنی Bilingualism کی وجہ سے ان کے یہاں ایک عجیب ذہنی انتشار رونما ہے۔ یہ دونوں اعتراض صحیح ہیں، مگر ان میں اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ ایک مغربی زبان کے اثر سے ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی فضا کس قدر وسیع ہوئی ہے اور انہیں ایک بڑی تہذیبی تحریک میں کس طرح شرکت کا موقع ملا ہے۔
احمد علی کا خیال ہے کہ اشتراکیت کے پرچار کی خاطر ترقی پسندوں نے ادبیت اور انفرادیت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اور سیاست کی رفتار سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہونے کی کوشش سے یہ خرابی پیدا ہوئی ہے۔ یہ بات جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، ترقی پسند تحریک کے پہلے دور کے متعلق صحیح ہے، لیکن دوسرے دور میں اس رجحان سے آزادی مل گئی ہے اور ماضی کی اہم قدروں کا زیادہ فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا گیا ہے۔
کلیم الدین احمد کے اعتراضات بھی اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔ ان کایہ کہنا یکسر غلط نہیں ہے کہ یہ تحریک ابھی تک نعروں اور اصطلاحوں کے چکر سے آزاد نہیں ہے۔ یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ ترقی پسندوں نے بعض اصولی بحثیں اٹھائی ہیں اور نظریاتی مسائل پیش کئے ہیں، ان میں عقلیت کے معنی مارکسی عقلیت اور تاریخی حقائق کے معنی اشتراکی تصورات کے ہوجاتے ہیں۔ مارکسی عقلیت کو اب تک جامد سمجھا گیا ہے۔ حقیقت نگاری کا جو تصور مارکسیت میں ہے وہ زولا کے نیچر لزم یا فطرت نگاری کا سانہیں، سماجی رشتوں اور ان کی اہمیت کا احساس ہے۔
آرٹ میں انفرادیت ضروری ہے اور حسن کو سستی اور کاروباری افادیت سے بلند سمجھنا چاہیے۔ افادیت کے لیے دراصل ایک ذہنی پیمانے کی ضرورت ہے اور روح انسانی کو گہرے تجربات سے آشنا کرکے اسے تازگی اور زندگی دینا بھی افادیت رکھتا ہے۔ مگر صرف انفرادیت یا جمالیات کی مالا جپنا ادب کی خدمت نہیں۔ ادب اس سے بلند ہے۔ یہ چیزیں ہر تحریک کی ابتدا میں ملتی ہیں اور غور سے دیکھئے تو اس تحریک کے شباب کی بہار ابھی ہمیں دیکھنا ہے۔
اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند ادب نے جس طرح انسان کو زندگی اور ادب کے اسٹیج پر مرکزی جگہ دی ہے، جس طرح عام آدمیوں میں ہیرو کے صفات دیکھے اور دکھائے ہیں، جس طرح طبقاتی اورسماجی خلیجوں کو کم کیا ہے، جس طرح اصلاح بغاوت اور انقلاب کے لیے ولولہ پیدا کیا ہے، جس طرح ماضی پرستی کے بجائے ماضی کو عقل کی عینک سے دیکھنا سکھایا ہے، جس طرح ہیرو پرستی کم کی ہے، جس طرح ادب کی زبان کو سائنس اور دوسرے علوم کی غذا سے تقویت پہنچائی ہے، جس طرح لوگوں میں اپنی پرانی مصیبت پر قناعت کرنے کے بجائے ایک نئی مسرت کو لبیک کہنے کا جذبہ پیدا کیا ہے، جس طرح زبان کو چند مخصوص لوگوں کا کھلونا بنانے کی بجائے سب کے دل کا آئینہ بنایا ہے، جس طرح اس سے سلانے یا رلانے کے بجائے جگانے کا اور بادۂ وساغر کے بجائے تلوار کا کام لیا ہے، جس طرح تنقیدی شعور کو ابھارا ہے اور تخلیقی جوہر کی ترتیب وتہذیب کا کام اپنے ذمہ لیا ہے، اس سے اس کی کامیابی اور بڑائی ظاہر ہو جاتی ہے۔
ادب کی دنیا میں نئی راہوں، تجربوں، دریافتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ نئے راستوں میں لوگ بھٹکتے بھی ہیں لیکن انہیں لغزشوں سے راستے کی آبرو قائم ہے۔ کچھ لوگ صرف لغزشوں کو دیکھتے ہیں، کچھ لوگ راستے پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اردو ادب کے متعلق یہ خطرہ تھا کہ شاید وہ زندگی کے دوش بدوش نہ چل سکے۔ ترقی پسند تحریک نے اس خطرے کو بڑی حد تک دور کر دیا ہے اور آج رومین رولاں کے یہ الفاظ اردو کے ادیب پر بھی صادق آتے ہیں،
Where there is hope in the air
He hears it, where there is
Agony about the feels it.
جہاں کہیں فضا میں امید ہے وہ اس کی آواز سن لیتا ہے۔ جہاں دکھ ہے وہ اسے محسوس کر لیتا ہے۔