ترقی پسند مصنفین کی تحریک

دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھالے تو بڑا کام ہے یہ
(مجاز)


’’بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی اور جب حالی، شبلی اور اقبال بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ سوال ایسا ہے کہ جب دنیا میں ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک پھول کھلتے رہے ہیں توباغ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس انجمن کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی، جس وجہ سے تمام دوسری انجمنوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی یہ کہ افراد اجتماعی طور سے ادبی مسائل پر گفتگو اور بحث کریں، فرد اور جماعت کی ضروریات کو سمجھیں، سماجی کیفیت کا تجزیہ کریں اور اس طرح مشترکہ نصب العین قائم کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔‘‘ (سجاد ظہیر)


۱۹۳۵ء تک اردو ادب میں بڑی وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ستر اسی برس کی مختصر سی مدت میں اردو ادب نے جتنی ترقی کی، وہ اس سے پہلے دو تین سو برس میں نہیں ہوئی تھی اور یہ ترقی ان معاشی اور سیاسی حالات کی رہین منت تھی جن سے ہندوستان کی سماجی زندگی کو سابقہ پڑا۔ وہ زبان جس کا ادب غزل، مثنوی، قصیدہ اور چند تذکروں تک محدود تھا، نظم، افسانہ، ناول، سوانح، تاریخ اور تنقید سے مالامال ہو گئی اوراس میں تنوع، گہرائی اور وسعت آ گئی۔ اب اردو کے پاس عظیم عشقیہ شاعری ہی نہیں تھی بلکہ ایک عظیم ادب کا خزانہ تھا جس کے خالق حالی، شبلی، اقبال، پریم چند اور جوش جیسے باکمال تھے۔ یہ ستارے اپنی تابناکی میں کسی طرح پرانے ستاروں سے کم نہیں نکلے۔ اس سارے ادبی سرمایہ کی بہترین روایات نے منظم ہوکر اس تحریک کی شکل اختیار کر لی جو ۱۹۳۵ میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے نام سے شروع ہوئی اور آج اردو زبان کی سب سے بڑی ادبی تحریک بنی ہوئی ہے۔


یہ تحریک اس اعتبار سے ماضی کی بہترین روایات کا تسلسل ہے کہ یہ انسان دوستی، عقل پسندی، حب الوطنی، سامراج دشمنی اور آزادی کے جذبے کو لے کر آگے بڑھی، لیکن اس اعتبار سے بالکل نئی تحریک ہے کہ اس نے عوام کی زندگی پر ادب اور فن کی بنیاد قائم کی۔


اس سے پہلے کے جمہوری ادب میں بھی جیسا کہ پچھلے صفحات سے ظاہر ہے، عوام کی زندگی اور مسائل کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن ترقی پسند تحریک نے ایک ایسے واضح اور منظم نصب العین کی صورت دے دی جسے انجمن کے پہلے اعلان نامے نے ان چند سطروں میں سمیٹ لیا کہ ’’ہماری انجمن کامقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پسند طاقتوں کے چنگل سے نجات دلانا ہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ ہمارے اعلان نامے نے فراریت، ہیئت پرستی، کھوکھلی روحانیت، ماضی پرستی، فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی مخالفت کی اور سائنسی عقل پسندی اور تنقیدی حقیقت نگاری کا مطالبہ کیا اور تغیر اور ترقی کی راہ دکھائی۔ اس طرح ادب پر دو ذمہ داریاں عائد کیں۔ ایک تو غیر عقلی، غیر مفید، انحطاط پذیر، سماجی نظریات اور اور اداروں کی تنقید کرنا اور دوسرے نئی فکر، نئے جذبے اور نئے سماج کی تعمیر کرنا، جو ہمارے وطن کو ایک نئی بہتر زندگی کی راہ دکھائے۔


اردو ادب پر اور پورے ہندوستانی ادب پر اتنا بڑا اور عظیم الشان فریضہ کبھی عائد نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے لئے ایک طرف ہندوستان کے سماجی حالات نے، جو ہماری سامراج دشمن جنگ آزادی سے پیدا ہوئے تھے، زمین تیار کی تھی اور دوسری طرف بین الاقوامی صورتحال، فکری اور ادبی تحریکوں کے اثرات تھے جن کے بڑے بڑے نمائندے امریکہ، یورپ، سوویت یونین اور چین کے دانشور اور مفکر جیسے ڈرائزر، ہنری بار بوس، رومیں رولاں، گورکی اور لوہ سون تھے۔ فاشزم اور دوسری عالمگیر جنگ کا خطرہ بڑھ چکا تھا اور دنیا کی تہذیب برلن کی سڑکوں اور چوراہوں پر جل رہی تھی، اٹلی کے گلی کوچوں میں اس کا خون بہایا جا رہا تھا۔ اسپین میں اس پر بمباری کی جا رہی تھی۔ ایشیا کے ملکوں میں ہندوستان اور چین میں بیرونی سامراج قومی تہذیبوں کا گلاگھونٹ رہا تھا۔ ہٹلری فاشزم نے یہ کہہ کر ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی اپنی سمت کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جو کوئی فاشزم کے ساتھ نہیں ہے، اسے فاشزم کا دشمن سمجھا جائےگا۔


اس لئے ادب اور تہذیب کی حفاظت کے لئے گورکی، رومیں رولاں، طامس مان، ہنری باربوس اور آندرے مالرو کی رہنمائی میں ۱۹۳۵ء میں ادیبوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس پیرس میں منعقد ہوئی، جس میں ساری دنیا کے بڑے بڑے ادیب شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کا کوئی بڑا ادیب شریک نہیں ہو سکا، لیکن سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے جو اس زمانے میں لندن میں تھے، اس میں شرکت کی۔ اسی زمانے میں ٹیگور نے اپنی آواز فاشزم کی مخالفت میں بلند کی۔


پیرس کانفرنس کے انعقاد سے چندماہ پہلے سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے لندن میں مقیم ہندوستانی طالب علموں کی مدد سے ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کے خیال کو عملی جامہ پہنایا۔ لندن کے نان کنگ ریستوراں میں اس کا پہلا اعلان نامہ تیار کیا گیا، جس پر ہندوستان کے بڑے بڑے محترم ادیبوں نے بعد کو دستخط کئے اور پھر اسی اعلان نامے کی بنیاد پر اپریل ۱۹۳۶ میں انجمن کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں منشی پریم چند کی زیرصدارت منعقدہوئی جنہوں نے اپنے خطبے کی ابتدا ان الفاظ سے کی، ’’حضرات! یہ جلسہ ہمارے ادب کی تاریخ میں ایک یادگار واقعہ ہے۔‘‘ دراصل یہ ہمارے ادب کا ایک بہت ہی واضح تاریخی موڑ تھا اور اس سے پہلے ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی جو اپنی وسعت، ہمہ گیری اور دور رس نتائج کے اعتبار سے سرسید اور حالی کی تحریک سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔


ترقی پسند تحریک بڑی تیزی سے پھیلنے لگی اور اردو کے تقریبا ًتمام بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے اس کا خیرمقدم کیا، جن میں سب سے اہم پریم چند، جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی، ڈاکٹر عبدالحق، ڈاکٹر عابد حسین، مولانا نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی اور ساغر نظامی کے نام ہیں۔ انہوں نے ہمارے اعلان نامے پر دستخط کئے، جلسوں میں شرکت کی اور مباحثوں میں حصہ لیا۔ اقبال نے بھی سجاد ظہیر کی حوصلہ افزائی کی۔ 29، منشی پریم چند کا اسی سال انتقال ہو گیا۔ جوش ملیح آبادی، مجنوں گورکھپوری، قاضی عبدالغفار اور فراق گورکھپوری خاص طور سے تحریک میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے رہے اور اپنی ادبی کاوشوں سے تحریک کو مقبول بنانے میں مدد دیتے رہے۔ اس سلسلے میں تحریک کو مقبول بنانے میں مجنوں گور کھپوری کے تنقیدی مضامین نے بڑا کام کیا۔ جوش نے ہر موقع پر اور ہر مشکل وقت میں اپنی شاعری اور عظیم شخصیت سے تحریک کی حفاظت کی۔


انہیں کے ساتھ نو عمر اور نومشق ادیبوں کا ایک گروہ آیا جن کی اکثریت طالب علموں پر مشتمل تھی، جیسے کرشن چندر، مجاز، جاں نثار اختر، اوپندر ناتھ اشک، سبط حسن، جذبی، احمد عباس، اختر رائے پوری، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، احتشام حسین، مخدوم محی الدین، حیات اللہ انصاری، علی جواد زیدی، مسعود اختر ج مال، سلام مچھلی شہری وغیرہ۔ سجاد ظہیر، رشید جہاں، فیض، ڈاکٹر تاثیر، ڈاکٹر علیم، احمد علی، اختر انصاری وغیرہ نے ابھی ابھی تعلیم ختم کی تھی۔ ۱۹۳۶ کا یہ پہلا گروہ محض رومانی قسم کے نوجوانوں کا گروہ نہیں تھا جو ملک کے محتلف حصوں میں بکھرا ہوا تھا حالانکہ ان میں رومانیت ضرور تھی۔


اگر آپ بیس بائیس برس کے نو عمر لکھنے والوں سے ان کے خواب بھی چھین لیں توان کے پاس کیا رہ جائےگا۔ یہ سنجیدہ قسم کے نوجوان تھے جو سماجی ذمہ داریوں کا بھی احساس رکھتے تھے اور تھوڑا سا سیاسی شعور بھی۔ یہ مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کی مختلف تحریکوں میں کام بھی کر رہے تھے۔ ان کے شعور کی مختلف سطحیں تھیں، ان کے تجربے مختلف تھے اور فکریات الگ الگ۔ کوئی گاندھی وادی اور اہنسا کا پرستار تھا جیسے حیات اللہ انصاری، کوئی نہرو کو اپنا ہیرو بنائے تھا جیسے احمد عباس، کوئی کمیونسٹ تھا جیسے سجاد ظہیر۔ پھر ایسے نوجوان بھی تھے جو کسی سیاسی مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے جیسے منٹو۔ لیکن سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ سب کے سب پرانے سماج کے طور طریقوں، رسمی اخلاق اور بدمذاقیوں سے اکتائے ہوئے تھے۔ اپنے ملک کی غلامی پر شرمندہ تھے اور کسی خوبصورت منزل تک پہنچنے کے لئے کسی حسین راستے کی تلاش میں تھے۔


اس وقت ان میں سے کسی کے پاس کوئی ادبی سرمایہ نہیں تھا۔ سب کے سب نومشق تھے۔ کسی نے چارچھ نظمیں کہیں تھیں، کسی نے دو چار افسانے لکھے تھے، کسی کے پاس ایک چھوٹا سا ناول تھا، کسی کے پاس ایک ڈراما، لیکن چندہی سال کے اندریہ اردو ادب پر چھا گئے اور آج ان میں سے کئی اردو کے مایہ ناز ادیب اور شاعر ہیں اور ہندوستا ن کے چوٹی کے اہل قلم حضرات میں شمار ہوتے ہیں (چند ادیبوں نے کچھ سال بعد تحریک کا ساتھ چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ رجعت پسندی کی گود میں چلے گئے جیسے ڈاکٹر تاثیر، احمد علی وغیرہ۔)


ترقی پسند تحریک کے حلقے میں آنے والا تیسرا گروہ کسان، مزدور شاعروں کا تھا جن کے شعور اور فن کو انقلابی جدوجہد نے بیدار کیا تھا۔ انہوں نے دیہاتی بولیوں میں گیت اور آلہے لکھے۔ شاعری کی قدیم عوامی ہیئتوں کو استعمال کیا اور اپنی چیزیں بڑے بڑے جلسوں میں سنائیں۔ یہ چیزیں ہزاروں کے ہجوم میں گائی جاتی تھیں۔ درمیانی طبقے کے ان شاعروں نے بھی، جو دیہاتی بولیوں سے واقف تھے اور مزدور اور کسان تحریک میں حصہ لیتے تھے، ایسی چیزیں کہیں اور مقبولیت حاصل کی۔ ان میں خاص طور سے اہم نام سید مطلبی فریدآبادی کا ہے جن کا منظوم ڈرامہ ’’کسان رت‘‘ اچھی چیز ہے۔


اسی کے زیر اثر دیہاتی اور عوامی ادب سے دلچسپی بڑھی اور بعض ترقی پسند ادیبوں نے دیہاتی شاعروں کو روشناس کرایا اور دیہاتی گیت جمع کئے۔ سید مطلبی فرید آبادی نے میرٹھ کے علاقے کے مشہور دیہاتی شاعر دلمیر پر کام کیا اور دیوندر ستیارتھی نے ہندوستان بھر میں گھوم گھوم کے مختلف زبانوں کے گیت جمع کئے۔ سید مطلبی فرید آبادی نے دیہاتی شاعروں کے کوی سمیلن بھی کئے جو بہت کامیاب ہوئے۔ لیکن یہ کام ابتدا میں جس تیزی سے ہوا بعد میں اس طرح نہیں کیا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اردوکی ترقی پسند تحریک شہروں اور قصبوں میں محدود ہوکر رہ گئی۔ آج شہر اور گاؤں کے رشتے کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔


ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ ترجموں کا کام بھی بڑی تیزی سے شروع ہوا۔ اختر رائے پوری نے قاضی نذرالاسلام کی نظموں اور گورکی کی آپ بیتی کے ترجمے کئے جو انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہوئے۔ تمنائی نے چینی ادب کے ترجمے کئے۔ ۱۹۴۰ء کے بعد سید مطلبی اور مخمور جالندھری نے شلوخوف کے ناول کے ترجمے کئے اور بہت سے دوسرے لوگوں نے سیکڑوں روسی کہانیوں کے ترجمے شائع کئے۔ دنیا کے انقلابی ادب سے ہماری تحریک کی دلچسپی میں کمی نہیں ہوئی ہے اور آج بھی بیرونی نظموں اور افسانوں کے ترجمے برابر ہو رہے ہیں۔ اب تک جن بیرونی ادیبوں کے ترجمے ہوئے ہیں ان میں خاص نام یہ ہیں۔ طالسطائی، گورکی، پبلو نرودا، ناظم حکمت، مایا کوفسکی، ہارورڈ فاسٹ۔


’’اس نئی اور کم عمر تحریک پر پہلے ہی دو تین سال کے اندر دو سمتوں سے حملہ ہوا، سامراجی اور قدامت پرست۔ اور یہ وہ سمتیں تھیں جنہیں ترقی پسند مصنفین کی اجتماعی کوششوں سے خطرہ تھا۔ ظاہر ہے کہ تمام وہ قوتیں اوروہ ادارے جن کے وجود کا دارومدار قوم وملت کی پستی، زبوں حالی اور جہالت کو بدستور برقرار رکھنے پر ہے اور جن کے ظلم وتعدی، بے انصافی اور دھوکے بازی کا ہماری قوم شکار ہے، وہ اس تحریک کو ناکامیاب اور غیر مقبول بنانے کے لئے کوئی جتن اٹھا نہ رکھیں گے۔ چنانچہ اس تحریک کی مخالفت اور اس مخالفت کی نوعیت بھی اردو ادب کی تاریخ میں اسی قدر اہمیت اور دلچسپی کا سامان رکھتی ہے جتنی کہ اس کی غیر معمولی اور روز افزوں مقبولیت۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے دو چار ماہ بعد ہی کلکتہ کے نیم سرکاری اینگلو انڈین اخبار اسٹیٹس مین (Statesman) میں دو طویل سلسلہ وار مضامین اس کے خاص نامہ نگار کے نام سے شائع ہوئے، جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک محض ایک پردہ ہے جس کی آڑ میں اشتراکیت کی تبلیغ اور اشتراکی پارٹی کی تنظیم کی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ماسکو کے بالشویکوں اور تھرڈ انٹرنیشنل کے عندیہ اور منشا سے یہ تحریک ہندوستان میں جاری کی گئی ہے۔ جس کے فرستادہ بعض ایجنٹوں نے لندن میں مقیم چند ہندوستانی طلبا کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور ان ہی سے وہ ہندوستان میں اپنا کام نکال رہے ہیں۔


آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ ان مضامین کا اثر اس کے بالکل برخلاف ہوا، جس کی برطانوی استعمار پرستوں اور ان کے ماتحت اخبار نے توقع کی تھی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے نوجوان ادیبوں اور طلبا کے بے شمار خطوط میرے پاس آنے لگے جن میں یہ درخواست کی جاتی تھی کہ انہیں بھی اپنے شہر میں اس انجمن کی شاخ قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ نیز وہ بزرگ و محترم ادیب جو ہماری تحریک سے ہمدردی رکھتے تھے، اس افتراق و انتشار کی بھونڈی کوشش کو اپنی سمجھداری اور ایمانداری کی توہین سمجھ کر اس سے اورزیادہ گہری دلچسپی لینے لگے۔ شاعر اعظم رابندرناتھ ٹیگور اور بلبل ہند سروجنی نائیڈو صاحبہ نے بھی ہماری سرپرستی قبول فرما کر ہر طرح سے ہماری ہمت افزائی کی۔‘‘ (سجاد ظہیر، خطبہ صدارت اردو کانفرنس، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۵ء )


دوسرا حملہ قدامت پرست حلقوں کی طرف سے ہوا جو جاگیرداری انحطاط کی قدروں کے حامی تھے۔ ان میں پیش پیش وہ لوگ تھے جو روایتی انداز کی غزل پر جان چھڑکتے تھے اور ادب برائے ادب کے قائل تھے۔ انہوں نے ترقی پسند ادیبوں پر اخلاق بگاڑنے اور ادب کو خراب کرنے کا الزام لگایا۔ ان کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں بہت دنوں تک کام کرتی رہیں اوربعض ایسے حضرات بھی جوابتدا میں تحریک کے ساتھ آئے تھے، ان غلط فہمیوں کے شکار ہوگئے اوریہ کہنے لگے کہ ترقی پسند ادیب یا تو مزدوروں اور کسانوں کی باتیں کرتے ہیں یا بہو بیٹیوں کی چادریں اچھالتے ہیں۔ آگے چل کر اس نے اور شدید صورت اختیار کر لی اور ترقی پسند ادیبوں پر فحش نگاری اور عریانی کا الزا م لگ گیا اور لطف یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والے اس سماج کے نمائندے تھے جو امانت اور جان صاحب اور چرکین کو پیدا کر چکا تھا اور جس کے انحطاطی اثرات سے ہمارے اکثر اساتذہ بھی نہیں بچ سکے تھے۔


تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھپوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض ومقاصد کے پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصول تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان بھی ہوتا ہے اور نقاد بھی اور زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے اور اس لئے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے 30، ان کے مخاطب زیادہ تر قدامت پرست عناصر تھے جنہیں انہوں نے سماج کے ’’بڑے بوڑھوں‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاں مجنوں کایک دلچسپ اقتباس بے جا نہ ہوگا،


’’نیا ادب اور ترقی پسند کے سلسلے میں جتنے جھگڑے ہو رہے ہیں ان پر غائر نظر ڈالنے سے معلوم ہوا ہے کہ دراصل جھگڑا ایک ہے اور دونسلوں کا یعنی بڈھوں اور جوانوں کا جھگڑا ہے اور مجھے اس میں زیادتی بڈھوں کی معلوم ہوتی ہے۔ بڈھو ں کو نوجوانوں سے زیادہ سے زیادہ یہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ خود سر ہیں، بے پیرے ہیں، بڈھوں کا کہنا نہیں مانتے۔ جوانی تو خیر بقول انہیں بڑے بوڑھوں کے، دیوانی ہوتی ہے اور دیوانے کو یوں بھی کچھ نہیں کہا کرتے لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت ان ہوش مند اور فرزانہ بڈھوں پر ہوتی ہے جو جوانی کو بھی خواہ مخواہ شکنجے میں کس کر وہیں رکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ خود ہیں۔ زیادہ حیرت اس لئے ہوتی ہے کہ یہ بڈھے خود اپنی زندگی میں بچے سے جوان اور اور جوان سے بڈھے ہو چکے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، اپنے ریشے ریشے میں محسوس کر چکے ہیں کہ زمانہ متحرک قوت ہے جو آگے بڑھتی رہتی ہے اور زندگی ایک نامیاتی حقیقت ہے جو بدلتی رہتی ہے اور روز بروز پہلے سے زیادہ مہذب اور پہلے سے زیادہ مکمل ہوتی جاتی ہے۔


پھر کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ نئی نسل بھی اسی منزل پر رہے جہاں پرانی نسل ہے۔۔۔ اگر پچھلی نسل والے اپنی زندگی کے دن گزار چکے ہیں اور اپنے مقصد کی تکمیل کر چکے ہیں، اگر اب وہ اپنے میں اتنی سکت نہیں پاتے کہ نئی نسل کی نئی زندگی میں اس کے شریک کار رہیں تو کم سے کم ان کو اتنی توفیق ہونا چاہئے کہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہم کو نئی زندگی اور اس کے نئے مقصد کے لئے چھوڑ دیں۔‘‘ (ترقی پسند ادب)


مجنوں نے اپنے اسی مقالے میں اس مقصد کی بھی تشریح کر دی ہے جس کی تکمیل کا حق مانگا ہے، ’’انسانی تمدن اور اس کے تمام شعبوں کا پہلا بنیادی پتھر اقتصادیات ہے۔ ہماری پہلی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کی کثیر سے کثیر انسانی آبادی کو پیٹ بھر کھانا ملنے لگے۔ کوئی ننگانہ رہے۔ کوئی ان پڑھ نہ رہے۔ سب کو یکساں فراعت اور مادی سکون میسر ہو اور سب کو زندگی اور تہذیب کے یکساں مواقع ملیں۔ دوسرے الفاط میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہماری زندگی کے اقتصادی عقدے تمام دوسرے عقدوں سے زیادہ پیچیدہ اور اہم ہو رہے ہیں اور ان کوحل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت ہم اپنی تمام قوتوں کو یکجا کرکے انہیں عقدوں کو سلجھانے میں صرف کریں۔


اگر تہذیب اور ادب کو زندہ رہ کر ترقی کرنا ہے تو پہلے ہم کو اس کی کوشش کرنا ہے کہ تہذیب اور ادب ایک منتخب اور کم تعداد گروہ کا اجارہ نہ رہے بلکہ ادنی سے ادنی مزدوروں اور کسانوں میں پھیل جائے اور اس کے لئے ہم کو ایک تیز اقتصادی شعور کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ہمارے شغف کی غرض صرف یہ ہے کہ یہی جمہور ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ زندگی اور ترقی کی تمام راہیں عام ہو جائیں اور سب پر یکساں کھل جائیں۔


ترقی پسند ادب کے نام سے لوگ خواہ مخواہ چونکتے ہیں۔ ترقی پسند ادب فطری ادب کا صرف دوسرا نام ہے۔ ترقی پسند ادب میں غزل بھی آتی ہے اور نظم بھی۔ ناٹک اور نوٹنکی، افسانے اور داستانیں سبھی کچھ ترقی پسند ادب میں شمار ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ ان اصول اور تصورات کے شعور کے ماتحت وجود میں آئے ہوں (۱) زندگی ایک نامیاتی اور جدلیاتی حقیقت ہے جس کی فطرت انقلاب اور ترقی ہے۔ (۲) اس وقت تاریخ ہمارے سامنے ایک نیادور اور اس دور کی نئی ضرورتیں پیش کر رہی ہے جن کو تسلیم کرنا ہمارا فرض ہے۔ (۳) ادب کو اس انقلا ب اور ترقی میں مدد دینا ہے جو زندگی کی عین فطرت ہے اور ان تمام میلانات اور ضرورتوں کی تکمیل میں حصہ لینا ہے جو نئے دور کی اہم ترین خصوصیات ہیں۔۔۔ ترقی پسند ادب کی بنیاد واقعیت اور جمہوریت پر ہوتی ہے اور وہ ماضی کا معترف ہوتا ہے لیکن وہ مستقبل اور اس کے لامحدود امکانات پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہے۔‘‘ (ترقی پسند ادب)


مجنوں نے اپنی تحریروں سے ترقی پسند ادب کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ادب کو پرکھنے کے لئے تنقید کی ایک نئی کسوٹی بنانے میں بھی مدد دی۔


ترقی پسند تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور سامراجی رجعت پرستوں اور سامنتی قدامت پسندوں کی تمام مخالفتوں اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود اردو دنیا پر چھا گئی۔ لیکن تحریک جتنی وسیع اور ہمہ گیر تھی اس کی تنظیم اتنی ہی کمزور تھی بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایک سرے سے کوئی تنظیم تھی ہی نہیں۔ کوئی مرکز نہیں تھا۔ کوئی مرکزی رسالہ نہیں تھا۔ مختلف شہروں میں ادیب مقامی طور پر اپنے حلقے قائم کر لیتے تھے جہاں بیٹھ کر کچھ دنوں نظمیں اور افسانے پڑھے جاتے، ان پر تبادلہ خیال ہوتا، تنقید ہوتی اور پھر وہ حلقے منتشر ہو جاتے۔ انہیں حلقوں سے انجمن کی شاخیں بن جاتیں۔ وقتا فوقتا صوبائی یا کل ہند کانفرنسوں میں ادیبوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو جاتی تھی۔ وہاں ترقی پسندی اور دوسرے ادبی مسائل پر بحثیں ہوتیں، تجویزیں منظور ہوتیں، نئے حالات کے پیش نظر پروگرام بنتے اور پھر آئندہ کانفرنس تک کے لئے سب لوگ بکھر جاتے۔


حالانکہ انجمن کے باقاعدہ ممبر بنانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی لیکن لکھنے والوں کی اکثریت اپنے کو انجمن سے وابستہ سمجھتی تھی۔ اردو کے کئی اچھے رسالوں نے بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کر لی تھی اور ترقی پسند ادب کی ترویج و اشاعت کرنے لگے تھے۔ قدامت پسند اور رجعت پرست ادیب کچھ گھبرائے ہوئے سے رہتے تھے اور ترقی پسند تحریک کو اردو ادب کے خلاف کوئی بڑی سازش سمجھتے تھے، لیکن یہ حقیقت ان پر کبھی نہ روشن ہو سکی کہ یہ تحریک اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اس لئے پھل پھول رہی تھی کہ اس نے زندگی کی نئی قدروں سے اپنا رشتہ جوڑا تھا اور اس ادب میں ان جذبات کی ترجمانی ہوتی تھی جو عام انسانوں کے سینے میں مچل رہے تھے۔


میں نے اس زمانے کے مشاعروں میں بعض خاصی بھونڈی نظموں کو صرف اس لئے مقبول ہوتے دیکھا ہے کہ وہ عوام کے جذبات کی ترجمانی ہوتی تھیں۔ قدامت پرست عناصر اسے عوام کی بدمذاقی پر محمول کرتے تھے کہ اب فن کی کوئی قدر باقی نہیں رہ گئی ہے اور ادب پروپیگنڈا بن گیا ہے۔ لیکن دراصل اس بھونڈے پن کی زمین سے بھی فن کی نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں جو بڑھ کر خوبصورت پودے بن گئیں اور چندسال کے اندر اردو ادب کے دامن میں نئے خوبصورت اور مہکتے ہوئے پھول کھلنے لگے۔


۱۹۳۸ میں انجمن کی دوسری کانفرنس کلکتے میں منعقد ہوئی جس کا افتتاح ٹیگور نے کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے یورپ سے ڈاکٹر ملک راج آنند آئے جو اس وقت تک ہندستان کے ایک انگریزی ناول نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اس کانفرنس کے وقت تک ترقی پسند ادب کی ترقی کا اندازہ ان چند چھوٹی چھوٹی کتابوں سے ہو سکتا ہے جو نئے ادیب اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ سجاد ظہیر کا ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘، کرشن چندر کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’طلسم خیال‘‘، مجاز کی نظموں کا مجموعہ ’’آہنگ‘‘، حیات اللہ انصاری کی کہانیوں کا مجموعہ ’’انوکھی مصیبت‘‘، ان چیزوں نے مستقبل کے ادب کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس کے بعد تین چار سال کے اندر اور نئی کتابیں آئیں اور اردو ادب کی فضا نئی آوازوں سے گونج اٹھی۔ ان میں سب سے زیادہ اہم فیض کی نظموں کا مجموعہ نقش فریادی اور راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں کا مجموعہ دانہ و دام تھا۔ فیض سے اردو میں ایک نئے دبستان شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ جدید مغربیت اور قدیم مشرقیت کا حسین امتزاج تھا جس نے اردو شاعری کو دو آتشہ بنا دیا۔


سن 1942 تک ادیبوں کے ایک نئے گروہ نے تخلیق کے میدان میں قدم رکھا۔ احمد ندیم قاسمی، عزیز احمد، کیفی اعظمی، وامق جونپوری، ساحر لدھیانوی، عبادت بریلوی، حمید اختر، ابن انشا، عبداللہ ملک، ظہیر کاشمیری، فکر تونسوی، مجروح سلطان پوری، نیاز حیدر، مہندر ناتھ، وشوا متر عادل، ہنس راج رہبر، عادل رشید، اختر الایمان، مخمور جالندھری، غلام ربانی تاباں، ممتاز حسین، انور، ابراہیم جلیس، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بلونت سنگھ، شاہد صدیقی، پرویزز شاہدی، پرکاش پنڈت وغیرہ۔ ان میں شاعر، افسانہ نگار، نقاد سب تھے۔ انہوں نے وہی راہ اختیار کی جو اب تک ترقی پسند تحریک نے بنائی تھی۔ پھر خود انہوں نے بھی اس راہ کو ہموار کیا اور ترقی پسند ادب کو آگے بڑھایا۔ آج ان میں سے بہت سے ادیبوں کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ترقی پسند ادب کے خزانے میں سیکڑوں کتابوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔


اسی زمانے میں ایک اور گروہ نے سر اٹھایا۔ یہ ہئیت پرست، ابہام پرست اور جنس پرست ادیب تھے، جن کے مشہور نمائندے میراجی، یوسف ظفر، ممتاز مفتی، مختار صدیقی وغیرہ تھے۔ یہ ذہین اور ہو شیار لکھنے والے تھے جو یورپ کے انحطاطی ادب سے متاثر تھے، اور شعور کے بجائے تحت الشعور اور لاشعور پر اور معنویت اور مواد کو چھوڑ کر ہئیت اور اسلوب پر زور دیتے تھے۔ یہ لوگ کھلم کھلا ترقی پسند تحریک کے مخالف تھے اور اس کا اعلان کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ انجمن حلقہ ارباب ذوق کے نام سے قائم کر لی تھی جو لاہور اور دہلی تک محدود تھی لیکن ترقی پسندوں کی تحریک سے زیادہ منظم تھی۔


ان کی بنیاد یہ تھی کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی رومانیت مجہول اور گندی تھی۔ یہ خوابوں کو خارجی حقیقت سے الگ کرکے واہمے میں تبدیل کر دیتے تھے اور ان اندھے خوابوں سے ذاتی اور انفرادی تاثرات کی جو جنسی تجربوں تک محدود رہتے تھے، ایک داخلی دنیا بناتے تھے جس کے جغرافیے کا پتا لگانا معمولی انسان کا کام نہ تھا۔ ان کا’’ انا‘‘ کسی قسم کی سماجی ذمہ داری کو برداشت نہیں کرتا تھا جس کا لازمی نتیجہ ابہام، قنوطیت اور فرار تھا۔ آخر وہ جمالیات کی اس سطح پر اتر آئے جیسے عورت کا پیشاب کرنا اور فکر کی اس بلندی پر پہنچ گئے جہاں س طرح کی شاعری ممکن ہے کہ’’ گورے جسموں کو جواں رکھتے ہیں بندر کے غدود۔‘‘


اس تحریک نے تین چار سال تک بڑ ا شور مچایا اور بعض ترقی پسندوں کو بھی بہکانے میں کامیاب ہوئی لیکن پنپ نہیں سکی۔ یہ در اصل جاگیرداری اور بورژوا انحطاط کی گندگی کا بدرو تھا، جو بڑے زور و شور سے بہا لیکن اس کا بہاؤ اس کی گندگی کو نہ چھپا سکا۔ واقعات اور حالات کی منطق عجیب و غریب ہوتی ہے۔ یہ ادیب اپنے عہد کے حساس بچے تھے جو جاگیرداری اور سامراجی سماج سے دور بھاگنا چاہتے تھے لیکن اسے تبدیل کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے تھے۔ جاگیرداری اور سامراجی قدروں سے بھاگ کر وہ عوامی قدروں تک نہ آ سکے۔ اس لیے نراجیت کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے قدامت سے بچ کر جدت کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی اور فرائڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی آغوش میں پہنچ گئے۔


انہوں نے ہندستان میں سامراج کے سیاسی پہلو کو دیکھا تھا لیکن اس کے ادبی نظریہ سازوں کو نہیں پہچانا تھا۔ وہ جس سماج کی گندگی سے بھاگ رہے تھے، اپنی اکتاہٹ میں اسی گندگی میں لت پت ہو گئے۔ جاگیرداری انحطاط سے بچنے کی کوشش میں بورژوا انحطاط میں غرق ہو گئے۔ ان پر فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے،


مضمحل ساعتِ امروز کی بے رنگی سے
یاد ماضی سے غمیں، دہشت فردا سے نڈھال


ہماری تحریک کے مخالف قدامت پرست عناصر نے ان انحطاطی ادیبوں کو ترقی پسند کہنا شروع کر دیا۔ جب ترقی پسند ادب کو گالی دینا ہوتی تو فیض، مجاز یا کرشن چندر کے بجائے میراجی وغیرہ کی مثال دیتے تھے۔ اس وقت ترقی پسند نقادوں نے تھوڑی سی غفلت برتی، وہ مخالفین کی تنقید کے جواب میں ہماری صفائی تو ضرور پیش کرتے تھے اور ترقی پسند ادب اور تنقید کے اصول بھی بیان کرتے تھے لیکن کھل کر انحطاط پسندوں پر تنقید نہیں کرتے تھے۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ترقی پسند تنقید کی بھی ابتدا تھی۔ اس کے علاوہ اردو کے بعض رسائل نے انحطاطی ادیبوں کی چیزوں کو ترقی پسند چیزوں کے ساتھ گڈمڈ کرنا شرو ع کر دیا۔ عام پڑھنے والے شدید ذہنی انتشار کا شکار ہوئے۔ حلقہ ارباب ذوق نے ایک اور سلسلہ بھی شروع کیا۔ وہ بہترین نظمیں کے نام سے ہرسال اردو نظموں کا انتخاب شائع کرتے تھے اور اس میں اپنے ڈھب کی چیزیں منتخب کرتے تھے۔ یہ انتخابات ایسے ناشرین نے بھی شائع کئے جنہوں نے ترقی پسندادب کی سب سے زیادہ اشاعت کی تھی۔


بعض انحطاطی چیزوں کوغلطی سے ترقی پسند سمجھ کر ترقی پسند رسائل میں بھی شائع کیا گیا۔ مثلا حسن عسکری کی کہانی ’’پھسلن‘‘ جو نیا ادب میں شائع ہوئی تھی۔ ن۔ م راشد کی شاعری کا بیشتر حصہ زندگی سے فرار کرکے جنسیات میں پناہ لینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کے باوجود راشد کو ترقی پسند حلقے میں شریک سمجھا گیا۔ انہوں نے خودبھی انجمن کی تیسری کانفرنس میں شرکت کی۔ سعادت حسن منٹو گور کی کے ترجمے کرنے اور’’نیاقانون‘‘ جیسی کہانی لکھنے کے بعد بڑی تیزی سے انحطاط کی طرف جا رہے تھے اور سنسنی خیز، فحش اور گندی کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ عصمت چغتائی نے بھی اپنی بغاوت کے لئے جنسیات ہی کا انتخاب کیا۔ اور کبھی ’’گیندا‘‘ کی طرح کی اچھی اور کبھی ’’لحاف‘‘ کی طرح کی بری کہانیاں لکھیں۔


نئے لکھنے والوں میں اور بھی بہت سے ادیب اس قسم کی مریضانہ جنس نگاری کو حقیقت نگاری سمجھ کر پیش کر رہے تھے۔ یہ تمام چیزیں ترقی پسند ادب کے ساتھ کچھ اس طرح مل گئیں کہ ہر نیا ادیب ترقی پسند قرار پا گیا اور ہر نئی تحریر ترقی پسند ادب کا نمونہ۔ نیا ادب اور ترقی پسند ادب ہم معنی الفاظ ہو گئے۔ اس وقت سجاد ظہیر، احتشام حسین، ممتازحسین اور عزیز احمد نے اپنے مضامین اور تنقیدوں سے اس ابتری اور انتشار کو دور کرنے کی کوشش کی۔


سجاد ظہیر نے حیدرآباد اردو کانفرنس (۱۹۴۵) میں اپنے خطبہ صدارت میں اس پر احتجاج کیا کہ ’’ترقی پسند ادب کے مخالفین ہر نئے ادیب کو اور اگروہ خراب ادیب ہے تو اور زیادہ باصرار، ترقی پسند کانام دے کر پوری تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے میراجی کا نام لے کر بتایا کہ اس قسم کے ادب اور شاعری کا ترقی پسندی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ’’وہ عوام سے دور بھاگتے ہیں۔ ان کے مسائل سے انہیں نفرت ہے۔ ان کی بیمار ذہنیت زندگی کی ہر اہم حقیقت سے چشم پوشی کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ غرض یہ کہ ان کی شاعری سرتا سرفراری شاعری ہے اور انسان کے دل ودماغ کو بالیدگی نہیں بخشتی۔ اگر خراب قسم کی قدیم شاعری عیش پرست امرا کی تفریح کا سامان تھی تو میرا جی کی شاعری آج کل کے متوسط طبقے کے اس گروہ کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا عکس پیش کرتی ہے، جو زندگی کی پر پیچ راہوں پرغول بیاباں کی طرح آوارہ وسرگرداں ہے، وہ ماضی سے نالاں ہے۔ اس کا حال محرومی کی ایک دردناک داستان ہے۔ اس کا مستقبل امید سے خالی اور تاریک ہے۔‘‘


اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ہر ادیب پر مجموعی حیثیت سے نظر ڈالنی چاہئے اور کھوٹے کھرے کوالگ الگ کرنا چاہئے اور اس ادبی بددیانتی سے بچنا چاہئے جو صرف چند لچرچیزوں کا انتخاب کرکے کسی ادیب یا شاعر کو قابل مذمت قرار دے دیتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خاص طور سے منٹو کا ذکر کیا، ’’بعض ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی تحریروں میں بیک وقت کئی رجحانات ملتے ہیں مثلاً سعادت حسن منٹو۔ یہ اردو کے ایک نہایت اچھے افسانہ نگار ہیں اور میں کہوں گا کہ ان کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ان کے بعض افسانے خراب ہیں۔ بعض رجعت پسند تک ہیں۔


میں نے خود منٹو صاحب سے ایک مرتبہ ان کے افسانہ ’’بو‘‘ کے متعلق یہ کہا کہ آپ کا یہ افسانہ بہت ہی دردناک لیکن فضول افسانہ ہے اس لئے کہ درمیانی طبقے کے ہر آسودہ حال فرد کی جنسی بدعنوانیوں کا تذکرہ چاہے وہ کتنا ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو، لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کے لئے تضیع اوقات ہے اور دراصل زندگی کے اہم ترین تقاضوں سے اسی قدر فرار کا اظہار ہے جتنا کہ قدیم قسم کی رجعت پسندی 34‘‘


احتشام حسین نے رشید احمد صدیقی اور علی اختر تلہری کے جواب میں نیا ادب اور ترقی پسند ادب کی بحث کرتے ہوئے صاف صاف بتایا کہ ترقی پسند ادب نیا ادب ضرور ہے لیکن سارا نیا ادب ترقی پسند ادب نہیں ہے۔ انہوں نے فرائڈ کے تحلیل نفسی کے مارے ہوئے اعصابی ادب کو خاص طور سے ترقی پسندی کے زمرے سے خارج کیا اور لکھا کہ ترقی پسندوں نے کبھی فرائڈ کو اپنا امام تسلیم نہیں کیا، بلکہ بہت احتیاط سے اس کے نتائج فکر کا مطالعہ کیا کیونکہ ترقی پسندی اجتماعی زندگی کو اصل بنیاد قرار دیتی ہے اور تحت الشعور، جنسی دباؤ، جنسی بیماریوں کو بھی وقت کے معاشی اور معاشرتی حالات سے وابستہ سمجھتی ہے۔ محض تجزیہ نفس سے دلچسپی لینے والے فردمیں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ سماجی انسان نظر انداز ہو جاتا ہے۔ وہ تحت الشعور اور لاشعور کی دھندلی اور اندھیری دنیا میں پہنچ کر زندگی کے ان خارجی اثرات کو نظر انداز کر جاتے ہیں جن سے داخلیت تربیت پاتی ہے۔


ممتاز حسین نے انحطاطی ادب کے ایک اور رجحان انفعالی رومانیت پر حملہ کیا جس کا سلسلہ انیسویں صدی کے فرانسیسی انحطاط پرستوں، بودلیر، ریمبو اور ورلین سے ملتا ہے اور جس کی نمائندگی حسن عسکری کرتے ہیں۔ یہ نظریہ اذیت کوشی، اذیت دہی، ظلم کے نفسیاتی جواز کی تلاش، عوام دشمنی، نراجی ذہنیت کا نظریہ ہے۔ اس گروہ کے لکھنے والوں نے ’’حقیقت کے ادراک کا معیار خود اپنے اعصاب ہی کو بنار کھا ہے اور صرف اپنے داخلی تاثرات کو ادب میں جگہ دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی خود فریبی اور ذہنی آشیاں بندی ہے۔‘‘


عزیز احمد نے اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں راشد کی فراریت اور منٹو اور عصمت کی مریضانہ جنس نگاری پر تنقید کی۔ راشد کی شاعری اور طبیعت کا مجموعی رجحان زندگی کی کشمکش سے گریزاں اور مفرور ہے اور رجعت کی طرف مائل ہے۔ انہیں ایک ایسی جگہ کی تلاش ہے جہاں خیروشر کے تصورات نہ ہوں۔ صرف دو طاقتیں ان کے دل و دماغ پر مسلط ہیں، جنس اور جنسی تشنگی کی وجہ سے خواہش مرگ۔ اس ہمہ گیر جنس پرستی کی روشنی میں ہی راشد صاحب فطرت کو دیکھتے ہیں اور اس طرح سہل انگارلا ادریت کی طرف ان کا قدم اٹھتا ہے۔ جس زندگی میں جنس کے برابر اور کوئی قدرنہ ہو، اس میں موت کی خواہش ضروری ہے۔ یہ فرار کی انتہا ہے۔


’’اس کھوکھلے پن کی وجہ سے راشد کی شاعری میں روانی اور سلاست پیدا نہ ہو سکی جو آزاد شاعری کی سب سے بڑی وجہ جواز ہے۔‘‘ اور اس لئے راشد نے مغلق اور ناموس ترکیبوں کاسہارا لے کر نظم کا ذہنی وزن بڑھانا چاہا۔ ’’اور یہ اس کی کمزوری کی نشاہی ہے۔۔‘‘ اسی کے ساتھ عزیز احمد نے یہ بھی بتایا کہ راشد کی بہت سی نظمیں سترہویں صدی کے بعض انگریز شعرا مثلا ڈن (Donne) اور مارویل (Marvele) سے ماخوذ ہیں، ’’لیکن راشد نے کہیں خیال یا موضوع کا حوالہ نہیں دیا ہے۔‘‘ راشد اور ان کی شاعری کو اس حد تک ترقی پسند سمجھ لیاگیا کہ کرشن چندر نے ’’ماورا‘‘ کا دیباچہ لکھا اور فیض نے ’’نقش فریادی‘‘ کا دیباچہ راشد سے لکھوایا جنہوں نے فیض کے یہاں فرائڈ کی فرضی بیماریاں تلاش کرکے انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


منٹو کے یہاں، ’’جنس کا طلسم جس میں ان کا شعور اور لاشعور چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے، حددرجہ مریضانہ ہے۔ جنس نے سعادت حسن منٹو کے یہاں مذہب کی جگہ لے لی ہے۔ جس مصنف کے ذہن پرجنس چھائی ہو، جنون بھی اس سے زیادہ دور نہیں رہتا۔ منٹو کا انقلابی ہیرو بھی بجائے اس کے کہ سلجھے ہوئے عمل سے، محنت اور کوشش سے، تبلیغ سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچائے بالعموم اپنے جوش وجنون میں پاگل خانے یا مرگھٹ پہنچتا ہے۔ سب سے بڑا اعتراض منٹو پر یہ عائد ہوتا ہے کہ اس میں انسانیت کا راسخ عقیدہ کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘


عصمت کی مریضانہ جنس نگاری پر تنقید کرنے کے بعد عزیز احمد نے یہ لکھا کہ ’’اگر ان کی جنس پرستی میں ذراروک اور ٹھہراؤ پیدا ہو، ذرا اور توازن ہو اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو وہ ان کی اصلی جگہ پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو یقین ہے کہ اپنی جدت پسند تحریر، اپنی قوت مشاہدہ، اپنی بے جھجک جرأت کی وجہ سے وہ درحقیقت اپنے لئے اردوادب میں جگہ پیدا کرسکیں گی۔‘‘ (عصمت میں یہ خوشگوار تبدیلی آ گئی ہے)


سماج کی گندگی اور اس کے زہریلے اثرات سے بچنا آسان کام نہیں ہے۔ ترقی پسند ادیب اسی سماج میں پیداہوئے تھے اوراسے بدلنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے صدیوں کے جاگیرداری انحطاط اور اتنشار میں سامراجی نظریات نے اپنا زہر گھول دیا تھا۔ اس لئے بعض فرسودہ قدریں، بعض غلط نظریات، بعض انحطاطی اثرات خود ترقی پسند ادیبوں کی تحریروں میں بھی جھلک آئے تھے، جنہیں جلد محسوس نہیں کیا جا سکا۔ کبھی ان کی صحت مند رومانیت بیمار ہو جاتی تھی، کبھی فرار پر آمادہ کر دیتی تھی اور کبھی اکتاہٹ اور جھلاہٹ ان کی تحریروں میں غیر ضروری تلخی پیدا کر دیتی تھی۔ یہ چیزیں مختلف ادیبوں کے یہاں مختلف شکلوں میں نمودار ہوتی تھیں۔ تحریک کی ابتدا سے پہلے اس نے سجاد ظہیر اور رشید جہاں اور احمد علی کی تحریروں میں ’’انگارے‘‘ کا روپ اختیار کیا تھا۔ جذبی کے یہاں قنوطیت بن کے جھلکی تھی۔ فیض کے یہاں یہ موضوع سخن کی نظم میں ڈھل گئی اور مجاز سے اس نے وہ قطعہ کہلوایا جو ا پندرہ برس بعد شائع ہوا ہے،


تاج جب مرد کے ماتھے پہ نظر آتا ہے
یک بیک خوں مری آنکھوں میں اتر آتا ہے


جب نظر آتا ہے عورت کی جبیں پر مجھ کو
عجز و تمکین کا ہر نقش ابھر آتا ہے


ترقی پسند ادیب اپنے طبقات اور اپنے سماج کی کئی بیماریاں ساتھ لے کر آئے تھے جن سے انہوں نے آہستہ آہستہ صحت پائی۔ اس زمانے کے اس الجھاؤ کا اظہار سجاد ظہیر نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’ترقی پسند ادیب اچھے بھی ہیں اور برے بھی، کامیاب بھی اور ناکامیاب بھی۔ ترقی پسندی، وہ ادب میں ہو یا عام طور سے زندگی میں، کسی جامد یا ثابت تصور کا نہیں بلکہ متحرک اور سیال تصور کا نام ہے، چنانچہ ایسے بھی ادیب ہیں جو کسی دور میں ترقی پسند تھے لیکن اب ترقی کے خلاف ہیں۔ ایسے بھی ادیب ہیں جن کی ذہانت اور بیدار مغزی انہیں اپنی قدیم رجعت پرستی سے علیحدہ کرکے ترقی پسندی کی جانب کھینچے لا رہی ہے۔ اس کشش کا اظہار ان کی تحریروں میں بھی ہوتا ہے، جبکہ دقیانوسی خیالات کی تہہ کے نیچے سے زندگی کی روشنی رہ رہ کے جھلک پڑتی ہے۔ ایسے بھی نوجوان ادیب ہیں جو ادبار اور مایوسی کی اس ہولناک آپ بیتی سے تنگ آکر جوکہ ہمارے نچلے متوسط طبقے کی قسمت میں آ گئی ہے، ہر اچھی بری چیز کی مخالفت کے لئے اندھا دھند آمادہ ہو جاتے ہیں۔


وہ صرف تخریب سے دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ تجربات اور علم کی روشنی حاصل کرکے وہ ترقی پسندی کا سچا مفہوم سمجھنے لگتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ راہ نجات تخریب و تعمیر دونوں کا مطالبہ کرتی ہے اور وہی مخالفت اچھی اور صحت بخش ہے جو اپنے بلند مقاصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں کی جائے اور جو سچے معنوں میں برائی کی مخالفت اور بھلائی کی موافقت ہو۔ چونکہ ترقی پسند ادیب ان مختلف مدارج میں پائے جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی ادیب کی تحریروں میں ان مختلف کیفیات کا اظہار ہوتا ہے، اس لئے یہ کہنامشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں ادیب ترقی پسند ہے یا نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ ترقی پسندی کی کس منزل میں ہے اور کس درجے پر ہے۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ جب ہم کسی ادیب کے متعلق اظہار رائے کریں تو اس کے سارے کارناموں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ بحیثیت مجموعی اس کا رجحان کدھر ہے 35،


ترقی پسند ادب کا کارواں ان پر پیچ راہوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور نظریاتی صفائی، معنوی گہرائی اور جذباتی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ دراصل یہ سفر رومانیت سے حقیقت نگاری کی طرف تھا جو ترقی پسند کا لازمی رجحان تھا۔ اس میں بعض کٹھن منزلیں اور دشوار گزار وادیاں آتی ہیں۔ حقیقت نگاری کے لئے محض جذباتی ابال سے کام نہیں چلتا بلکہ اس سنجیدگی اور ٹھہراؤ کی ضرورت ہوتی ہے جو زندگی کے مطالعے اور گردوپیش کے حالات کو سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے، اس لئے جو ادیب اور شاعر اپنے رومانی خول سے باہر نہیں نکل سکے اور عوام سے قریب نہیں آ سکے، ان کا تخلیقی چشمہ یا تو خشک ہو گیا یا انہوں نے تحریک سے علیحدگی اختیار کرکے اول جلول بکنا شروع کر دیا۔


اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ترقی پسند مصنفین کے راستے میں معاشی مشکلات بھی حائل تھیں (اور اب بھی حائل ہیں۔) ان کو اپنا پیٹ بھرنے اور زندہ رہنے کے لئے کوئی غیرا دبی کام کرنا پڑتا تھا۔ اور بسا اوقات وہ کام اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ ادبی تخلیق کے لئے وقت نہیں نکالا جا سکتا تھا یا بھوک اور بےروزگاری کی تکلیفیں انہیں اتنا کچل دیتی تھیں کہ وہ اچھی تخلیق نہیں کر سکتے تھے۔ ادب اور صحافت کے ذریعے سے کافی آمدنی ہو نہیں سکتی تھی اور سرکاری ملازمت کے دروازے یا تو ان پر بند تھے یا انہیں سرکاری ملازمت کے لئے اپنے جذبات اور خیالات پر پہرے بٹھانے پڑتے تھے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے کچھ ادیب نراج کی کیفیت میں مبتلا ہوکر ذہنی اور جذباتی انتشار کا شکار ہو گئے اور کچھ سرکاری ملازمتوں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئے، لیکن ان سب کے باوجود ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی۔


بحیثیت مجموعی اس زمانے میں ترقی پسند ادب نے واضح شکل اختیار کی۔ ملک کا سیاسی ابال نئی بیداری پیدا کر رہا تھا اور پڑھنے والوں کے نئے گروہ ابھر رہے تھے جو اچھے جمہوری اور انقلابی ادب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کرشن چندر کے فن کا نیا موڑ اسی زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ احتشام حسین کی تنقید نگاری میں اسی زمانے میں پختگی آئی اور اسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی نے مسلم لیگ کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور عوامی زندگی کی ترجمانی کے میدان میں قدم رکھا اور کیفی اعظمی کی شاعری میں ہمارے ادب نے ایک بڑی واضح سامراج دشمن اور انقلاب دوست کی شکل اختیار کی۔ ۱۹۴۵ء، ۱۹۴۶ء اور۱۹۴۷ء میں ترقی پسند تحریک خوب پھلی پھولی اور اس کے بعد س اس میں بڑی تیزی اور بیداری پیدا ہو گئی جس کے زیر اثر اچھی اچھی چیزیں لکھی گئیں۔


۱۹۴۷ء میں تین بڑے اہم سوالات سامنے آئے جن کا جواب دینا ہر ادیب کا فرض بن گیا۔ کوئی ان سے گریز نہیں کر سکتا تھا۔ ان سوالات پر ادیبوں نے اپنی ادبی تخلیقات اور مباحثوں میں جورویہ اختیار کیا، اس نے ان کی ترقی پسنداور رجعت پرست سمت کا تعین کر دیا۔


۱۹۴۶ء سے جو فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا وہ ۱۹۴۸ء تک جاری رہا۔ ۱۹۴۷ء کے وسط میں اس نے اتنا بھیانک روپ اختیار کر لیا کہ ہندوستان کی پوری تاریخ میں ایسے ہولناک فسادکی مثال نہیں ملتی۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ گئیں اور گھر اس طرح اجڑے کہ آج تک آباد نہ ہو سکے۔ چنانچہ آج مغربی پنجا ب میں کسی سکھ یا ہندو کا تلاش کرنا اور مشرقی پنجاب میں کسی مسلمان کی پرچھائیں ڈھونڈنا عنقا کی جستجو کرنے کے برابر ہے۔ انحطاط پسندوں اور جنس پرستوں نے سیاسی اور سماجی اسباب کی طرف سے آنکھیں بند کرکے فسادات کا تجزیہ فرائڈ کی تحلیل نفسی کے ذریعے سے کرنا چاہا اور اسے عوام کی تشدد پسند جبلت اور جنسی گھٹن کا نتیجہ قرار دیا۔


ایک صاحب نے مجھ سے یہاں تک کہا کہ ہندوستان کے مردوں اور عورتوں کو دو تین سال کے لئے گائے بیلوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو سارا فساد ختم ہو جائےگا۔ یہ بہیمانہ نظریہ جسے تحلیل نفسی کا مہذب نام دے دیا گیا ہے، سامراج کا دیا ہوا انتہائی خبیث نظریہ ہے جو انسان سے اس کا شعور چھین کر لاشعور اور جنسی حیثیت کی بھول بھلیاں میں پھنساکر اسے جانور بنا دیتا ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی تھا جس نے ان فسادات کا خیرمقدم کیا اور خونریزی کو اس خون سے تعبیر کیا جو بچے کی ولادت کے وقت ماں کے رحم سے جاری ہوتا ہے (ممتاز شیریں) بعض لوگوں نے فسادات کا فرقہ وارانہ تجزیہ کرکے کسی ایک فرقے یامذہب کے لوگوں کو موردالزام قرار دے دیا (ایم اسلم) کسی نے ان ہولناک واقعات سے بھی جنسی لذت کا سامان فراہم کیا (سعادت حسن منٹو) لیکن تر قی پسند ادیبوں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ فرقے وارانہ فسادات کے سیاسی اور سماجی اسباب دریافت کرنے کی کوشش کی اور درندگی کے اس اندھیرے میں بھی انسانیت کی شمع کی ٹمٹماتی ہوئی لو ڈھونڈلی۔


اس موضوع پر ترقی پسند ادیبوں نے جو کچھ لکھا، اس میں سب سے زیادہ بلند درجہ کرشن چندر کی کہانیوں کو حاصل ہے جن میں میرے نزدیک سب سے اچھی کہانی ’’پشاور ایکسپریس‘‘ ہے۔ احمدعباس 36، کی کہانی ’’جنتا‘‘ اور عصمت کی کہانی ’’جڑیں‘‘ بھی اس سلسلے کی اہم اور اچھی کہانیاں ہیں۔


دوسرا سوال ریاست اور حکومت سے وفاداری کا تھا جو ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں اٹھایا گیا، لیکن بحث میں دونوں جگہ کے ادیب شریک ہوئے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے اس سوال کے اٹھنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا، کیونکہ ہندوستان میں ایک بیرونی سامراج کی حکومت قائم تھی۔ جس سے نفرت ہر ہندوستانی کے خون کے قطرے قطرے میں رچی اور بسی ہوئی تھی۔ اور وہ لوگ بھی وفاداری جن کا پیشہ تھا ادیبوں سے حکومت کی وفاداری کامطالبہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے، لیکن ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے بعد حسن عسکری پر جو ادب کے سماجی کردار کے منکر تھے، یکایک اسلام اور پاکستان کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ انہوں نے یہ مطالبہ کر دیا کہ تمام ادیبوں کو حکومت اور ریاست کا وفادار ہونا چاہئے اور لطف یہ ہے کہ وہ یہ مطالبہ کرتے جا رہے تھے اور یہ کہتے جارہے تھے کہ ادیب کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں۔ ایک ادیب کی اور دوسری شہری کی۔ اور شہری کی حیثیت سے جو فریضہ ا س پر عائد ہوتا ہے ادیب کی حیثیت سے عائد نہیں ہوتا۔


دراصل اس مطالبے کی تہہ میں ایک بہت بڑی شرارت چھپی ہوئی تھی۔ حسن عسکری کو یہ معلوم تھا کہ ترقی پسند ادیب حکومت اور ریاست سے وفاداری کا اعلان نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں وہ یہ ثابت کر سکیں گے کہ ترقی پسند ادیب پاکستان کے غدار ہیں اور غداروں کی جگہ یا تو جیل میں ہے یا پاکستان کے باہر جلاوطنی کے عالم میں۔ اس طرح رجعت پرست اور انحطاطی ادب کے لئے میدان صاف ہو جائےگا اور وہ ادیب پنپ سکیں گے جن کی تعریف حسن عسکری نے ان الفاظ میں کی تھی کہ ہر ادیب بقول آڈن کے کسی نہ کسی حد تک فاشسٹ ضرور ہوتا ہے اور یہ سوال اتنا ہی اشتعال انگیز تھا جتنا اشتعال انگیز ایک فاشسٹ ہو سکتا ہے۔


اس پر بہت بڑی تحریری بحث ہوئی جو مہینوں چلتی رہی۔ اس بحث میں پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے ادیبوں نے حصہ لیا اور اس کے ذریعہ سے بہت سے الجھے ہوئے مسائل صاف ہو گئے اورکئی بت جنہیں اب تک ترقی پسند سمجھا جاتا تھا، منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ ترقی پسند ادیبوں نے اس سوال کا بہت معقول اور سلجھا ہوا جواب دیا۔ ترقی پسند ادیب عوام کے وفادار ہیں۔ ملک اور قوم کے وفادار ہیں۔ وہ اتنے ہی ذمہ دار ادیب ہیں جتنے ذمہ دار شہری ہیں۔ ان کی ادبی اور شہری زندگی میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اگر ریاست اور عوام کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، اگر حکومت عوام کی ہے اور ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہے تو ترقی پسند ادیب ریاست اور حکومت کے وفادار ہیں ورنہ نہیں۔ اس جذبے کا نچوڑ احتشام حسین نے دو سطروں میں پیش کر دیا، ’’اچھے ادیب کا انسان دوست ہونا ضروری ہے۔ حکومت دوست ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ حکومت سے غذاری کر سکتا ہے، عوام سے غدار ی نہیں کر سکتا۔‘‘


ساتھ ساتھ احتشام حسین نے ان ادیبوں کی بھی قلعی کھول دی جنہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا، ’’کیا آج حکومت اور ریاست سے وفاداری کامسئلہ انہیں ادیبوں نے نہیں اٹھایا ہے جو کل تک ادب کے غایتی ہونے پر ہنستے تھے؟ جو ادیبوں کی انسان دوستی کا مضحکہ اڑاتے تھے؟ جو عوام سے ہمدردی کے اظہار کو غیر ادبی موضوع کہتے تھے؟ آج وہ ان تنکوں کا سہارا تلاش کر رہے ہیں جنہیں کل تک کمزور اور ہیچ سمجھتے تھے۔ ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ جو لوگ انقلابی قدروں سے بچنے اور زندگی کے عام مسائل سے بے تعلق رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں، درحقیقت ذہنی طور پر اس نظام حیات کو قبول کر لیتے ہیں جس سے وہ الگ رہنے کے فریب میں مبتلاہیں یا جس کی مخالفت عوام کرتے ہیں۔


ان کا سارا ذہنی انتشار، ان کی ناآسودگی اور الم کوشی کسی عظیم الشان یا اہم آفاقی بے ترتیبی کو دور کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد محض خود غرضانہ تسکین جوئی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں وہ عوام پر بے اعتمادی ظاہر کرتے ہیں اور انسان دوستی کے جذبے کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ خواص، یا غیر معمولی انسانوں سے اپنے ذہنی رابطے کا ذکر کرکے اپنی عوام دشمنی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ایسے ادیبوں کی بے تعلقی، بے تعلقی نہیں رہتی، جانب داری بن جاتی ہے۔ ایک طرح کی نراجی شخصیت کے اظہا ر کے باوجود ان کی محبت اور نفرت کا راز ظاہر ہو جاتا ہے۔‘‘


تیسرا سوال جو پہلے دو سوالوں سے کسی طرح کم اہم نہیں تھا، زبان کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ بے حد پیچیدہ ہ اور آج بھی الجھا ہوا ہے۔ اس پر ترقی پسند ادیبوں نے اظہار خیال کیا ہے لیکن ابھی تک کسی معقول متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ اس پرسب سے زیادہ غور و فکر سجاد ظہیر، ڈاکٹر علیم، فراق گورکھپوری اور احتشام حسین نے کیا ہے۔


یوں تو زبان کا مسئلہ بہت دنوں سے زیر بحث تھا لیکن اگست ۱۹۴۷ کے بعد اس کی نوعیت بالکل بدل گئی۔ ہندوستان میں ہندی کو راشٹر بھاشا اور پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں ہندوستانی بولنے والے علاقے میں اردو کچلی جانے لگی اور غیر ہندوستانی علاقوں میں دوسری زبانوں نے یہ محسوس کیا کہ ہندی ان پر لادی جا رہی ہے۔ پاکستان میں جہاں کے کسی علاقے میں اردو عوام کی زبان نہیں ہے، اسے سرکاری حیثیت سے ریاست کی زبان کا درجہ دے دیا گیا جس پر خاص طور سے بنگالیوں نے بڑا احتجاج کیا اور عملی جدوجہد کے میدان میں اترآئے (یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے) ترقی پسند ادیبوں نے ہندوستان اور پاکستان میں زبانوں کی اس کشمکش کو تشویش کی نگاہوں سے دیکھا اور ان کے بارے میں ایک صحیح رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اردو اور ہندی کے ترقی پسند ادیب شریک تھے۔


انہوں نے اس سوال کو کئی پہلوؤں سے دیکھا کہ سارے ہندوستان کی زبان ہندی اور سارے پاکستان کی زبان اردو ہے؟ اس کے جواب میں سب ادیب اس پر متفق تھے کہ نہ ہندی سارے ہندوستان کی اور نہ اردو سارے پاکستان کی زبان ہے۔ ہر زبان کو اپنے علاقے میں پوری طرح پھلنے پھولنے کا موقع ملنا چاہئے اور ان کے بولنے والوں کو اس کا حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنا سارا تہذیبی، سماجی اور سیاسی کاروبار اپنی اپنی زبانوں میں چلائیں۔


دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانیں ہیں یا ایک ہی زبان کے دو ادبی روپ ہیں، جو دو مختلف لپیوں میں لکھے جاتے ہیں۔ اگر وہ دو الگ الگ ایک ہی زبان کے دو ادبی روپ ہیں تو انہیں ایک دوسرے سے قریب لانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، تاکہ مستقبل میں یہ دونوں ادبی روپ مل کر ایک بہتر ادبی روپ کی شکل اختیار کر سکیں؟ اس سوال پر سب سے زیادہ اختلاف رائے کا اظہارہوا۔ بعض لوگوں نے ہندی اور اردو کو دو الگ الگ زبانیں قرار دیا۔ ہندی شمالی ہندوستان کے ہندوؤں کی زبان اور اردو مسلمانوں کی زبان۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ دونوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور کچھ کا یہ کہ اب اردو کو ہندی کے سامنے پسپا ہونا چاہئے۔


کچھ لوگوں کی یہ رائے تھی کہ یہ ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں اوران کو ایک دوسرے میں سمونے کی ایک شکل تو یہ ہو سکتی ہے کہ اردو ہندی میں ضم ہو جائے اور دوسری یہ کہ دونوں کو آزاد نشوونما کا موقع دیا جائے اور آسان سے آسان زبان لکھنے کی کوشش میں قریب لایا جائے تاکہ ایک ایسی زبان بن سکے جس میں دونوں کے بہترین عناصر شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ ایک سوال یہ بھی تھا کہ سارے ملک کی ایک راشٹر بھاشا یا قومی زبان ہونی چاہئے یا نہیں۔ اس پر بھی دو طرح کے خیالات ظاہر کئے گئے۔ ایک یہ کہ ایک سرکاری زبان کا ہونا ضروری ہے ورنہ مختلف صوبوں کے درمیان کوئی ربط قائم رکھنے کا ذریعہ نہیں رہ جائےگا۔ دوسرا یہ کہ سرکاری طور سے کسی ایک زبان کا مسلط کرنا ضروری نہیں ہے۔ حکومت ہر زبان کے برابر حقوق تسلیم کرے اور مختلف زبانوں اور صوبوں کے لوگ باہمی ربط قائم رکھنے اور تبادلہ خیال کے لئے ایک زبان (ہندی، ہندوستانی اردو) کو خود اپنا لیں گے۔


پہلی صورت جبریہ کی ہوگی جس سے باہمی منافرت اور دشمنی بڑھےگی اور دوسری صورت خود اختیاری، جس سے باہمی ربط ضبط، میل اور محبت میں اضافہ ہوگا۔ یہ بحث ترقی پسند حلقوں کے باہر بھی جاری تھی لیکن فرق یہ تھا کہ باہر اس بحث میں قومی عصبیت اور فرقہ پرستی کے جذبات کام کر رہے تھے لیکن ترقی پسند حلقوں میں ٹھنڈے دل سے بحث کی جا رہی تھی اور اسے عوامی نقطہ نظر سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

اس سلسلے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق سکریٹری سجاد ظہیر اور موجودہ سکریٹری ڈاکٹر رام بلاس شرما (ہندی کے مشہور نقاد اور شاعر) نے جو کچھ لکھا وہ سب سے زیادہ سلجھا ہوا اور سائنٹفک نظریہ ہے جس پر ہندی اور اردو کے ترقی پسند ادیبوں کی اکثریت متفق ہے۔ پھر بھی یہ مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا ہے اور انجمن نے اس کے بارے میں کوئی سرکاری پالیسی اختیار نہیں کی ہے۔ یہاں میں ان دونوں کی تحریروں کالب لباب پیش کرتا ہوں،


اردو اور ہندی دوالگ الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی زبان کے دوادبی روپ ہیں جسے عرف عام میں ہندوستانی کہا جاتا ہے اور جو اس علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جو انبالہ سے بہار تک اور دہلی سے ناگپور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ دونوں روپ شہروں میں رائج ہیں لیکن دیہاتوں میں بھی سمجھے جاتے ہیں، جہاں اردو اور ہندی زبان کی مختلف بولیاں مثلاً اودھی، برج بھاشا وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اردو اور ہندی کی نحوی ساخت ایک ہے۔ دونوں کی بنیاد کھڑی بولی ہے جو مدھیہ پردیش کی شورسینی اپ بھرنش سے نکلی ہے۔


رسم خط کے علاوہ ان دونوں کے ادبی روپ میں جو اختلاف ہے وہ جاگیرداری عہد کی یادگار ہے اور اس کے تاریخی اسباب ہیں۔ اس کے بعد انگریزی سامراج نے اپنی حکومت کی مصلحتوں کے لئے اس اختلاف کو اور بڑھایا اور انہیں خالص ہندو اور مسلم زبانوں کی شکل دینے کی کوشش کی۔ ملک کے ہندو اور مسلم بورژوا طبقوں نے سامراج کی اس میراث کو اپنے طورسے استعمال کیا اور ان کے عالموں نے نظریاتی بنیادیں گڑھ لیں۔


’’برطانوی سامراج نے خطاب یافتہ لوگوں کی ایک فوج تیار کری جو ہندی اور اردو ادب کے لیڈر بن گئے اور ان میں اپنے سامراج دوست اور عوام دشمن نقطہ نظر کو داخل کر دیا۔ برطانوی سامراج کے زیر سایہ نظام حیدرآباد مسلم کلچر اور اردو کے اور بیکانیر اور الور اور بھرت پور وغیرہ کے مہاراجے ہندو کلچر اور ہندی بلکہ سنسکرت کے سرپرست بن گئے۔ مہاراجا الور اور ڈاکٹر کیلاش ناتھ کاٹجو اس کے حامی ہیں کہ سنسکرت کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے۔‘‘


زبان کے سامراجی ماہرین میں سب سے بڑا اور اہم نام گریرسن کا ہے جس نے زبان کی بنیاد نسل اور مذہب پر قائم کرنے میں سامراجی مقاصد کی مدد کی ہے۔ اسے اور اس کے ماتحتین کو تین سال تک ہندوستان کے خزانے سے اس لئے روپیہ ملتا رہاکہ وہ ہندوستان کی زبانوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔ گریرسن جس نے زبانوں کا تجزیہ خالص سامراجی نقطہ نظر سے کیا اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کریہ کہا کہ مسلمان اردو لکھتے وقت الفاظ کی ترتیب فارسی طریقے پر رکھتے ہیں اور ہندو سنسکرت طریقے پر، اپنے بعد کے آنے والے سامراج دوست اور عوام شمن عالموں کے لئے ایک میراث چھوڑ گیا جس کا استعمال کرکے آج اردو اور ہندی کے اختلاف سے ہندو مسلم نفاق کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔


ہندو اور مسلم تفریق کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج نے ہندوستان کے علاقے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف صوبوں میں بانٹ دیا جس کا ایک حصہ مشرقی پنجاب میں ہے، ایک دہلی میں، ایک اترپردیش میں، ایک بہار میں اور ایک مدھیہ پردیش میں تاکہ ہندوستانی عوام تہذیبی طور پر متحد نہ ہو سکیں۔ اس طرح زبان اور تہذیب کی غیر مساوی ترقی اور اختلافات کو سامراجی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اور ہندی اور اردو کے ادبی اسٹائل کو ایک دوسرے سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔


چونکہ ہندی اور اردو دوا لگ الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی زبان کے دو ادبی رو پ ہیں جنہیں ایک ہی علاقے کے بسنے والے ہندو اور مسلمان دونوں استعمال کرتے ہیں، اس لئے ان دونوں کا الگ الگ رہنا نہ تو صحیح ہے اور نہ ممکن۔ وہ وقت ضرور آئےگا جب ہماری زبان کا ارتقا اس منزل پر پہنچ جائےگا جہاں ہندی اور اردو کے ادبی روپ مل کر ایک بہتر اور خوبصورت روپ اختیار کر لیں گے۔ اس کے لئے نہ محض کوشش اور جدوجہد کرنی پڑے گی بلکہ ان حالات کو بدلنا اور ان تضادوں کو دور کرنا پڑےگا جوان دونوں کی علیحدگی کے ذمہ دار ہیں اور دونوں کی ادبی اور تہذیبی روایتوں کے ان جمہوری عناصر کو ابھارنا پڑےگا جو دونوں کی علیحدگی کے باوجود دونوں میں مشترک ہیں۔


دونوں کو ملا کر ایک کر دینے کا یہ طریقہ غلط اور غیر جمہوری ہے جو مولانکر اور ان کی طرح کے لوگ پیش کرتے ہیں کہ اردو کو اقلیت کی زبان قرار دے کر بالکل ختم کر دیا جائے۔ وہ اسے ’’عقل کا تقاضا‘‘ سمجھتے ہیں کہ اتحادکے لئے اگر’’کسی گروپ کے کلچر اور زبان کو تباہ ہی کرنا پڑے تو وہ گروپ اکثریت کا نہیں بلکہ اقلیت کا ہونا چاہئے۔‘‘ (مولانا نکر، ٹائمس آف انڈیا، دہلی۔ رام بلاس شرما کا دیا ہواحوالہ۔) حقیقت یہ ہے کہ یہ عقل کا نہیں بلکہ رجعت پرستی اور زبردستی کا تقاضا ہے۔ دوسرا طریقہ جو بعض لبرل قسم کے لوگ پیش کرتے ہیں اور غیر عملی اور مکنیکل ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہندی اور اردو کوقریب لانے کے لئے دونوں کی ابتدائی بنیادی شکل کو استعمال کرنا چاہئے جسے ہندوستانی کہتے ہیں۔ یہ حل پیش کرنے والے یہ محسوس نہیں کرتے کہ اس قسم کی ابتدائی بنیادی ہندوستانی اعلیٰ تہذیبی اور تعلیمی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ دراصل وہ اس تضاد اور ان اسباب کو نہیں دیکھتے جو اردو اور ہندی کی علیحدگی کے ذمہ دار ہیں۔


اردو اور ہندی کے فرق کے سوال کو عوام کی سیاسی اور تہذیبی جدوجہد اور ترقی سے الگ کرکے کبھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک ہندوستان میں ہندو مسلم سوال کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں ناکامی ہوئی ہے، اسی طرح اردو ہندی کے سوال کو حل کرنے کی کوشش میں ناکامی ہو رہی ہے۔ ہندو مسلم سوال کو، جنتا کی جمہوری تحریک کو آگے بڑھا کر نہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح فرقہ وارانہ تناسب قائم کرکے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


زبان کے سلسلے میں بھی یہی صورت اختیاکی گئی ہے۔ عام بول چال کی زبان کو اعلیٰ تہذیب اور تعلیمی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لئے ترقی دینے کے بجائے سنسکرت، عربی اور فارسی الفاظ کے تناسب پر بحثیں کی گئی ہیں۔ دراصل ہندی اردو کے فرق کو دور کرنے کا مسئلہ جنتا کی جہالت دور کرنے اور تہذیب و ادب کو عوام تک پہنچانے کا بھی مسئلہ ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ماضی پرستی، احیائیت اور نسلی برتری کے قسم کے سامراجی نظریات اور رجحانات کا قلع قمع کرنے کا بھی مسئلہ ہے جو بعض دانشوروں کے ذریعے سے ادب میں آئے ہیں اور اردو ہندی کے فرق کی خلیج کو وسیع تر کر دیتے ہیں۔ اردو اور ہندی کوقریب لانے کے لئے اس خلیج کو پاٹنا ضروری ہے جو بول چال کی زبان اور ادبی زبان کے درمیان حائل ہے اور اس خلیج کو بھی کم کرنا ہے جو شہروں کی زبان اور دیہاتوں کی بولیوں سے بیچ میں حائل ہے۔


اس مقصد کے لئے جہاں ایک طرف یہ ضروری ہے کہ ادب اور تہذیب کو عام کرکے جنتا تک لے جایا جائے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ بول چال کی زبان کو ترقی دے کر اعلیٰ تہذیبی مقاصد کے لئے استعمال کے قابل بنایا جائے۔ یہ تہذیبی جدوجہد ہے جو عوام کی سیاسی جدوجہد سے وابستہ ہے اور اس حقیقت سے رو گردانی ممکن نہیں۔


’’قدیم مذہبی رسوم اور روایات کا اثر روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ پرانے تصورات اور روایتیں جو باقی رہ گئی ہیں ان کا مذہبی رنگ اڑ گیا ہے۔ مشترکہ زبان اور کلچر کی ترقی کے لئے زندگی کا مشترکہ ماحول نہایت ضروری ہے۔ اس لئے ایسے اثرات جو خالص ہندو یا خالص اسلامی (مذہبی نقطہ نظر سے) ہیں، وہ بتدریج ختم ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے ان تصورات کے پھیلانے والے طبقے مرتے جائیں گے، یہ تصورات بھی ختم ہوتے جائیں گے۔ ہمیں اپنے ملک کے ادیبوں اورخاص طور سے بڑے ترقی پسند ادیبوں کے یہاں ایک مشترکہ تہذیبی روایت ملتی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر رام بلاس شرما) اس مشترکہ تہذیبی روایت کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اورجب ادب عوام کی موجودہ زندگی اور جدوجہد کی ترجمانی کرےگا تو یہ مشترکہ تہذیبی روایت اور زیادہ ترقی کرےگی اور ہندی اور اردو کے موجودہ فرق کو مٹانے میں مفید ثابت ہوگی۔


سنسکرت یا فارسی اور عربی کی پابندی کا جہاں تک سوال ہے، یا دوسرے لفظوں میں اعلیٰ ادبی اور تہذیبی ضرورتوں کے لئے جہاں تک پرانی زبانوں سے الفاظ لینے کا سوال ہے، یہ صرف اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ بول چال کی زبان بننے اور اس کے ترقی کے اصول کو ہم اس کی اعلیٰ منزلوں میں بھی برتیں۔ کیا ہندی اور اردو کی بول چال کی زبان میں بھی سنسکرت یا عربی فارسی الفاظ کی پابندی کی جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ عمل سے ثابت ہے۔ بول چال کی زبا ن میں جب کسی کلاسیکی زبان کے لفظ لئے جاتے ہیں تو کیا اصول برتا جاتا ہے؟


(۱) لفظ لیتے وقت اس کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ جس طرح کلاسیکی زبانوں میں استعمال ہوتا تھا اسی طرح استعمال کیا جائے۔


(۲) صرف ایسے ہی لفظ لئے جاتے ہیں جو اس زبان کے لئے موزوں ہوتے ہیں اور جو سنسکرت اور فارسی سے مختلف زبان ہے یعنی پرانی زبانوں سے ہر لفظ نہیں لیا جا سکتا۔ صرف ایسا ہی لفظ لیا جا سکتا ہے جو اس بول چال کی زبان سے جو پرانی زبانوں سے مختلف ہے میل کھا سکے، اس میں کھپ سکے۔


(۳) جو لفظ لیے جاتے ہیں اکثر ان کا تلفظ بھی بدل جاتا ہے مثلا سنسکرت کا اگنی، آگ بن گیا اور فارسی کا مسوّدہ، مسودہ ہو گیا۔


(۴) اکثریہ بھی ہوتا ہے کہ جو لفظ لیا جاتا ہے، اس کے معنی بھی بدل جاتے ہیں اور بالکل نئے معنی ہو جاتے ہیں۔


(۵) اکثریہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ پرانی شکل میں باقی رہتا ہے۔ ساتھ ہی اسے ایک نئی شکل اور نئے معنی مل جاتے ہیں۔


(۶) دوسری زبانوں سے الفاظ لئے جاتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ بول چال کی زبان میں خود اپنے اندر الفاظ بنانے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ چیز خاص طور سے مزدوروں اور کسانوں میں ملتی ہے۔ وہ نئے سماجی حالات کے لحاظ سے زبان کو ترقی دینے میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر رام بلاس شرما)


اردو ہندی کے نئے الفاظ بنانے یا مستعار لینے میں ہمیں انہیں اصولوں کو برتنا پڑےگا۔ ان سے الگ ہٹ کر ہر کوشش مضحکہ خیز ہو جائےگی جس کا ثبوت ہندوستان میں وہ لوگ سب سے زیادہ دے رہے ہیں جوایک مصنوعی ہندی کو زبردستی رائج کرنا چاہتے ہیں (حیدرآباد دکن کے بعض اردو ترجمے اور ٹیکنیکل اصطلاحیں اتنی ہی مضحکہ خیز ہیں)


ماضی پرستوں کے ہاتھ میں جو ہندی میں سنسکرت اور اردو میں فارسی بھرنا چاہتے ہیں، اصطلاحوں کا مسئلہ آخری ہتھیار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ناول اور ڈرامے کے لئے تو خیر آپ بول چال کی زبان استعمال کر سکتے ہیں لیکن جب فلسفہ، ادب، سائنس اور ٹیکنیکل اصطلاحوں سے سابقہ پڑتا ہے تو پھر آپ کو الفاظ کے لئے کلاسیکی زبانوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کی عام بول چال کی زبان، مشترکہ زبان اور مشترکہ تہذیب کا وجود کہاں باقی رہتا ہے۔


سنسکرت کے حامی کہتے ہیں کہ سنسکرت کے الفاظ بھارت کی تمام زبانوں میں مشترک ہیں اور ذرا سی محنت سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں تمام زبانیں سنسکرت ہی سے لفظ کیوں نہ لیں۔ پہلی چیز تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ جن زبانوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سنسکرت سے نکلی ہیں اور اس کی بگڑی ہوئی شکل ہیں تو وہ گزشتہ پانچ سو سال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے غیر سنسکرتی عوامی روپ کی طرف ہٹتی رہی ہیں۔ ان زبانوں کے دھارے کو سنسکرت کی طرف لے جانے کے معنی یہ ہیں کہ ہم تاریخ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاریخ کا دھارا رک نہیں سکتا۔ وہ اپنے ساتھ نہ صرف اس دیوار کو بلکہ اس کے بنانے والوں کو بھی بہالے جائےگا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ سنسکرت کے لفظ جس طرح سنسکرت کے حامی استعمال کرتے ہیں، عوام میں اتنے مقبول نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔


جن زبانوں کا تعلق سنسکرت سے ہے ان کی بول چال کے روپ میں جو لفظ سنسکرت کے باقی رہتے ہیں وہ ان کی تد بھو شکل میں رہتے ہیں۔ یعنی خالص نہیں بلکہ بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ موجودہ دور کی بول چال کی عام زبانوں میں جن کا تعلق سنسکرت سے ہے۔ تتسم لفظ (سنسکرت لفظ خالص شکل میں) حیرتناک طور پر بہت کم تعداد میں ملتے ہیں۔ اس لئے ہندی کو مقبول بنانے کے لئے اس میں سنسکرت بھرنے کے مطالبے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی عوامی حیثیت کوسخت نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اس لئے ہندی کے تمام پریمیوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔


بالکل اسی طرح اردو میں فارسی لفظ بھرنا اردو کی عوامی حیثیت کو ختم کرنے کے برابر ہے۔ اس لئے اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ اردو یا ہندی کو کلاسیکی زبانوں سے الفاظ نہیں لینے چاہئیں اور نئے الفاظ نہیں گڑھنے چاہئیں۔ اگر سوچ سمجھ کر اور بول چال کی زبان کی بناوٹ کو سامنے رکھ کر یہ کیا جائے تو زبان کی عوامی بناوٹ بگاڑے بغیر ہم اس میں کافی اچھا اضافہ کر سکتے ہیں۔ دوسری زبانوں سے الفاظ لینے اور گڑھنے کے ساتھ ساتھ خود بول چال کی زبان سے الفاظ بنانے کے امکان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک ہندی اردو کے اوپر کے ڈھانچے کا تعلق ہے اس میں انگریزی الفاظ لینے پر کوئی پابندی نہیں لگانی چاہئے۔


بہت سارے لو گ جو ٹیکنیکل اصطلاحوں کی بڑی بڑی لغت (اور چھوٹی بھی) تیار کر رہے ہیں، ایسے الفاظ کے متعلق جو عام بول چال میں آ گئے ہیں، بڑی حقارت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو لفظ چالو ہیں وہ ٹیکنیکل نہیں بن سکتے۔ ہندوستانی دستور کے مسودے کا ترجمہ کرنے والوں نے بالکل یہی رویہ اختیار کیا ہے۔ جی ایس گپتا (بھارتیہ سام ودھان کا پراروپ، دہلی ۱۹۳۸) لکھتے ہیں کہ عام بول چال کی زبان میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں وہ بہت پھسپھسے ہیں اوران سے پور ے معنی نہیں نکلتے۔ ہر خاص مضمون کے اپنے خاص الفاظ ہوتے ہیں۔ اورعام زبان سے یہ کام ہرگز پورا نہیں ہو سکتا۔‘‘


بے چارے ناواقف ہندی پڑھنے والوں کے لئے ڈاکٹر رگھوبیر نے ایک خاص اصطلاح نامہ تیار کیا ہے، تاکہ وہ ایک دستور ی زبان سمجھ سکیں۔ اس اصطلاح نامے سے اس پر روشنی پڑتی ہے کہ عام لفظوں اور خاص لفظوں میں کیا رشتہ ہے۔


ان میں سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو غیر ٹیکنیکل قسم کی انگریزی نثرمیں نہ استعمال کیا جاتا ہو۔ یہ بہت اچھے اور سادے انگریزی لفظ ہیں جو نہ صرف عام استعمال میں آتے ہیں بلکہ ٹیکنیکل زبان میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں ذرا بھی پھسپھساپن نہیں ہے اور ایسے عام الفاظ ہر زبان میں ملتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لفظ ایسے ہیں کہ ہمارے دیش کے بے پڑھے لکھے لوگ بھی سمجھ لیتے ہیں، مثلا وارنٹ، سیٹ، ریلوے وغیرہ جن کے لئے ڈاکٹر رگھوبیر نے ادھی پترا، ادھشتان اور آیومارگ بنایا ہے 37،


انگریزی اصطلاحیں جن کا اوپر ذکر آ چکا ہے بہت سادہ ہیں اور باوجود ان کے عام استعمال کے انہیں ٹیکنیکل ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس لئے کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ یہی اصول ہندی کے لئے بھی کیوں نہ برتاجائے۔ ڈاکٹر رگھوبیر نے جو حقارت کا رویہ اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے انہوں نے ایسی مہمل اور ناکارہ اصطلاحیں گڑھی ہیں کہ سنسکرت کے بڑے بڑے حامی بھی حیران رہ گئے۔ راہل سنکرتاین تک نے ڈاکٹر رگھوبیر کی کوششوں پر تنقید کی اوران کے ترجموں کی جگہ اپنے ترجمے پیش کئے۔ اپنے ترجموں کی تمہید میں انہوں نے جو مطالبہ کیا ہے وہ ڈاکٹر رگھوبیر سے کچھ مختلف نہیں کہ سنسکرت چھاپ ہندی بھارت کی قومی زبان ہونی چاہئے۔


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت ساری اصطلاحیں دوسری زبانوں سے لے کرجذب کرنی پڑیں گی۔ پرانے کلاسیکی لفظوں سے گڑھنی ہوں گی۔ اگر لوگوں کی ضرورتوں اور آسانیوں کو سامنے رکھا جائے، جو ان اصطلاحوں کو استعمال کریں گے تو کام بہت آسان ہو جاتا ہے اور اطمینان بخش بھی۔ اگر اصطلاح اور الفاظ بنانے والوں نے یہ فرض کر لیا کہ لوگ پہلے ان کی ٹیکنیکل اصطلاحوں کی کتاب کھولیں گے اور پھر اصطلاح استعمال کرنا شروع کریں گے تو یہ بالکل الٹی گاڑی چلانی ہوئی۔ پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کس پیشے کے لئے نئے لفظ بنائے جا رہے ہیں، اس میں کون سے لفظ رائج ہیں اور انہیں کس طرح لیا جا سکتا ہے۔


دوسری بات یہ بھی مدنظر رہے کہ لفظ صرف سنسکرت، فارسی یا انگریزی سے نہیں لینے چاہئیں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ بول چال کے محاورے میں کون سے لفظ سب سے زیادہ کھپ سکتے ہیں۔ تیسری چیز یہ ہے کہ انگریزی لفظ جوعام طور سے یورپ کی زبانوں میں بھی رائج ہیں (یعنی جو خالص انگریزی نہیں بلکہ یونانی یا لاطینی ہیں) ان پر دروازے محض اس لئے نہیں بند کر دینا چاہئیں کہ وہ غیرملکی ہیں۔ ہر بار نئے لفظ گڑھنے کی کوشش کرنے کی بجائے انہیں لے لینا چاہئے اور جب کوئی عام ہندوستانی لفظ مل جائے تو پھر اسے لے لینا چاہئے۔ مشترکہ بول چال کی زبان کے اوپر کے ڈھانچے میں ٹیکنیکل الفاظ ایسا حصہ ہیں جو سب سے آخر میں مل کر ایک بنیں گے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آگے چل کر ہندی اور اردو کی ٹیکنیکل اصطلاحیں اسی طرح ایک ہو جائیں گی جس طرح بول چال کی زبان ایک ہوگی۔ صرف ایسی ٹیکنیکل اصطلاحیں باقی رہیں گی اور انہیں عوام قبول کریں گے جو خالص اور غیر خالص کی بنیاد پر نہیں بنیں گی بلکہ جو عام بول چال کی زبان کے ڈھانچے میں ٹھیک بیٹھیں گی۔ 38،


اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی علاقے میں ہندی اور اردو دنوں کی حفاظت کی جائے اور دونوں کو ترقی کرنے کا یکساں موقع دیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری ہندی اور اردو کے ترقی پسند ادیبوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی قوم کے ادب اور زبان کے ترجمان اور محافظ ہیں اور ہندی اور اردو دونوں کو قریب لانے میں سب سے بڑا حصہ وہ لیں گے۔


میرا ذاتی خیال ہے کہ ان دونوں کے الگ الگ نام بھی باقی نہیں رہیں گے۔ اس لئے کہ یہ جس علاقے کی زبان کے دو روپ ہیں اس کا نام ہندوستان ہوگا اور اس میں بسنے والی قوم ہندوستانی ہوگی جس کی زبان کا نام بھی ہندوستانی ہی ہوگا۔ ترقی پسند حلقوں میں یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جائےگا۔ رجعت پرست حلقے ان کی آواز کو سیاسی آواز کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں ان کی رائے اور کوششوں کی بڑی اہمیت ہے اور اس مسئلے کو سیاسی مسائل سے الگ کرکے حل کرنا ناممکن ہے۔


۱۹۴۷ء تک کچھ اور نئے لکھنے والے ترقی پسند تحریک میں شامل ہو گئے۔ کچھ اس کے بعد آئے۔ نئے لکھنے والوں کے نام زیادہ مشہور نہیں ہیں، مثلاً ظہیر بابر، شکیل الرحمن، حامد عزیز مدنی، عبدالمتین عارف، منیب الرحمن، فارغ بخاری، شوکت صدیقی، انور عظیم، احمد ریاض، سلیمان اریب، عزیز قیسی، ساغر صدیقی، ممتاز عباسی، معصوم رضا راہی، رضیہ سجاد ظہیر، مظفر شاہجہان پوری وغیرہ۔ ان نئے لکھنے والوں کی تنقید، افسانہ نگاری اور شاعری میں بڑی جان ہے 39،


ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نو عمر اور نومشق ادیب ہیں جو ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھ رہے ہیں۔ رسائل کی کمی کے باعث ان کی چیزیں منظر عام پر نہیں آ رہی ہیں۔ اس زمانے میں عام طور سے ترقی پسند ادیبوں کی تحریروں میں پختگی اور گہرائی پیدا ہوئی ہے اور آ ل احمد سرور ہماری صفوں میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ کبھی ترقی پسند مصنفین کے مخالفین میں نہیں تھے لیکن اس سے پہلے انہوں نے اپنا رشتہ بھی اس تحریک سے نہیں جوڑا تھا۔ ان کے زاویہ نگاہ میں ایک واضح تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ موجودہ سماجی اور سیاسی حالات کے زیر اثر جگر مرادآبادی ایسی غزلیں کہنے لگے ہیں جن میں سماجی شعور زیادہ ہے۔


اسی دوران میں جہاں ترقی پسند تحریک نے ترقی کی، وہاں اس کی ایک کمزوری بھی بڑی شدت کے ساتھ ابھری۔ ۴۹۔ ۱۹۴۸ء تک تحریک میں ایک طرح کی انتہا پسندی اور تنگ نظری آ گئی۔ یہ ابتدا سے ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی لیکن اس نے اتنی شدت اس سے پہلے کبھی اختیار نہیں کی تھی۔ ہر اس تحریک یا فلسفہ میں تنگ نظری اور انتہا پسندی پیدا ہو جانے کا امکان رہتا ہے جسے مشکل حالات میں جدوجہد کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے (اس سے حالی اور سرسید کی تحریک بھی پاک نہیں تھی۔) ایک ایک قدم پر صحیح اور غلط نظریات کا جائزہ لینے کی ضرورت پیش آتی ہے اورذرا سی لغزش تنگ نظری اور انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔


مثال کے طور پر ترقی پسند تحریک کو ابتدا میں ایسے ماضی پرستوں کا مقابلہ کرنا پڑا جو ماضی کی تمام سڑی روایات کو گلے سے لگائے ہوئے تھے اور کھوکھلے قسم کی ہیئت پرستی میں مبتلا تھے، جس کا اظہار وہ لغو مضامین یا غزل کی صنف میں کرتے تھے۔ اس کے ردعمل نے ماضی کی غیر جمہوری اور بیمار روایات ہی سے نہیں بلکہ بعض اوقات بعض صحت مند روایات سے بھی بغاوت کااعلان کر دیا اور اسے انقلاب اور ترقی کا نام دے دیا۔ مثلاً اختر رائے پوری اور احمدعلی نے ٹیگور، اقبال کے تقریباً تمام کارناموں کو مسترد کر دیا۔ حالانکہ اختر رائے پوری ان ادیبوں میں ہیں جنہوں نے اردو تنقید کو عملی اور سائنٹیفک بنیادیں عطا کرنے میں پہل کی ہے۔ لطف یہ ہے کہ مجنوں گورکھپوری بھی جنہوں نے ترقی پسندوں کو اس غلطی سے بچانے کی کوشش کی، خود اس غلطی سے نہ بچ سکے۔


ایک طرف تو انہوں نے یہ لکھا کہ ’’دوسری بات جو بعض غلط اندیش ترقی پسندوں میں ہم کو ملتی ہے، یہ ہے کہ وہ ترقی کا غلط تصور رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی یک قلم حرف غلط ہے اور اسلاف کے اکتسابات ہمارے کسی کام کے نہیں۔ یہ دھوکہ ہے، روایات یعنی ماضی کے اکتسابات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم کو انہیں کو لے کر آگے بڑھنا ہے ورنہ تاریخی تسلسل باقی نہیں رہ جائےگا۔‘‘ لیکن دوسری طرف انہوں نے ٹیگور اور طالسطائی کو فراری ادیب قرار دے دیا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ ’’روح عصر‘‘ نظیر اکبرآبادی کے سوا کسی قدیم اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ’’ادب اور زندگی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ۱۹۴۰ء میں ’’نیا ادب‘‘ نے مجنوں کو ان کی اس غلطی سے آگاہ کیا حالانکہ خود ’’نیا ادب‘‘ کے صفحات پر دوسری روایات کے سلسلے میں اس قسم کی غلطیاں ہوئی ہیں۔


ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے اور ترقی پسند ادیبوں نے ماضی کے تمام کارناموں اور روایات سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ البتہ ان کے سمجھنے میں ان سے دو قسم کی غلطیاں ہوئی ہیں۔ کبھی انہوں نے اپنے جوش میں بعض صحت مند روایات سے انکار کیا اور کبھی اپنی وسیع النظری کے نا م پر غیر جمہوری اور بیمار روایات کو بھی اپنا لیا۔ ترقی پسند ادیبو ں کی پندرہ برس کی تحریروں اور ترقی پسند رسائل کے صفحات سے اس کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ ترقی پسند ادیب کے معترضین اس کا ذکر تو ہمیشہ کرتے ہیں کہ ترقی پسند ادیبوں نے ماضی کی اچھی روایات کو ٹھکرایا لیکن اس کا ذکر کبھی نہیں کرتے کہ بری روایات کو انہوں نے اپنایا بھی ہے اور یہ بھی اتنی ہی بڑی غلطی ہے جتنی پہلی۔


اس قسم کی غلطی غزل کے سلسلے میں بھی ہوئی۔ بعض ترقی پسندوں نے غزل کے غیر جمہوری، تاریک اندیش، فراری، کھوکھلے اور صوفیانہ مضامین کی مخالفت کے بجائے غزل کی صنف ہی کو غیر جمہوری اور بیکار قرار دے دیا۔ اس رجحان کی امامت شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے کی جو خود حالی کی طرح اچھی غزل لکھ چکے تھے اور غزل کی بہترین روایات کو اپنی شاعری میں سمو چکے تھے۔ حضرت جگر مرادآبادی نے جب ۱۹۳۹ء یا ۱۹۴۰ء میں اپنی ایک غزل میں ترقی پسندوں کے خلوص اور نیت پر حملہ کیا اور انہیں ’’قوم و وطن کا بت پرست‘‘ قرار دیا اور اس کے بعد مرزا یگانہ چنگیزی نے غزل کے سوا کسی اور صنف کو شاعری ماننے ہی سے انکار کر دیا اور ترقی پسند ادیبوں اور ادب کے لئے انتہائی غیر ادبی زبان استعمال کی توغزل کی مخالفت کے رجحان نے اور زور پکڑ لیا۔


لیکن اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جس طرح ماضی کی روایات کے سلسلے میں ترقی پسندوں نے مجموعی طور سے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا تھا، اسی طرح غزل کی مخالفت بھی ترقی پسند تحریک کا پروگرام نہیں بنی۔ غزل موضوع بحث رہی اور نیا ادب اور دوسرے ترقی پسند رسائل کے صفحات پر غزل کی مخالفت اور موافقت میں مضامین شائع ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل پر بحث بھی ہو رہی تھی اور ترقی پسند غزل کہی بھی جارہی تھی اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانے میں بہترین غزلیں صرف جگر اور حسرت نے نہیں بلکہ ترقی پسند شاعروں نے بھی کہی ہیں جن میں فراق گورکھپوری، مجاز، فیض، جذبی، مجروح بہت سے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ اس کا ذکر آئندہ باب میں آئےگا کہ ترقی پسند شاعروں نے غزل میں کیا تبدیلی کی ہے اور اسے کس سمت میں ترقی دی ہے۔


یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ غزل کی مخالفت سب سے پہلے حالی نے شروع کی تھی۔ قطع نظر اس سے کہ حالی کا نظریہ کہاں تک صحیح یا غلط تھا، ترقی پسند ادب کے معترضین حالی کے لئے تاویلیں تلاش کر لیتے ہیں اور ترقی پسند ادیبوں پر مہمل الزامات لگاتے ہیں مثلاً ڈاکٹر یوسف حسین خاں صاحب نے اپنی کتاب ’’اردو غزل‘‘ کے دیباچے میں حالی کے لئے یہ لکھا ہے کہ،


’’مولانا حالی اردو زبان و ادب کی اور عام طور سے مسلمانوں کی قومی زندگی کی اصلاح چاہتے تھے۔ اصلاحی جوش میں انہوں نے غزل کے نقائص چن چن کر دکھلائے اور قومی اخلا ق کو سدھارنے کے لئے سادہ اور عام فہم نظمیں لکھیں اور دوسروں کو لکھنے کی دعوت دی۔ پھر ان کے پیش نظر غزلوں میں بھی خاص طور پر وہ تھیں جن سے فحش اور رکاکت کی ترویج کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے غزل کے جو نقائص بتائے ہیں، ان میں سے بعض کو غزل کے حامی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ زمانہ ہماری اجتماعی اور جذباتی زندگی کی انتہائی بے مقصدی اور انتشار کازمانہ تھا، جس سے سیاست اور معیشت کی طرح ادب بھی متاثر ہوا۔ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے کدھر جانا ہے اور کس کے ساتھ جانا ہے۔ اس آڑے وقت میں ہماری خوش قسمتی تھی کہ سرسید اور مولانا حالی جیسے رہبر ملے۔ ان کے دلوں میں درد اور نیتوں میں خلوص تھا۔ مولانا حالی نے ادبی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ یہ ان کا انتہائی ایثار تھا کہ باوجود اعلیٰ درجے کے تغزل کی صلاحیت کے انہوں نے نظم کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔‘‘ (صفحہ ۸۔ ۹ اور ۱۰)


اور ترقی پسند شاعروں کے لئے یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ہمارے زمانے کے ترقی پسند نوجوانوں کو غزل کے مقابلے میں نظم اس لئے بھی پسند ہے کہ اس کا لکھنا نسبتاً آسان ہے۔ غزل جتنی ریاضت چاہتی ہے وہ ان کے بس کی بات نہیں، دوسرے یہ کہ اس طبقے میں غزل کی پابندیاں اور آداب مقبول نہیں کیونکہ انہیں برتنے کا ان لوگوں کو جیسا چاہئے ویسا سلیقہ اور ذوق نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنے ادب اور اپنی ذہنی روایات سے ناواقف ہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۱)


یہ عبارت صرف مصنف کی جانبدای اور تعصب کو ظاہر کرتی ہے ورنہ کون ہے جو یہ کہنے کی ہمت کرےگا کہ سجاد ظہیر، ڈاکٹر علیم، احتشام حسین، فیض، مجاز، جذبی، مخدوم، کیفی، مجروح، احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی، جاں نثار اختر، ممتاز حسین، کرشن چندر وغیرہ اردو ادب کی روایات سے ناواقف ہیں۔ یوسف حسین صاحب کے بیان پر میں اس کے سوا اور کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا کہ،


پاؤں ہم توڑیں تو کم ہمت ہیں
شیخ بیٹھیں تو تو کل ٹھہرے


ہم جو چپ بیٹھیں تو کہلائیں سڑی
آپ چپ ہوں تو تغافل ٹھہرے


تم جسے چاہو چڑھالو سر پر
ورنہ یوں دوش پہ کاکل ٹھہرے


اور آج بھی غزل کی مخالفت میں بعض ترقی پسند حضرات شامل ہیں جن میں ترقی پسند ادب کے ایک بہت بڑے مخالف کلیم الدین احمد صاحب پیش پیش ہیں جنہوں نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہہ کر مردود قرار دیا، اس لئے اس کا سارا الزام صرف ترقی پسندوں کے سر تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ غزل میں ایسے عناصر موجود تھے اور اب بھی ہیں جن کی شدت سے مخالفت کی ضرورت تھی او رہے۔ اس مخالفت میں اگر بعض اوقات توازن باقی نہیں رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی پسند ادیب جاہل مطلق ہیں۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ جس بنیاد پر ترقی پسند ادیبوں نے غزل کی مخالفت کی تھی وہ وہی ہے جسے ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب نے اپنی کتاب میں غزل کا طرہ امتیاز قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں،


’’غزل کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حد درجے کی دروں بینی پائی جاتی ہے۔ غزل گو شاعر جو کچھ کہتاہے اپنے آپ میں ڈوب کر کہتا ہے۔ اس کا حیات وکائنات کا نقطہ نظر خالص موضوعی اور داخلی ہوتا ہے۔ وہ اپنے دل کی دنیا کی سیر میں ایسا منہمک ہوتا ہے کہ اسے اوپر نظر اٹھانے اور خارجی عالم کا مشاہدہ کرنے کی فرصت اور ضرورت نہیں ہوتی، وہ اپنی ذات میں سب کچھ پا لیتا ہے۔ اس کا تخیل اپنی گل کاریوں سے اس کے دل کوایسے ایسے حسین پیکروں سے آباد کر دیتا ہے کہ پھر اس کو ادھر ادھر جھانکنے تاکنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی 40،


اگر کبھی وہ خارجی عالم کو دیکھتا ہے تو اس طرح نہیں دیکھتا جیسے دوسرے دیکھتے ہیں بلکہ اپنے مخصوص نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ اس کے وجود کا ثبوت انسانی شعور میں تلاش کرتا ہے اور اپنی ذات کواس کے علم کا ماخذ اور منتہا تصور کرتا ہے۔ غزل گو شاعر کے نزدیک تخیل ہی اصل حقیقت ہے جس کی مدد سے اس کے دل کی دنیا میں ہمیشہ رونق اور چہل پہل رہتی ہے۔ اس کی دورون بینی کا یہ اقتضا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل سے آپ گفتگو کرے اور جو تاثرات مختلف اوقات میں اس کے دل پر گزریں انہیں شعر و نغمہ کا رنگین لباس پہنا دے۔ وہ اپنے آپ میں ایسا ڈوبا رہتا ہے کہ اس کو یہ بھی پرو انہیں رہتی کہ دوسرے اس کے مافی الضمیر کو سمجھتے ہیں یا نہیں۔ وہ جو کچھ کہتا ہے دوسروں کے لئے نہیں کہتا بلکہ اپنے من کی موج کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔‘‘


اسے مختصر لفظوں میں داخلیت وعینیت پرستی کہتے ہیں جو ادب برائے ادب اور ہیئت پرستی کا فلسفہ ہے۔ یہ رجحان سب سے زیادہ شدت کے ساتھ غزل میں ابھر کر آتا ہے اور روایت کے نام پر اپنا جواز تلاش کرتا ہے، اس لئے کہ غزل کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے اس فلسفے کی مخالفت ضروری ہے۔


۴۹۔ ۱۹۴۸ء کی تنگ نظری اور انتہاپسندی بھی کچھ ایسی نوعیت کی تھی، اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ تحریک کے ابتدائی زمانے میں جب ایک طرح کا رومانی ابال تھا، اس میں مختلف قسم کے رجحانات اور نظریات شامل ہو گئے، جن میں سے بعض قطعا ًرجعت پرست اور غیر صحت مند تھے، لیکن دس بارہ برس کے دوران میں سماجی حالات کی پیچیدگی، عوامی تحریکوں کی وسعت اور انقلابی ابال کے ساتھ ساتھ رومانیت کی جگہ حقیقت نگاری آنے لگی تھی اور اس کا تقاضا یہ تھا کہ تحریک میں نظریاتی صفائی پیدا ہو اور غیر ترقی پسند رجحانات اس سے خارج کئے جائیں۔


۱۹۴۷ء میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے حالات کچھ ایسے بگڑے کہ بعض ترقی پسند ادیب بھی اپنی ترقی پسندی کی راہ سے ہٹ گئے، مثلا ً ابراہیم جلیس اور حیدرآباد کے کئی اور ادیب اور شاعر، رضاکار سیاست کا شکار ہوکر فرقہ پرستی پر آمادہ ہو گئے۔ کچھ تو ایسے بھی تھے جنہوں نے شریفوں کے کپڑے اتار کر وردیاں پہن لیں۔ انہوں نے اپنے دستخطوں سے ایک بیان شائع کیا جس میں نظام حیدرآباد کی حکومت کے ساتھ اظہار وفاداری کیا گیا تھا۔ لاہور میں بھی ڈاکٹر تاثیر کی رہنمائی میں کئی ادیب اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ ممتاز شیریں اور صمد شاہین جو پہلے سے انحطاط کے گڑھوں میں گر رہے تھے اور جن کی مخلوط ترقی پسندی پر سجاد ظہیر نے بہت پہلے اعتراض کیا تھا ایک دم سے مسلمان ہو گئے۔


ایک طرف یہ ہوا اور دوسری طرف ترقی پسند تحریک اور ادیبوں پرنئی نئی سمتوں سے حملے شروع ہوئے، اس وقت اس کی ضرورت پیش آئی کہ ترقی پسند اقدار کا جائزہ لے کر کھوٹے اور کھرے میں تمیز کی جائے۔ تحریک کے عوامی کردار کو تقویت پہنچائی جائے اور غیر جمہوری رجحانات، اقدار اور طرزفکر کو شکست دی جائے۔ یہ کام بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی کا تھا جس میں علمی اور ادبی گہرائی کے ساتھ ساتھ زندگی، سماج، طبقاتی کشمکش اور سیاست کی پوری سمجھ بوجھ کی بھی ضرورت تھی جس سے ایک قسم کا جذباتی ٹھہراؤ پیدا ہوتا۔ اس منزل پر پہنچ کر بعض ترقی پسندوں کی تنقید نے احتساب کی صورت اختیار کر لی۔ رجحانات کا جائزہ لینے اور تنقید کے ذریعے سے نظریاتی صفائی پیدا کرنے اور اس طرح ترقی پسند ادب کو فروغ دینے کے بجائے انہوں نے یہ رویہ اختیار کیاکہ جو ادیب سو فیصد ترقی پسندنہیں ہیں، ان کے لئے تحریک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔


بعض ادبی رسائل کی موقع پرستی اور رجعت پرستی پر تنقید کرنے کے بجائے انہوں نے ان کا بائیکاٹ شروع کردیا۔ اس غلطی سے ترقی پسند تحریک اور انجمن کوبہت نقصان پہنچا اور بہت سے ادیب اس سے کٹ کر الگ ہو گئے۔ لیکن الگ ہونے والوں میں تمام ادیب ایسے نہیں تھے جن پر تحریک نے اپنے دروازے بند کئے ہوں۔ کچھ ایسے بھی تھے جو یہ غلطی نہ ہوتی تب بھی اس منزل پر آ کر جہاں تحریک کا عوامی کردار ابھرنے لگتا، دوسرا راستہ اختیار کر لیتے۔ کچھ حکومت کے احتساب کے ڈر سے گوشہ نشین ہو گئے اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو فروخت کر دیا اور رجعت پرست سیاست کو فروغ دینے کے لئے نئی قسم کی ترقی پسندی کا مطالبہ کرنے لگے مگر آڑ ہمیشہ انتہا پسندی کی لیتے رہے۔


جب سے ترقی پسند مصنفین نے اپنی اس غلطی کو پہچان کر اس کا اعتراف کیا اور اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی تب سے تحریک کے مخالفین بغلیں بجانے لگے ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو پسپا محسوس کرتے تھے دوبارہ اپنے ٹوٹے پھوٹے ہتھیار لے کر میدان میں اتر رہے ہیں۔ اب وہ ان ہتھیاروں کو نئی طرح استعمال کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا موقع آ گیا ہے حالانکہ اس بار بھی انہیں ناکامی ہوگی۔


اب وہ یہ تو نہیں کہتے کہ یہ تحریک چند شوریدہ سر اشتہار بازوں کا ہتھکنڈا ہے جنہیں ادب سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ان میں اتنی صلاحیت ہے کہ اچھے ادب کی تخلیق کر سکیں۔ اب انہوں نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ پچھلے چار پانچ سال میں اچھے ادب کی تخلیق ہی نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں جو کچھ لکھا گیا سب ہنگامہ بازی تھا۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہنے کے بجائے کہ کوئی اچھی چیز نہیں لکھی گئی، اس ادب کو تنگ نظر اور انتہا پسند کہہ کر خارج کر دیتے ہیں جس میں طبقاتی کشمکش اور عوامی جدوجہد کا موضوع اختیار کیا گیا ہے۔


یہ بات کچھ ایسی معصومیت اور ایسے ہمدردانہ انداز سے کہی جاتی ہے کہ بعض ترقی پسند ادیب بھی اس کا یقین کر لیتے ہیں اور ترقی پسند تحریک کے سارے کارناموں سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کے غلط اعتراضات کرتے ہیں کہ اس دوران میں جو ادب پیدا ہوا ہے، اسے مشکل ہی سے ادب کہا جا سکتا ہے یا اس زمانے کی انقلابی شاعری سپاٹ ہے اور محض تقریر اور نعرے بازی ہے۔ حالانکہ اس دوران میں کرشن چندر نے حقیقت نگاری کی طرف بڑا بے باک قدم اٹھایا ہے اور اپنی تقریبا ًتما م شاہکار کہانیاں اسی دوران میں لکھی ہیں جن میں ’’پشاور ایکسپریس‘‘، ’’کالو بھنگی‘‘، ’’مہالکشمی کا پل‘‘، ’’تین غنڈے‘‘، ’’پورے چاندکی رات‘‘، ’’کہانی کی کہانی‘‘، ’’برہم پترا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔


اسی دوران میں عصمت چغتائی کے نقطہ نگاہ میں تبدیلی پیدا ہوئی اور ان کی تحریروں میں سماجی شعور جلوہ گر ہوا۔ احمد ندیم قاسمی کی شاعری پر نئی آب و تاب آئی۔ فیض کی شاعری نئی دھار لے کر برسوں کے جمود کے بعد پیدا ہوئی۔ مجروح کی شاعری پر نکھار آیا۔ ساحر کی شاعری نے نئی کروٹ لی اور کیفی کی شاعری میں نئی گہرائی اور بلندی آئی۔ احتشام حسین کی تنقیدوں میں بصیرت اور پختگی بڑھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسی دوران میں جگر مرادآبادی کا سماجی شعور بیدار ہوا اور جذبی کی شاعری گھٹن، قنوطیت اور بے بسی کی فضا سے نکل کر کھلی ہوا میں سانس لینے لگی۔ جہاں اس کے ساز سے ایسے بے پناہ نغمے پھوٹ نکلے جیسے،


شریک محفل دار و رسن کچھ اور بھی ہیں
ستم گرو ابھی اہل کفن کچھ اور بھی ہیں


جب ہم اس زمانے کے ترقی پسند ادب کا مقابلہ غیر ترقی پسند اور رجعت پرست ادب کے انحطاط سے کرتے ہیں تو اصل حقیقت کھلتی ہے۔ مثلا ًمنٹو کی افسانہ نگاری اور ن م راشد کی شاعری کا انحطاط۔ اس انحطاط کے سامنے صرف ترقی پسند ادب نے اردو ادب کی آبرو رکھی ہے۔


تنگ نظری اور انتہا پسندی سے ترقی پسند ادب کو نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن اس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ ہر بات غلط تھی اور سارا ترقی پسند ادب مردود تھا۔ یہ صرف ہمارے دشمنوں کا پروپیگنڈا ہے، جس کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ چونکہ ہربات غلط نہیں تھی اس لئے اس دور میں نقصان کے ساتھ ساتھ کچھ فائدہ بھی ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ نئے ادب اور ترقی پسند ادب کا خلط مبحث باقی نہیں رہ گیا ہے۔ رجعت پرست اور غیر صحت مندرجحانات جن کی آمیزش ہو گئی تھی، ترقی پسند ادب سے الگ ہو گئے ہیں۔ مجموعی حیثیت سے طبقاتی شعور میں اضافہ ہوا ہے اور زندگی کے مسائل سے دست وگریباں ہونے کی ہمت بڑھی ہے۔ اگر ہم نے تنگ نظری اور انتہا پسندی سے کام نہ لیا ہوتا تو یہ فوائد زیادہ وسیع ادبی حلقوں میں محسوس کئے جاتے۔ تنگ نظری نے ترقی پسند ادب اور اس کی اثر انگیزی کے دائرے کو محدود کر دیا۔


ردعمل نے ایک دوسری صورت یہ اختیار کی ہے کہ چپکے چپکے ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادب کا امتیاز اٹھا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کوشش اس صورت میں بار آور ہو رہی ہے کہ آج بعض ترقی پسند رسائل کا وسیع النظری اور متحدہ محاذ کے نام پر کوئی کردار ہی باقی نہیں رہ گیا ہے۔ یہ انتہائی مہلک اور خطرناک رجحان ہے اور اگر اس کو شعوری طور سے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ترقی پسند ادب اور تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچےگا۔ ادیبوں اور رسائل کا بائیکاٹ نہ کرنا ایک بات ہے اور ترقی پسند اور رجعت پسند چیزوں کو خلط ملط کر دینا دوسری بات ہے۔ ہر رسالے کا ایک اپنا کردار ہوتا ہے جس کے مطابق وہ مضامین کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کردار اور پالیسی سے الگ کوئی چیز شائع کرتا ہے تو کسی تنقیدی نوٹ کے ساتھ مباحثے کے لئے۔


اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ترقی پسند تحریک کا ایک بنیادی عوامی کردار ہے اور ہماری ساری جدوجہد یہ ہے کہ ہمارا ادب عوامی ادب بنے۔ اس جدوجہد کی کئی سطحیں ہیں۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ ہم ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسرنو جائزہ لیں اوران میں ان قدروں اور روایتوں کو اپنائیں جو صحت مند ہیں اورآج کی جدوجہد اور زندگی کی تعمیر میں کام آ سکتی ہیں اور ان قدروں اور روایتوں کو ترک کریں جو بیمار اور فرسودہ ہیں اورادب اور سماج کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔


دوسری سطح یہ ہے کہ ہم آج کی قدروں کو زندگی اور عمل کی کسوٹی پر پرکھیں اور ادب اور تہذیب کو زیادہ سے زیادہ وسیع حلقوں تک لے جانے اور عوامی شعور اور جذبات کی تنظیم کی کوشش میں ان کو استعمال کریں۔ اس طرح جدید ہوتے ہوئے بھی بہت سی قدریں مفید ثابت ہوں گی اور بہت سی بیکار۔ تیسری سطح اصل ادبی تخلیق ہے جس میں ایک واضح مقصد اور صحیح موضوع کے ساتھ ساتھ اتنی فنی خوبی اور ہیئتی حسن ہونا چاہئے کہ وہ دلوں میں اتر سکے اور جذبات کو متحرک کر سکے۔ ان تینوں سطحوں پر ترقی پسندی اور غیر ترقی پسندی کا ٹکراؤ ہوگا او ر اس کشمکش میں ہم اپنی تحریک اور ادب کے بہت سے مسائل کو حل کریں گے۔


اس جدوجہد میں تنقید ایک بہت بڑا حربہ ہوگا جسے قدم قدم پر رہنمائی کا فرض ادا کرنا پڑےگا۔ ہم کسی ادیب کو صرف اس لئے رجعت پرست نہیں کہہ دیں گے کہ اس کے یہاں کچھ رجعت پرست اقدار ہیں بلکہ ہم اس کے مجموعی رجحان کو دیکھ کر اس پر رائے قائم کریں گے، اس لئے تنقید کے حربے کو ترک کر دینا اور اتحاد اور وسیع محاذ کے نام پر رجعت پسندی کو بھی ہضم کر لینا کسی طرح ترقی پسند ادب اور تحریک کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ پرانی غلطیوں کو درست کرنے کے بہانے یا نئی غلطیوں کے خوف سے ترقی پسندی کے مسلک ہی کو ترک کر دینا ترقی پسندی نہیں ہے اور نہ کسی ترقی پسند ادیب کے لئے یہ رویہ صحیح ہو سکتا ہے کہ میں ترقی پسند رہوں گا۔ غیر ترقی پسند اور رجعت پرستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔


چونکہ ترقی پسند ادب ایک تحریک ہے اس لئے اس میں وہ ادیب بھی ہوں گے جو سو فیصدی ترقی پسند ہیں اور وہ بھی جو غیر عوامی فلسفوں اور غیرجمہوری قدروں سے متاثر ہوتے رہے ہیں اورجن کی ترقی پسندی میں بعض غیر ترقی پسند رجحانات کی بھی آمیزش ہے۔ ان رجحانات کو دور کرنے کے لئے ہمیں برادرانہ اور پرخلوص تنقید سے کام لینا پڑےگا لیکن اتحاد کے نام پر ہم ان رجحانات کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور نہ ان ادیبوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں جو بنیادی طور سے رجعت پرست ہیں۔


یہ ہیں ترقی پسند ادبی تحریک کے اتار چڑھاؤ۔ راستے میں بہت سی کٹھن منزلیں آئی ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے یہ تحریک آگے ہی بڑھتی گئی ہے اور آج جب ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ سولہ برس کی مختصر مدت میں اس تحریک نے بہت بڑا کام کیا ہے اور اردو ادب کے دھارے کا رخ موڑ دیا ہے۔ یہ تبدیلی تاریخی تقاضوں کے مطابق ہے اور اب اردو ادب کامستقبل اسی سے وابستہ ہے۔


ترقی پسند مصنفین کا آندولن جو ہندوستان میں ۱۹۳۵ء میں شروع ہوا، دراصل ادب کے میدان میں اس رجحان کا منظم اظہار تھا جو سامراج اور جاگیرداری کی مخالفت سے پیدا ہوا تھا۔ یہ سیاسی میدان اور قومی تحریک میں اپنے لئے پوری جگہ بنا چکا تھا۔ یہ دانشوروں کے اس حلقے کی خواہشات اور جذبات کی تنظیم تھی جو مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں سے متاثر تھے۔ تحریکیں جنہوں نے قومی تحریک آزادی میں گہرائی اور وسعت پیدا کر دی تھی اور جو اب ملک کی سیاست میں ایک آزاد قوت بن کر ابھر رہی تھیں۔ اس اعتبار سے ترقی پسند تحریک نے اقبال، پریم چند اور جوش کے ورثے کی نگہداشت ہی نہیں کی بلکہ اسے آگے بڑھایا اور ادب کا رشتہ عوام کے ساتھ جوڑ دیا۔


چونکہ یہ دانشور باشعور تھے، اپنے سامنے ایک واضح مقصد رکھتے تھے اور اپنے دشمن کو پہچانتے تھے، اس لئے انہوں نے سامراج کے بین الاقوامی روپ کو دیکھ لیا اور ہر اس آواز کی ہمنوائی کی جو دنیا کے کسی گوشے میں سامراج کے خلاف بلند ہوئی تھی، چاہے وہ اسپین کے شہید ادیب ہوں جنہوں نے فاشزم کی دست درازیوں سے اپنے ملک کو اور بین الاقوامی امن اور آزادی کو بچانے کے لئے اپنا خون بہایا اور چاہے وہ سنبھلتے ہوئے ’’گراں خواب چینی‘‘ ہوں جنہیں اقبال نے ہمالہ کے ابلتے ہوئے چشموں سے تشبیہ دی تھی۔ سب کے ساتھ ترقی پسندادیبوں نے اپنا رشتہ جوڑا جسے میں نے حرف اول میں تحریک کا بین الاقوامی رشتہ کہا ہے۔ اس لئے یہ دانشور فطری طور سے سوویت یونین سے بہت متاثر تھے، جس نے دنیا کے ایک چھٹے حصے میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور سامراج کا خاتمہ کرکے اشتراکیت کی تعمیر کر لی تھی اور اپنے ادب، آرٹ اور تہذیب کو بے انتہا ترقی دی تھی۔ ان دانشوروں کے جذبات کا اندازہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے جوموصوف نے لکھنؤ کانگریس (۱۹۳۶) کے اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت میں استعمال کئے تھے۔


’’آج مستقبل بڑی حد تک سوویت روس کے وجود اور ان کارناموں کی وجہ سے امید افزا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر کسی عالمگیر آفت کا سامنا ہوا تو یہ نیا تمدن دوسرے ملکوں میں بھی پھیلےگا اور کشمکش اور جنگوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دےگا جنہیں سرمایہ داری پروان چڑھاتی ہے۔‘‘ 41،


ٹیگور نے اپنے روسی خطوط میں اس سے بھی بڑا خراج تحسین پیش کیا تھا۔ گاندھی جی نے بھی ان کارناموں کو سراہا تھا۔ پریم چند نے اپنے انتقال سے چند ماہ پہلے لکھا تھا کہ ’’دھن ہے وہ سبھیتا جو مالداری اور ویکتی گت سمپتی کا انت کر رہی ہے اور جلد یا دیر سے دنیا اس کا پدانوسرن ضرور کرےگی۔ جو شاسن ودھان اور سماج ویوستھا ایک دیش کے لئے کلیان کاری ہے وہ دوسرے دیشوں کے لئے بھی ہتکار ی ہوگی۔ جن سادھارن کو بہکا دیں گے، ان کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے۔ پر جو ستیہ ہے ایک نہ ایک دن اس کی وجے ہوگی اور اوش ہوگی‘‘ 42


اور اقبال نے بھی یہ محسوس کر لیا تھا کہ ’’بےسود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار‘‘ جبکہ مولانا حسرت موہانی نے صاف صاف کہہ دیا،


لازم ہے یہاں غلبہ آئین سوّیت
وہ ایک برس میں ہوکہ دس بیس برس میں


اس کا ذکر پہلے آ چکا ہے کہ ترقی پسند ادب کی تحریک نے پریم چند، جوش، مجنوں گورکھپوری جیسے بزرگ ادیبوں، درمیانی طبقے کے نو عمر مصنفین (جیسے کرشن چندر، بیدی، مجاز، فیض وغیرہ) اور نئے مزدور اور کسان شاعروں کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیا اور انجمن کا اعلان نامہ شائع ہوتے ہی ایک طوفان برپا ہو گیا۔


اس تحریک کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادب کے فرسودہ سامنتی ڈھانچے کو توڑ دیا اور اس جھوٹے تصور کو ختم کر دیا کہ ادب کا مقصد محض تفریح طبع ہے جو مٹھی بھر پیٹ بھرے آدمیوں کی لطف اندوزی کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے۔ اس نے اس اصول کی تبلیغ کی اور اسے منوا لیا کہ ادب عوام کا ترجمان ہوتا ہے، ان کی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوکر اسے آگے بڑھاتا ہے۔


اس ادب نے مزدوروں، کسانوں اور مظلوم درمیانی طبقے کی زندگی اور مسائل کو اپنا موضوع بنایا اور حقیقت نگاری کی بنیادیں استوار کیں۔ اس نے سرسید، حالی، شبلی، اقبال، پریم چند اور جوش کی بہترین روایات کو ان کی تاریخی معذور یوں کے شکنجے اور طبقاتی کم نگاہی سے آزاد کیا۔ عقل پسندی کو مذہبی تصورات سے، حب وطن کو ماضی پرستی سے، آزادی کے تصور کو طبقاتی کوڑھ سے اور سامراج دشمنی کو سمجھوتے بازی کی آلائشوں سے پاک کیا اور ایسے ادب کی تخلیق کی جس کا بہترین جوہر طبقاتی شعور اور عوام دوستی ہے اور یہی اعلیٰ ترین دوستی ہے کیونکہ انسان کے جسم کو طبقات اور ذہن کو توہمات کے بندھنوں سے آزاد کرنا مکمل انسان کی تخلیق کرنا ہے اور یہ تخلیق تمام تخلیقوں سے زیادہ عظیم ہے۔


ترقی پسند مصنفین نے سامراجی اور جاگیرداری عناصر کی مخالفت کی اور ان قدروں کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ٹھکرایا جوان کے مکتب خیال سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ انسان دشمن قدریں ہیں جو عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ظلم اور استحصال کا جواز تلاش کر لیتی ہیں۔ یہ شعور کو جھٹلاتی ہیں اور لاشعور اور جبلت کو علمی حقیقت بناکر پیش کرتی ہیں۔ یہ رنگ، خون اور نسل کے امتیازات اور طبقاتی تقسیم کی حمایت کرتی ہیں، قومی برتری کے بے ہودہ جذبے اور فرقہ پرستی کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ یہ ادب کو انسانوں کی زندگی اور زندگی کی کشمکش سے الگ کرنے کی کوشش میں خواب و خیال کی دنیا بناتی ہیں اور موضوع اور مواد کو اہمیت دیے بغیر ہیئت اور صورت کا طلسم باندھتی ہیں۔ مختصریہ کہ یہ تاریک اندیش اور رجعت پرست قدریں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ترقی پسند مصنفین نے اعلیٰ درجے کی انسانی قدریں پیش کیں۔


ترقی پسند مصنفین نے ادب کے ذریعے سے اس غیر منصفانہ سماج کو تبدیل کرنے کا جذبہ پیدا کیا اور انقلاب کی دعوت دی حالانکہ ابتدا میں بعض ترقی پسند ادیبوں کا انقلاب کا تصور جذباتی اور رومانی تھا۔ وہ طبقات، ان کی کشمکش اور اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتے تھے۔ پھر بھی یہ اتنی بڑی سچائی تھی کہ انقلاب کا نعرہ اردو ادب پر چھا گیا۔


ترقی پسند مصنفین نے اردو ادب میں طبقاتی شعور کو بیدار کیا اور ایک غیرطبقاتی انسانی سماج کا خواب دیکھا 43، انہوں نے قومیت کے تنگ دائرے سے نکل کر بین الاقوامیت کے تصور کو فروغ دیا اور دنیا کے ہر گوشے کی آزادی کی جدوجہد کو اپنی آزادی کی جدوجہد سمجھا اور اس کے آئینے میں ہندوستان کی آزادی کی تصویر دیکھی۔ اس نے ان کے نقطہ نظر میں اتنی وسعت اور تخیل میں اتنی بلندی پیدا کردی جس سے اردو ادب پہلے واقف نہیں تھا۔


ترقی پسند مصنفین نے اردو ادب کو ادب نواز حلقوں کے چھوٹے سے دائرے سے باہر نکال کر عوام کے زیادہ وسیع حلقوں میں پہنچا دیا۔ وہ تہذیب کی روشنی کو عوام تک لے گئے جنہیں اب تک اس دولت سے محروم رکھا گیا تھا۔ اس کوشش میں انہوں نے کتابوں اور رسالوں کی اشاعت پر اکتفا نہیں کی بلکہ جلسوں اور مشاعروں کو بھی استعمال کیا۔ اس طرح انہوں نے مشاعروں کے کردار کو بالکل بدل دیا اور ایک نئے قسم کے انقلابی مشاعروں کی طرح ڈالی۔


ترقی پسند مصنفین نے ادبی اور بول چال کی زبان کی خلیج کو کم کرکے زبان کو سادہ اور آسان بنایا۔ محض روایتی اور فرسودہ انداز بیان کو ترک کرکے سیدھا سادہ، نیا اور شگفتہ انداز بیان اختیار کیا جسے رجعت پرست حلقوں نے اچھا ادب ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ حالانکہ اس کوشش میں ابھی پوری کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ بنیادیں پڑ گئی ہیں اور نیو گر گئی ہے۔ انہوں نے بہت سے نئے الفاظ کو ادبی زبان میں داخل کر دیا اور زندگی اور سماج کی نئی حقیقتوں سے تشبیہ اور استعارے حاصل کرکے اردو کے ادبی اور فنی خزانے میں اضافہ کیا اور زبان میں اظہار وبیان کے نئے امکانات پیدا کئے۔ اس سلسلے میں بعض کمزور چیزوں کی بھی تخلیق ہوئی ہے جو ناگزیر تھی۔ کیونکہ جب سونا زمین کی گود سے نکالا جاتا ہے تو خالص اور آلائشوں سے پاک نہیں ہوتا، لیکن اسی کے ساتھ بعض ایسی چیزوں کی بھی تخلیق ہوئی ہے جو دنیا کے بہترین انقلابی ادب سے آنکھیں ملا سکتی ہیں۔


ترقی پسند مصنفین نے اردو ادب میں نئی اصناف اور نئی ہیئتیں رائج کرکے فنی خزانے میں بیش بہا اضافے کئے۔ انہوں نے شاعری میں پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نئی روایات پیدا کیں۔ آزاد نظم اور نظم معرا کو رواج دے کر اردو شاعری کو وسعت عطا کی۔ بعض پرانی اصناف کو نئی زندگی عطا کی مثلاً مثنوی۔ انہوں نے غزل کو سماجی تصور اور عوامی جدوجہد کا موضوع عطا کرکے فروغ دیا۔ نثر میں انہوں نے رپورتاژ کی صنف کو رائج کیا۔ افسانے کے موضوع کو وسعت اور تکنیک کو ترقی دی۔ انہوں نے بعض عوامی ہیئتوں کو بھی استعمال کیا لیکن اردو کے مقابلے میں یہ کام دوسری زبانوں میں زیادہ ہوا ہے۔ عوامی گیتوں اور عوامی شاعری کی بحروں کو انہوں نے اتنا استعمال نہیں کیا ہے جتنا چاہئے تھا۔ پھر بھی اس طرف توجہ دی گئی ہے۔


ترقی پسند مصنفین نے نئی قسم کی علمی تنقید کو پیدا کیا۔ جس کی بنیاد یہ ہے کہ ادب کا جائزہ سماجی، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں لیا جائے۔ اس نے تنقید کی سطح کو زیادہ بلند کر دیا ہے اور تنقید کے فن کو سائنس بنا دیا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں اپنے تہذیبی اور ادبی ورثے کا جائزہ لینے میں آسانی ہوتی ہے اور روایات کے چہرے سے ماضی کے اندھیرے کی بہت سی نقابیں الٹ جاتی ہیں۔ یہ تنقیدی انداز اردو ادب میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔


ترقی پسند ادیبوں نے سیاسی اور سماجی زندگی کے اتنے پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے کہ ان کی تخلیقات سے ہندوستان کی جنگ آزادی کی ہر منزل اور ہر موڑ کی تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ مجموعی حیثیت سے ترقی پسند ادب کا لہجہ پر وقار، جذبہ ہمت افزا اور انداز فاتحانہ ہے۔ یہ کامیابی آسانی سے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے لئے ترقی پسند مصنفین نے دکھ جھیل کر، افلاس کی مصیبتیں برداشت کرکے اور قربانیاں دے کر جدوجہد کی ہے۔ کتنے ہی ادیبوں کی کتابیں اور تحریریں ضبط ہوئی ہیں۔ کتنے ہی رسائل پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ کتنے ہی ادیبوں نے لاٹھیاں کھائی ہیں، بندوقوں کی گولیوں کامقابلہ کیا ہے اور جیل خانوں میں دن گزارے ہیں۔


سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، رشید جہاں، سبط حسن، احمد ندیم قاسمی، مخدوم محی الدین، ممتاز حسین، غلام ربانی تاباں، خلیل الرحمن اعظمی، ہنس راج رہبر، نیاز حیدر، مجروح سلطان پوری، سلیمان اریب، سید مطلبی فریدآبادی، علی جواد زیدی، ظہیر بابر، حمید اختر، ظہیر کاشمیری، پرویز شاہدی، عبداللہ ملک اور بہت سے دوسرے ترقی پسند ادیب اور شاعر اپنے عقائد کی وجہ سے برسوں جیلوں میں پڑے رہے ہیں، تب کہیں جاکر وہ ادب پیدا ہوا ہے جس میں زندگی کے دل کی دھڑکنیں، عوام کے جذبات اور تاریخ کا خون ہے۔