ترقی علوم
مسلمانوں میں ترقی علوم کی ایک عجیب سلسلہ سے ہوئی ہے۔ سب سے اول بنیاد ترقی علوم کی جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی کہ انہوں نے زید بن ثابت کو متعین کیا کہ قرآن مجید کو اول سے آخر تک یک جا جمع کر کر بطور ایک کتاب کے لکھ دیں چناں چہ انہوں نے لکھا، جیسا کہ اب موجود ہے۔
دوسری دفعہ مسلمانوں کے علوم کو اس وقت ترقی ہوئی جب کہ لوگوں نے حدیث کو جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر چہ اول اول لوگ اس کو برا جانتے تھے (اور شاید ان کی رائے صحیح ہو) مگر دوسری صدی میں سب نے اس کی ضرورت کو قبول کیا اور حدیثوں کو جمع کرنے اور حدیث کی کتابوں کے لکھنے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ سب سے اول کس نے اس کام کو شروع کیا۔ بعضے کہتے ہیں سب سے اول امام عبد الملک ابن عبد العزیز ابن جریج بصری نے جنہوں نے ۱۵۵ ہجری میں وفات پائی کتاب تصنیف کی۔ اور بعضے کہتے ہیں کہ ابو نصر سعید ابن عروبہ نے جنہوں نے ۱۵۶ ہجری میں انتقال کیا، کتاب تصنیف کی، اور بعضے کہتے ہیں کہ ربیع ابن صبیح نے جو ۱۶۰ ہجری میں وفات پائی سب سے اول کتاب لکھی اور اسی زمانے کے قریب میں سفیان بن عیینہ اور مالک بن انس کی تصنیفات مدینہ میں، اور عبد اللہ ابن وہب کی تصنیفات مصر میں، اور معمر اور عبد الرزاق کی تصانیف یمن میں، اور سفیان ثور ی اور محمد ابن فضیل ابن غزوان کی کوفہ میں اور حماد ابن سلمہ اور روح ابن عبادہ کی بصرہ میں اور ہشیم واسط اور عبدا للہ ابن مبارک کی خراسان میں شائع ہوئیں۔
تیسری دفعہ مسلمانوں کے علوم کی ترقی اس وقت ہوئی کہ بعض لوگوں نے عقاید مذہبی میں اختلاف کیا اور فرق بدع وا ہواء کا شیوع ہوا اور علم کلام میں کتابیں تصنیف ہونی شروع ہوئیں پھر اسی علم کلام کو اور زیادہ ترقی ہو گئی جب کہ تردید مسائل فلسفہ یونانیہ بھی، جو عقائد اسلام کے بر خلاف تھے اس میں شامل کیے گیے۔ سب سے اول اس علم میں حارث محاسبی نے کتاب تصنیف کی جو حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا ہم عصر تھا۔ اول اول علماء اور اتقیاء اس علم کو زندقہ و الحاد سمجھتے تھے پھر رفتہ رفتہ اس کی ایسی ضرورت معلوم ہوئی کہ فرض کفایہ تک نوبت پہنچ گئی۔
پانچویں دفعہ مسلمانوں کے علوم کی ترقی اس وقت ہوئی جب کہ مسلمان عالموں نے معقول و منقول کی تطبیق کو ایک امر لازمی اور ضروری سمجھا اور یقین کیا کہ بغیر اس کے انسان کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ اس فن میں سب سے زیادہ کمال امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حاصل کیا۔ ان کی کتاب احیاء العلوم گویا سرچشمہ اس فن کا ہے۔ اگر چہ ابتدا میں امام غزالی ؒ کی نسبت بھی کفر کے فتوے ہوئے اور ان کی کتاب جلا دینے کے اشتہار کیے گیے مگر آخر کو حجۃ الاسلام ان کا لقب ہوا اور ان کی کتاب کو تمام عالم نے تسلیم کیا۔ اس کے بعد بہت کم کتابیں اس فن میں تصنیف ہوئیں مگر اخیر زمانہ میں مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس طرف متوجہ ہوئے اور کتاب حجۃ اللہ البالغہ لکھی جو بلحاظ اس زمانہ کے در حقیقت نہایت عمدہ اور عجیب لطیف کتاب تھی۔
مگر اب یہ تمام وقت جن کی کہانی ہم نے بیان کی، گذر گئے اور اب بڑی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں دو طرح پر علوم کی ترقی ہو۔
اول، جس طرح کہ قدیم یونانی فلسفہ اور حکمت ہم مسلمانوں نے حاصل کی تھی اب فلسفہ و حکمت جدیدہ کے حاصل کرنے میں ترقی کریں کیونکہ علوم یونانیہ کی غلطی اب علانیہ ظاہر ہو گئی ہے اور علوم جدیدہ نہایت عمدہ اور مستحکم بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح علماء سابق نے معقول یونانیہ اور منقول اسلامیہ کی مطابقت میں کوشش کی تھی، اسی طرح حال کے معقول جدیدہ اور منقول اسلامیہ قدیمہ کی تطبیق میں کوشش کی جاوے تاکہ جو نتائج ہم کو پہلے حاصل ہوئے تھے وہ اب بھی حاصل ہوں
اس کام کے کرنے میں بلا شبہ کچھ نادان برا کہیں گے اور زبان طعنہ دراز کریں گے مگر ہم کو اس پر کچھ خیال کرنا نہیں چاہیے کیونکہ جن اگلے لوگوں نے ایسا کیا تھا ان کا بھی یہی حال ہوا تھا مگرا ٓخر کو سب اس کی قدر کریں گے۔