تقیہ

سو اب یہ شرط حیات ٹھہری
کہ شہر کے سب نجیب افراد
اپنے اپنے لہو کی حرمت سے منحرف ہو کے جینا سیکھیں
وہ سب عقیدے کہ ان گھرانوں میں
ان کی آنکھوں کے رنگتوں کی طرح تسلسل سے چل رہے تھے
سنا ہے باطل قرار پائے
وہ سب وفاداریاں کہ جن پر لہو کے وعدے حلف ہوئے تھے
وہ آج سے مصلحت کی گھڑیاں شمار ہوں گی
بدن کی وابستگی کا کیا ذکر
روح کے عہد نامے تک فسخ مانے جائیں
خموشی و مصلحت پسندی میں خیریت ہے
مگر مرے شہر منحرف میں
ابھی کچھ ایسے غیور و صادق بقید جاں ہیں
کہ حرف انکار جن کی قسمت نہیں بنا ہے
سو حاکم شہر جب بھی اپنے غلام زادے
انہیں گرفتار کرنے بھیجے
تو ساتھ میں ایک ایک کا شجرۂ نسب بھی روانہ کرنا
اور ان کے ہم راہ سرد پتھر میں چننے دینا
کہ آج سے جب
ہزارہا سال بعد ہم بھی
کسی زمانے کے ٹیکسلایا ھڑپہ بن کر تلاشے جائیں
تو اس زمانے کے لوگ
ہم کو
کہیں بہت کم نسب نہ جانیں