تنہائی کی ایک نظم

بہت چھوٹی سی اک تقریب رکھی ہے
یہ دنیا ہے
لہٰذا حسب خواہش کچھ یہاں ہو کر نہیں دیتا
سو یہ تقریب جانے ہو نہ ہو
پر تم ضرور آنا
تم آنا
آرزو کی بات ہوگی
زندگی پر تبصرے ہوں گے
وہاں رکنا
جہاں پھولوں کی سنگت میں روش پر دل دھرے ہوں گے
قبائے چاک پہنے کچھ کشادہ ظرف استقبال کو باہر کھڑے ہوں گے
تمہیں جو رنگ بھی بھائے پہن آنا
تمہیں جو بھیس خوش آئے
دبے پاؤں
ہوا کے دوش پر
یا چاند کی کرنوں پہ چل کر
پا پیادہ حرف ہاتھوں میں اٹھائے یا تہی داماں
کسی صورت بھی آنا
بس چلے آنا
بہت چھوٹی سی اک تقریب رکھی ہے
نہ اب شب زادگی سے کوئی شکوہ
نہ زمانے کے تغافل سے شکایت ہے
ضرور آنا مرے غم کی نہایت ہے