تنگ آ جاتے ہیں دریا جو کہستانوں میں

تنگ آ جاتے ہیں دریا جو کہستانوں میں
سانس لینے کو نکل جاتے ہیں میدانوں میں


خیر ہو دشت نوردان محبت کی اب
شہر بستے چلے جاتے ہیں بیابانوں میں


اب تو لے لیتا ہے باطن سے یہی کام جنوں
نظر آتے نہیں اب چاک گریبانوں میں


مال چوری کا جو تقسیم کیا چوروں نے
نصف تو بٹ گیا بستی کے نگہبانوں میں


کون تاریخ کے اس صدق کو جھٹلائے گا
خیر و شر دونوں مقید رہے زندانوں میں


جستجو کا کوئی انجام تو ظاہر ہو ندیمؔ
اک مسلماں تو نظر آئے مسلمانوں میں