حکایت:خدا کی تلاش کیسے ہوسکتی ہے
ایک عابد نے خدا کی تلاش میں چالیس دن کا چلہ کھینچا ۔ وہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اور اسکا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا۔
چھتیس ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی : سرشام تانبا سازوں کے بازار میں جاؤ اوراپنی مراد پا لو۔
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اوربازار کی گلیوں میں اپنی مراد تلاش کرنے لگا ۔ وہاں اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبا ساز کو دکھارہی تھی۔
اسے وہ بیچنا چاہتی تھی، وہ جس تانبا ساز کو دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا چار درہم ملیں گے۔ بڑھیا کہتی چھ درہم میں بیچوں گی۔ کوئی تانبا ساز اسے چار درہم سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا۔
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبا ساز کے پاس پہنچی تانبا ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔
بڑھیا نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور اسے چھ درہم میں بیچوں گی، کیا آپ چھ درہم دیں گے؟
تانبا ساز نے پوچھا صرف چھ درہم میں کیوں؟ بڑھیا نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، حکیم نے اسکے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ درہم ہے۔
تانبا ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے پچیس درہم میں خریدوں گا۔
بوڑھی عورت نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟ "کہا ہرگز نہیں،"میں واقعی پچیس درہم دوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور
بوڑھی عورت کے ہاتھ میں پچیس درہم رکھ دیے ۔ بوڑھی عورت بہت حیران ہوئی اور دعا دیتی جلدی سے اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بڑھیا چلی گئی تو میں نے تانبےدوکان والے سے کہا:
چچا، لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا؟۔ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور چار درہم سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے پچیس درہم میں اسے خریدا ہے۔
بوڑھے تانبا ساز نے کہا:
میں نے برتن نہیں خریدا، میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں، میں نے ایک ہفتے تک اسکےبیمار بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دیے ہیں، میں نے اسے اس لیے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے ۔
عابد سوچتا اور اس کو دیکھتا رہ گیا... اتنے میں غیبی آواز آئی:’’چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا، گرتوں کو تھامو اور غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہارے پاس چل کر آئیں گے‘‘۔