تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں

تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں
بہی جاتی ہیں آزادی کی رو میں


وہ گرد کارواں بن کے چلے ہیں
ستارے تھے رواں جن کے جلو میں


سفر کیسا فقط آوارگی ہے
نہیں منزل نگاہ راہرو میں


ہے سوز دل ہی راز زندگانی
حیات شمع ہے صرف اس کی لو میں


بہت تھے ہم زباں لیکن جو دیکھا
نہ نکلا ایک بھی ہمدرد سو میں


اسدؔ ساقی کی ہے دوہری عنایت
شراب کہنہ ڈالی جام نو میں