تماشا گاہ ہے یا عالم بے رنگ و بو کیا ہے

تماشا گاہ ہے یا عالم بے رنگ و بو کیا ہے
میں کس سے پوچھنے جاؤں کہ میرے روبرو کیا ہے


بصارت کہہ رہی ہے کچھ نہیں اس دشت وحشت میں
سماعت پوچھتی ہے پھر یہ آخر ہاؤ ہو کیا ہے


یہ کس کی آمد و شد سے ہوائیں رقص کرتی ہیں
یہ کیوں موسم بدلتے ہیں میان رنگ و بو کیا ہے


در و دیوار کیا کہتے ہیں گھر کس کو بلاتا ہے
گزرتے موسموں سے بام و در کی گفتگو کیا ہے


دکھائی کیوں نہیں دیتا مجھے اس پار کا منظر
یہ اک دیوار جیسی چشم تر کے روبرو کیا ہے


میں اس کے سامنے اک آئینہ لے جا کے رکھ دوں گا
ضیاؔ اپنی زباں سے کیوں کہوں اس سے کہ تو کیا ہے