تماشا
دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے، جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں وقتاً فوقتاً کسی آنے والے خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھیں۔ سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہیبت ناک سماں پیش کر رہی تھی۔ وہ بازار جو صبح سے کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہجوم سے پر ہوا کرتے تھے، اب کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے سونے پڑے تھے۔۔۔ شہر کی فضا پر ایک پر اسرار خاموشی مسلط تھی۔ بھیانک خوف راج کر رہا تھا۔ خالد گھر کی خاموش و پرسکوت فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔
’’ابا، آپ مجھے اسکول کیوں نہیں جانے دیتے؟‘‘
’’بیٹا آج سکول میں چھٹی ہے۔‘‘
’’ماسٹر صاحب نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو کل کہہ رہے تھے کہ جو لڑکا آج اسکول کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ دکھائے گا، اسے سخت سزا دی جائے گی!‘‘
’’وہ اطلاع دینی بھول گئے ہوں گے۔‘‘
’’آپ کے دفتر میں بھی چھٹی ہو گی؟‘‘
’’ہاں، ہمارا دفتر بھی آج بند ہے۔‘‘
’’چلو اچھا ہوا۔ آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔‘‘
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تین طیارے چیختے ہوئے ان کے سر پر سے گزر گئے۔ خالد ان کو دیکھ کر بہت خوف زدہ ہوا، وہ تین چار روز سے ان طیاروں کو بغور دیکھ رہا تھا، مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ جہاز سارا دن دھوپ میں کیوں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ ان کی روزانہ نقل و حرکت سے تنگ آ کر بولا، ’’ابا مجھے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ ان کے چلانے والوں سے کہہ دیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزرا کریں۔‘‘
’’خوب۔۔۔! کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے خالد!‘‘
’’ابا، یہ جہاز بہت خوف ناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے، یہ کسی نہ کسی روز ہمارے گھر پر گولہ پھینک دیں گے۔۔۔ کل صبح ماما امی جان سے کہہ رہی تھی کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی، تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔۔۔ وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے دی تھی۔‘‘
خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معمولی جسارت پر ہنسا، ’’ماما تو پاگل ہے، میں اس سے دریافت کروں گا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا کرتی ہے۔۔۔ اطمینان رکھو، وہ ایسی بات ہرگز نہیں کریں گے۔‘‘
اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا تاکہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پھینکیں، تو اس کا نشانہ خطا نہ جائے۔ اور وہ پوری طرح انتقام لے سکے۔۔۔ کاش! انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔
اسی عرصے میں جبکہ ایک ننھا بچہ اپنے انتقام لینے کی فکر میں ڈوبا ہوا طرح طرح کے منصوبے باندھ رہا تھا، گھر کے دوسرے حصے میں خالد کا باپ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہ آئندہ گھر میں اس قسم کی کوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔
ماما اور بیوی کو اسی قسم کی مزید ہدایات دے کر وہ ابھی بڑے دروازے سے باہر جا رہا تھا کہ خادم ایک دہشت ناک خبر لایا کہ شہر کے لوگ بادشاہ کے منع کرنے پر بھی شام کے قریب ایک عام جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آکر رہے گا۔
خالد کا باپ یہ خبر سن کر بہت خوف زدہ ہوا۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ فضا میں غیر معمولی سکون، طیاروں کی پرواز، بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت، لوگوں کے چہروں پر اداسی کا عالم اور خونی آندھیوں کی آمد کسی خوف ناک حادثہ کا پیش خیمہ تھے۔
وہ حادثہ کس نوعیت کا ہو گا۔۔۔؟ یہ خالد کے باپ کی طرح کسی کو بھی معلوم نہ تھا مگر پھر بھی سارا شہر کسی نامعلوم خوف میں لپٹا ہوا تھا۔
باہر جانے کے خیال کو ملتوی کرکے خالد کا باپ ابھی کپڑے تبدیل کرنے بھی نہ پایا تھا کہ طیاروں کا شور بلند ہوا۔ وہ سہم گیا۔۔۔ اسے ایسا معلوم ہوا، جیسے سیکڑوں انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔
خالد طیاروں کا شور و غل سن کر اپنی ہوائی بندوق سنبھا لتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا اور انہیں غور سے دیکھنے لگا تاکہ وہ جس وقت گولہ پھینکنے لگیں، تو وہ اپنی ہوائی بندوق کی مدد سے انہیں نیچے گرا دے۔ اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہنی ارادہ و استقلال کے آثار نمایاں تھے، جو کم حقیقت بندوق کا کھلونا ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ آج اس چیز کو، جو اسے عرصے سے خوف زدہ کر رہی تھی، مٹانے پر تلا ہوا ہے۔
خالد کے دیکھتے دیکھتے ایک جہاز سے کوئی چیز گری جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مشابہ تھی۔ گرتے ہی یہ ٹکڑے ہوا میں پتنگوں کی طرح اڑنے لگے، ان میں سے چند خالد کے مکان کی بالائی چھت پر بھی گرے۔ خالد بھاگا ہوا اوپر گیا اور کاغذ اٹھا لایا۔
’’ابا جی۔۔۔ ماما سچ مچ جھوٹ بک رہی تھی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کے بجائے یہ کاغذ پھینکے ہیں۔‘‘
خالد کے باپ نے وہ کاغذ لے کر پڑھنا شروع کیا تو رنگ زرد ہو گیا۔ ہونے والے حادثے کی تصویر اب اسے عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ اس اشتہار میں صاف لکھا تھا کہ بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر اس کی مرضی کے خلاف کوئی جلسہ کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار خود رعایا ہوگی۔
اپنے والد کو اشتہار پڑھنے کے بعد اس قدر حیران و پریشان دیکھ کر خالد نے گھبراتے ہوئے کہا، ’’اس کاغذ میں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ ہمارے گھر پر گولے پھینکیں گے؟‘‘
’’خالد، اس وقت تم جاؤ۔۔۔! جاؤ اپنی بندوق کے ساتھ کھیلو۔‘‘
’’مگر اس پر لکھا کیا ہے؟‘‘
’’لکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا ہو گا۔‘‘ خالد کے باپ نے گفتگو کو مزید طول دینے کے خوف سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
’’تماشا ہو گا۔۔۔! پھر تو ہم بھی چلیں گے نا؟‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
’’کیا اس تماشے میں آپ مجھے نہ لے چلیں گے؟‘‘
’’لے چلیں گے۔۔۔ اب جاؤ جا کر کھیلو۔‘‘
’’کہاں کھیلوں۔۔۔؟ بازار میں آپ جانے نہیں دیتے۔ ماما مجھ سے کھیلتی نہیں، میرا ہم جماعت طفیل بھی تو آج کل یہاں نہیں آتا۔ اب میں کھیلوں تو کس سے کھیلوں۔۔۔؟ شام کے وقت تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے نا؟‘‘ کسی جواب کا انتظار کیے بغیر خالد کمرے سے باہر چلا گیا۔ اور مختلف کمروں میں آوارہ پھرتا ہوا اپنے والد کی نشست گاہ میں پہنچا، جس کی کھڑکیاں بازار کی طرف کُھلتی تھیں۔ کھڑکی کے قریب بیٹھ کر وہ بازار کی طرف جھانکنے لگا۔
کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں دکانیں تو بند ہیں مگر آمد و رفت جاری ہے۔۔۔ لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لیے جا رہے تھے۔ وہ سخت حیران تھا کہ دو تین روز سے دکانیں کیوں بند رہتی ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اس نے اپنے ننھے دماغ پر بہتیرا زور دیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکا۔
بہت غور و فکر کے بعد اس نے یہ سوچا کہ لوگوں نے اس تماشا کو دیکھنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تھے، دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ اب اس نے خیال کیا کہ وہ کوئی نہایت ہی دلچسپ تماشا ہوگا جس کے لیے تمام بازار بند ہیں۔ اس خیال نے خالد کو سخت بے چین کر دیا اور وہ اس وقت کا نہایت بے قراری سے انتظار کرنے لگا جب اس کا ابا اسے تماشا دکھلانے کو لے چلے۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔ وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی۔
سہ پہر کا وقت تھا۔ خالد، اس کا باپ اور والدہ صحن میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے۔۔۔ ہوا سسکیاں بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔
تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔
یہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا۔ زبان سے بمشکل اس قدر کہہ سکا، ’’گولی!‘‘
خالد کی ماں فرطِ خوف سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی۔ گولی کا نام سنتے ہی اسے ایسے معلوم ہوا جیسے خود اس کی چھاتی میں گولی اتر رہی ہے۔
خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا:
’’ابّا جی چلو چلیں! تماشا تو شروع ہو گیا ہے۔‘‘
’’کون سا تماشا؟‘‘ خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔
’’وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح ہوئی جہازبانٹ رہے تھے۔۔۔ کھیل شروع ہو گیا۔ تبھی تو اتنے پٹاخوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔‘‘
’’ابھی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو۔۔۔ خدا کے لیے اب جاؤ، ماما کے پاس جا کر کھیلو!‘‘ خالد یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف گیا۔ مگر وہاں ماما کو نہ پا کر اپنے والد کی نشست گاہ میں چلا گیا اور کھڑکی سے بازار کی طرف دیکھنے لگا۔ بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔۔ دور فاصلے سے کتوں کی درد ناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں انسان کی درد ناک آواز بھی شامل ہو گئی۔
خالد کسی کو کراہتے سن کر بہت حیران ہوا۔ ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لیے کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا، جو چیختا، چلاتا، بھاگتا چلا آ رہا تھا۔ خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا، اور گرتے ہی بے ہوش ہو گیا۔۔۔ اس کی پنڈلی پر ایک زخم تھا، جس سے فواروں خون نکل رہا تھا۔ یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوف زدہ ہوا۔ بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’ابّا، ابّا، بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے۔۔۔ اس کی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی خالد کا باپ کھڑکی کی طرف گیا اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا بازار میں اوندھے منہ پڑا ہے۔ بادشاہ کے خوف سے اسے جرأت نہ ہوئی کہ اس لڑکے کو سڑک پر سے اٹھا کر سامنے والی دکان کے پٹرے پر لٹا دے۔۔۔ بے سازو برگ افراد کو اٹھانے کے لیے حکومت کے اربابِ حل و عقد نے آہنی گاڑیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ مگر اس معصوم بچے کی نعش جو ان ہی کی تیغ ستم کا شکار تھی، وہ ننھا پودا جو ان ہی کے ہاتھوں مسلا گیا تھا، وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے ان ہی کی عطا کردہ بادِ سموم سے جھلس گئی تھی، کسی کے دل کی راحت جو ان ہی کے جور و استبداد نے چھین لی تھی، اب ان ہی کی تیار کردہ سڑک پر۔۔۔ آہ! موت بھیانک ہے، مگر ظلم اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک ہے۔
’’ابا اس لڑکے کو کسی نے پیٹا ہے؟‘‘
خالد کا باپ اثبات میں سر ہلاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔
جب خالد اکیلا کمرے میں رہ گیا تو سوچنے لگاکہ اس لڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکلیف ہوئی ہو گی۔ جبکہ ایک دفعہ اسے قلم تراش کی نوک چبھنے سے تمام رات نیند نہ آئی تھی اور اس کا باپ اور ماں تمام رات اس کے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ زخم خود اس کی پنڈلی میں ہےاور اس میں شدت کا درد ہے۔۔۔ یکلخت وہ رونے لگ گیا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر اس کی والدہ دوڑی آئی۔ اور اسے گود میں لے کر پوچھنے لگی، ’’میرے بچے، رو کیوں رہے ہو؟‘‘
’’امی، اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟‘‘
’’شرارت کی ہو گی اس نے؟‘‘
خالد کی والدہ اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داستان سن چکی تھی۔
’’مگر اسکول میں تو شرارت کرنے پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں، لہو تو نہیں نکالتے۔‘‘ خالد نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا۔
’’چھڑی زور سے لگ گئی ہو گی۔‘‘
’’تو پھر کیا اس لڑکے کا والد اسکول میں جا کر اس استاد پر خفا نہ ہو گا، جس نے اس لڑکے کو اس قدر مارا ہے۔ ایک روز جب ماسٹر صاحب نے میرے کان کھینچ کر سرخ کر دئیے تھے تو ابّا جی نے ہیڈ ماسٹر کے پاس جا کر شکایت کی تھی نا؟‘‘
’’اس لڑکے کا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔‘‘
’’اللہ میاں سے بھی بڑا؟‘‘
’’نہیں ان سے چھوٹا ہے۔‘‘
’’تو پھر وہ اللہ میاں کے پاس شکایت کرے گا۔‘‘
’’خالد، اب دیر ہو گئی ہے، چلو سوئیں۔‘‘
’’اللہ میاں! میں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس لڑکے کو پیٹا ہے، اچھی طرح سزا دےاور اس چھڑی کو چھین لے جس کے استعمال سے خون نکل آتا ہے۔۔۔ میں نے پہاڑے یاد نہیں کیے۔ اس لیے مجھے ڈر ہےکہ کہیں وہی چھڑی میرے استاد کے ہاتھ نہ آ جائے۔۔۔ اگر تم نے میری باتیں نہ مانیں، تو پھر میں بھی تم سے نہ بولوں گا۔‘‘
سوتے وقت خالد دل میں دعا مانگ رہا تھا۔