تمام رات مرے ساتھ پھرتا رہتا ہے
تمام رات مرے ساتھ پھرتا رہتا ہے
میں سو بھی جاؤں تو آنکھوں میں چلتا رہتا ہے
بدن ہے اس کا کہ جیسے چنار کا موسم
وہ اپنی آگ میں ہر رات جلتا رہتا ہے
مجھے کبھی جو رہے دھوپ کا سفر در پیش
وہ چھاؤں بن کے مرے ساتھ چلتا رہتا ہے
وہ پیڑ سر کو جھکائے کھڑا جو رہتا ہے
وہ موسموں کی بہت مار سہتا رہتا ہے
پھر اس کے بعد کہاں جسم و جاں سنبھلتے ہیں
وہ میرے ہاتھ میں شب بھر پگھلتا رہتا ہے
غموں کی رت ہو یا کوئی خوشی کا موسم ہو
بدلتے رہتے ہیں موسم بدلتا رہتا ہے
ندیمؔ اس سے تعلق تو ہم نے توڑ لیا
مگر یہ دل ہے کہ اب بھی مچلتا رہتا ہے