بچوں میں چوری کی عادت… والدین کیا کریں؟
چوری کی عادت اگر پختہ ہو جائے تو بڑے جرائم کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے۔
چوری کی عادت اگر پختہ ہو جائے تو بڑے جرائم کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے۔
ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اچھے سے اچھا سکول تلاش کرکے اس میں بھیجتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کی بنیادی تعلیم اچھی ہو۔عموماً یہ سب پاپڑ اس لیے بیلے جاتے ہیں کہ اس کے سبب ملنے والی اچھی جاب ان کے مستقبل کی ضامن ہو۔
ماں اردگرد کے گھروں میں معمولی کام کر کے بیمارشوہر اوربچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ زاہد اور شاہد کے لیےسکو ل جانامشکل تھا۔ بیمار پڑے باپ نے دونوں بیٹوں اوربیٹی کو گھر پر ہی اتنا کچھ پڑھا لکھا دیا تھا کہ معمولی کتاب،رسالے تھوڑا بہت حساب کتاب کرنے کےقابل ہوگئے۔
میٹرک اور انٹر کے طلبا کے لیے خوش خبری۔۔۔اب ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے کا بہترین موقع۔ میٹرک اور انٹر کے طلبا کے لیے ویڈیو لیکچرز، تیاری کے لیے آن لائن ٹیسٹ اور۔۔۔۔۔۔
زمیندا ر گھرانو ں کے لڑکے ہا سٹل کے ملازمین سے بھی اپنی زمنیو ں کے مزارعو ں جیسا سلوک کرتے تھے۔ اگر کسی عام کاشتکار کا لڑکا ہا سٹل میں دا خلہ لے لیتا تو یہ سب مل کر اس کا جینا دوبھر کر دیتے۔فخر و غرور سے اکڑ کر چلنا اور چھو ٹے بڑے کی تمیز سے بے نیاز ان لڑکو ں نے ہا سٹل کا ما حو ل خراب کر رکھا تھا۔ہا سٹل وارڈن بھی ان کی حرکتو ں سے سخت نا لا ں تھے۔
جو والدین کچھ عرصہ پہلے تک اپنے بچوں کو بخوبی پڑھا لیا کرتے تھے ، اب وہ اپنے بچوں کو نام نہاد "ٹیوشن سینٹرز" بھیجنے پر مجبور ہیں۔ نصاب تعلیم کو اسقدر وسیع کر دیا گیا ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ شخص اپنے بچوں کو بمشکل ہی پڑھا پاتا ہے ۔
انٹرنیٹ نے دنیا کو گلوبل ویلج سے گلوبل ہوم بنا دیا ہے۔ لیکن یہ مجازی گھر خطروں سے گھرا ہوا ہے۔۔۔ہر قدم پھونک پھونک کرنا چلنا ہوگا۔ ہم بچوں کو انٹرنیٹ سے دور نہیں کرسکتے ہیں لیکن ان کو محفوظ انٹرنیٹ۔۔۔۔
اللہ کے ہر حکم کے آ گے جھکنا ہی سچے مسلمان ہو نے کی نشانی ہے
عمران خان کی حکومت کو مہنگائی اور نااہلی کے الزامات لگا کر نکال باہر کرنے کے بعد موجودہ کئی جماعتی اتحاد کے تحت بننے والی حکومت نے اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے اس کی شرائط تسلیم کی جارہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان شرائط کی زد عام آدمی پر پڑنے سے روکنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
شادی کرنا شاید آسان ہو لیکن رشتہ تلاش کرنا ایک جہدِ مسلسل کا تقاضا کرتا ہے۔ معاشرے میں نکاح مشکل ہوتا جارہا ہے اور بدکاری کی راہ آسان۔ والدین کے لیے رشتوں کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ رشتوں کا مسئلہ مشکل ہوتا جارہا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟