تلاش جہان ناپید
جہاں نہ سایۂ ماضی کہیں نظر آئے
جہاں نہ فکر ہو فردا کی کوئی دامن گیر
نہ دوست ہو نہ شناسا نہ کوئی دشمن ہو
کسی کی عنبری زلفوں کا میں نہیں ہوں اسیر
سفر جو ہو تو کوئی کارواں نہ رہبر ہو
نہ منزلوں کے لیے ہو تلاش دامن گیر
ہو دشت میرا مکاں اور کوہ دیواریں
ہو سائباں کی طرح سر پہ آسمان دبیر
نہ یوں حیات ہو فکر معاش سے بیزار
کہ جیسے پاؤں میں ہوتی ہے قید کی زنجیر
نہ بد ظنی کی ہو کلفت نہ ڈر سزا کا ہو
نہ التجائے کرم سے کروں میں خود کو حقیر
اگر میں سیکھ لوں قدرت سے زندگی کا چلن
یہ برگ پھول ہوا بس یہی ہوں میرے مشیر
کبھی جو نیند نہ آئے دراز راتوں میں
فلک کے راز سنائیں مجھے فلک کے سفیر
نہ خواب آئیں مری نیند اتنی گہری ہو
سحر کو حاجت تفسیر خواب ہو نہ امیرؔ