تاکنا، جھانکنا اور جھانکی مارنا
دائرۂ علم و ادب پاکستان نے سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک برقی محفل سجا رکھی ہے۔ یہ عالمی ادبی محفل ہے۔ ایک روز جدہ سے سید شہاب الدین نے محفل میں ’جھانکی‘ ماری۔ اس پر اہلِ علم و ادب میں اضطراب پھیل گیا۔ کراچی سے ڈاکٹر محمود غزنوی نے جھٹ سوال داغا:
’’یہ ’جھانکی ماری‘ کون سی اُردو ہے؟‘‘
سید کی مدد کو سید ہی لپکتا ہے۔ سو سید ایاز محمود، سید شہاب الدین کی مدد کو دوڑے، اور دوڑ کر سند لے آئے۔ فرمایا:
’’درست زبان ہے۔ اہلِ زبان کا روزمرہ ہے۔ مطلب ہے ایک نظر ڈالنا۔ نظیرؔاکبر آبادی کا شعر ہے:
نئی پوشاک اور نئے بھوجن
نئی جھانکی ہے اور نئے درشن‘‘
ہم تو ایسے مواقع پر بغلیں ہی جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ اس نوک جھونک کا فائدہ یہ ہوا کہ جھک کر لغت جھانکنے لگے۔ معلوم ہوا کہ اہلِ لغت بھی جھانکی مارتے پھر رہے ہیں۔ نوراللغات کی رُو سے اس کا مطلب ہے: دید، نظاره ، تماشا۔ فرہنگِ تلفظ (مرتبہ شان الحق حقی) کے مطابق ’جھانکی‘ کا ایک مطلب ’موکھا‘ یا ’روزن‘ بھی ہے، یعنی وہ سُوراخ جہاں سے جھانکی ماری جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فصیل کے کنگروں کے درمیان کی درزیں بھی ’جھانکی‘کہلاتی ہیں۔ جلوہ گاہ (یعنی جھروکے) کو بھی ’جھانکی‘ کہا جاتا ہے۔ وہ طاق یا چوکھٹا جس میں مورتی سجا کر رکھتے ہیں وہ بھی ’جھانکی‘ ہے۔ اسٹیج یا تماشا گاہ کو بھی اہلِ زبان نے ’جھانکی‘ کہا۔ اس تمام تاک جھانک کے بعد ہم تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ’کلوز سرکٹ ٹیلی وژن کیمرا‘ کے لیے اردو میں اس سے زیادہ موزوں، مناسب اور مختصر نام کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
یہ سارا ’کھٹ راگ‘ جھانکنے سے شروع ہوا تھا۔ ’کھٹ راگ‘ کے ان دو الفاظ کو ہمیشہ ملا کرلکھا گیا۔ یعنی ’کھٹراگ‘۔ جن بوجھ بجھکڑوں نے اسے ’کھڑاگ‘ پڑھا اُنھوں نے ’کھڑاگ‘ ہی کے تلفظ سے یہ لفظ رائج بھی کردیا۔ اب ہمارے ہاں جسے دیکھیے وہ کھڑاگ ہی کھڑا کرتا نظر آتا ہے۔ جب کہ ہے یوں کہ مختلف راگوں کے گڈمڈ کردینے کو ’کھٹ راگ‘ کہتے ہیں۔ مجازاً اِس کے معنی ہیں: جنجال، جھنجھٹ، جھگڑا، بکھیڑا اور جھمیلا وغیرہ۔ کئی راگنیوں کے سُر ملے ہونے کے معنوں میں یہ لفظ ظفرؔ کے ایک شعر میں بھی ملتا ہے:
مطرب ایسا کچھ سنا جس سے کہ ہو دل کو کشود
نیک سن کر ہی ترا کھٹ راگ آئے ہم تو ہیں
اب سے کم از کم ستّر بہتّر برس پہلے تک دستی تحریر اور دستی کتابت میں یہ رواج عام تھا کہ اردو کے دو الفاظ اگر ملا کر لکھے جاسکتے ہوں تو فی الفور ملا دینا چاہیے۔ ایسے الفاظ کو الگ الگ لکھنا غالباً کم خواندہ یا ناپختہ ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دو الفاظ ہی پر بس نہیں۔ ’کیلے کی گیلی گیلی جڑ‘ والا تو پورا فقرہ ہی ملا کر لکھا جاسکتا تھا۔ ملا کر لکھنے پر ہمیں اپنا ایک دلچسپ مشاہدہ یاد آگیا۔ ہم نے ہی کیا، آپ نے بھی ’امرت سر‘ کو کبھی اِس املا کے ساتھ لکھا ہوا نہیں دیکھا ہوگا۔ ہمیشہ امرتسر ہی لکھا دیکھا۔ ایک روز خوبیِ قسمت سے ہم مسجدِ نبویؐ میں روزانہ سجنے والی محفلِ درس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ موضوع تھا ’نبوت کے مدعیانِ کاذب‘۔ بات مسیلمہ کذّاب سے شروع ہوئی اور مرزا قادیانی تک جا پہنچی۔ مرزا کے متعلق ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے مدرسِ محترم نے فرمایا: ’’الشیخ ثناء اللہ اَمَرتَسری یقول …‘‘
انھوں نے ’امرت سری‘ کا تلفظ ’اَمَرْ تَسْری‘ بروزنِ حسن بصری کیا۔ تب ہمیں فصیح و بلیغ عربی بولنے والے عرب عالِم کے تلفظ پر بھی مسکرانے کا موقع مل گیا۔ لیکن وہ بچارے بھی کیا کرتے؟ امرت سر میں بنفسِ نفیس جھانکی مارے بغیر اس شہرکا درست تلفظ جاننا اُن کے لیے ممکن بھی کیسے ہوتا؟
تاک جھانک کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ سہج سہج کر جھانکی مارنے سے بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی دفعہ رَج کر جھانک لیا کرے۔ کسی درز سے دیکھنے کو، کسی آڑ میں چھپ کر نظارہ کرنے کو، اورکسی شخص (مثلاً محبوب) کے دروازے سے اُس کے گھر میں دُزدیدہ یا سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جانے کو ’جھانکنا‘ کہا جاتا ہے۔ میر ؔ کا مشہور شعر ہے:
دل سے شوقِ رُخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
مگر جھانکنے کے ساتھ تاکناکیسے ممکن ہے؟ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں! تاکنے کا مطلب تو گھات لگا کر، ٹکٹکی باندھ کر یا شست لگا کر دیکھنا ہے۔ تاکتے رہنا یا تکتے رہنا مسلسل دیکھتے رہنے کو کہا جاتا ہے۔ ’پہروں چاند کو تکتے رہنا ٹھیک نہیں‘۔ ’منہ تاکنا‘ (یا منہ دیکھنا) کچھ کہنے یا کچھ سننے کے لیے انتظارکے لمحات گزارنا ہے۔ ایک بار چچا غالبؔ نے کسی کا خط وصول کرنے کے بعد منہ اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے
یہاں اپنے بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ منت سماجت کے باوجود جب والدہ محترمہ مدرسے سے چھٹی کرلینے کی اجازت مرحمت نہ فرماتیں تو اُمیدوارِ لطف و کرم سے یہ بھی فرمایا کرتیں کہ ’’پڑھنے جاؤ، کھڑے منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘ تاک کر مارنے کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ لے کر مارنا۔ ’تاک میں لگنا‘ کسی کا پیچھا کرنا یا کسی کی جاسوسی کرنا ہے۔ ’تاک میں رہنا‘ کسی کو نظر میں رکھنا یا کسی پر نظر رکھنا ہوتا ہے، یعنی کسی کو قابو میں کرلینے یا اس پر حملہ آور ہوجانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنا۔ میرؔ والی بات اُس وقت سمجھ میں آئی جب سمجھنے کے لیے لغت میں جھانکا۔ پتا چلا کہ تاکنے کا ایک مطلب نظر بازی یا بقولِ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’گُھورا گھاری‘ بھی ہے۔ میرؔ صاحب انھی معنوں میں تاکا جھانکی فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح ’ تاک لینا‘ بھی کسی کو پسند کرلینا یا کوئی چیز حاصل کرلینا ہے۔ امیرؔ مینائی کو صدمہ تھا کہ
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
جھانکنا سے صوتی مماثلت رکھتا ہوا ایک لفظ ’جھینکنا‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے: رونا، اپنا دکھڑا بیان کرنا، افسوس کرنا، پچھتانا، ماتم کرنا اور گلہ شکوہ کرنا۔ اب بھی گلے شکوے تو بہت ہوتے ہیں مگر ’جھینکتا‘ کوئی نہیں۔ داغ ؔکے دور تک یہ کام اپنے پرائے سب کرتے تھے:
دل میں نے لگایا ہے مگر دیکھیے کیا ہو
سب جھینکتے ہیں اپنے پرائے مرے آگے
اسی طرح جھانکنے کے مشاغل میں سے ایک مشغلہ ’کنویں جھانکنا‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ مطلب: بہت تلاش و جستجو کرنا، حیران پریشان ہونا۔ ’’ارے بھائی! تم نے تو کنویں جھنکوا دیے‘‘۔ آج کل اگر کوئی لاپتا ہوجائے تو اسپتال جھانکے جاتے ہیں، تھانوں میں جھانکی ماری جاتی ہے، یا ایدھی سینٹر جا کر جھانک آتے ہیں۔ پھر بھی پتا نہ چلے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ نامعلوم افراد اُٹھا لے گئے ہوں گے جو سب کو معلوم ہیں۔ مگر اس تلاش و جستجو کے لیے پہلے زمانے میں کنویں بھی جھانکے جاتے تھے کہ کہیں موصوف افیم کی پنک میں آکر کنویں میں نہ ڈھے گئے ہوں۔ قصہ مشہور ہے کہ دو عدد درویشانِ افیم نوش تھک ہار کر ایک کنویں کی منڈیر پرآبیٹھے۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اچانک’شڑاپ‘ کی ایک زوردار صدا بلند ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک درویش غائب ہوگیا۔ دوسرے درویش نے گھبرا کر اِدھر اُدھرجھانکا اور بوکھلا کرصدا لگائی:
’’ارے میاں! کہاں ہو؟ اور یہ تم نے کیسی صدا بلند کی تھی؟‘‘
کنویں میں سے آواز آئی:
’’یہاں ہوں شاہ جی! کنویں میں گر پڑا ہوں‘‘۔
دوسرے درویش نے ذرا کی ذرا کنویں میں جھانکا اور کہا:
’’اچھا میاں! جہاں رہو خوش رہو‘‘۔
پھر اپنی گدڑی سنبھالی اور دعا دیتے ہوئے چلتے بنے۔ بعد ازاں اسی قصے کو میرؔ نے اپنے اس شعر میں موزوں کیا:
فقیرانہ آئے ، صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دُعا کر چلے