تخلیق پہ فطرت کی گزرتا ہے گماں اور

تخلیق پہ فطرت کی گزرتا ہے گماں اور
اس آدم خاکی نے بنایا ہے جہاں اور


یہ صبح ہے سورج کی سیاہی سے اندھیری
آئے گی ابھی ایک سحر مہر چکاں اور


بڑھنی ہے ابھی اور بھی مظلوم کی طاقت
گھٹنی ہے ابھی ظلم کی کچھ تاب و تواں اور


تر ہوگی زمیں اور ابھی خون بشر سے
روئے گا ابھی دیدۂ خونابہ فشاں اور


بڑھنے دو ذرا اور ابھی کچھ دست طلب کو
بڑھ جائے گی دو چار شکن زلف بتاں اور


کرنا ہے ابھی خون جگر صرف بہاراں
کچھ دیر اٹھانا ہے ابھی ناز خزاں اور


ہم ہیں وہ بلاکش کہ مصائب سے جہاں کے
ہو جاتے ہیں شائستۂ غم ہائے جہاں اور