تخلیقی عمل اور اس کی ساخت
ہرتخلیق کار جب وہ تحقیقی عمل میں مبتلا ہوتا ہے تواپنی طبع اور مزاج کے مطابق بعض رسوم یا Rituals سے گزرتا ہے۔ مثلاً ایک نوبل انعام پانے والے مصنف کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اسے کچھ کہنے کی طلب ہوتی تھی تو وہ اپنی ایک خاص ٹوپی پہن لیتا تھا جسے وہ سوچنے والی ٹوپی یا Thinking Capکہتا تھا۔ اسی طرح بعض تخلیق کار سگریٹ سلگا لیتے ہیں یا اگردیہاتی ہوں تو حقے کے کش لینے لگتے ہیں۔ بعض ایک گونہ بے خودی کے لیے شراب کی طرف مائل ہوتے ہیں یا کم از کم چائے کی ایک آدھ پیالی کا ضرور اہتمام کرلیتے ہیں۔ بعض تخلیق کار تخلیق کاری کے لمحات میں مکمل تنہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے اردگرد کے شور میں بآسانی خودکو ’’اندر‘‘ کے نقطے پر مرتکز کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ غرض جتنے تخلیق کار اتنے ہی Ritualsہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ تخلیق کاری کے دوران خود تخلیق کار کا وجود اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ روحانی یافت کے سلسلہ میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اورشاید اسی لیے صوفیا اور یوگی جسم اوراس کی خواہشات کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ خودکو ایک نقطہ پر مرتکز کرسکیں۔ تخلیق کار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دماغ کی آوارہ گردی سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ارتکاز کے حصول کے لیے خیالات کو روکنے کی کوشش کریں تو وہ بار بار امڈ آتے ہیں۔ لہٰذا وہ غیرشعوری طورپر ایسی رسوم یا Ritualsکا اہتمام کرتا ہے جن میں مبتلا ہوکر وہ خیالات کو روکنے کے اہتمام سے باز رہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ رسم یا Rituals کے عمل کی جانب خود کو متوجہ کرکے خیالات کو روکنے کی خواہش سے دست کش ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اسے ارتکاز یا خودفراموشی کا وہ لمحہ حاصل ہوتا ہے جو تخلیق کاری کے لیے ناگزیر ہے۔
ہر مصنف تخلیق کاری کے تجربے سے گزرتا ہے مگرجب اس سے پوچھا جائے کہ ’’تخلیقی عمل‘‘ کیا ہے توپورے تخلیقی عمل کو بیان کرنے کے بجائے وہ اپنی تخلیق کاری کے غالب پہلو ہی کو ’’تخلیقی عمل‘‘ گردانتا ہے اوراسے بیان کرتا ہے۔ مثلاً ورڈز ورتھ کا خیال ہے کہ شاعری ان توانا محسوسات کے فطری بہاؤ کا نام ہے جن کی ایک حالت سکون میں بازیابی کی جائے مگر پھر آہستہ آہستہ حالت سکون باقی نہ رہے اور محسوسات اسی واقعی صورت میں تخلیق کار پر چھاجائیں جس سے وہ کبھی آشنا ہوا تھا۔ گویا ورڈزورتھ تخلیقی عمل میں حالت سکون کو ایک اہم مرحلہ گردانتا ہے جو فطرت کی پرسکون فضا سے اس کے گہرے انسلاک کا نتیجہ ہے۔
دوسری طرف شیلے کہتا ہے کہ مظاہر کی بوقلمونی اوررنگارنگی کے پیچھے کوئی قوت موجود ہے جو خودکو مظاہر میں منقلب کرکے پیش کرتی ہے۔ شاعری ایک ایسا ہی مظہر ہے جسے اس عظیم قوت نے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ شیلے کے اس نظریے میں افلاطونی افکار کا پرتو بھی نظرآتا ہے۔ مثلا یونانیوں نے اعیان کو ازلی وابدی قرار دیا تھا اور مظاہر کو محض ایک ایسا آئینہ سمجھا تھا جس میں اعیان کا انعکاس ہوتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے فن کو ایک ایسا آئینہ متصور کیا تھا جو مظاہر کے آئینے کو منعکس کرتا تھا۔ لہٰذا وہ اعیان سے دوگنے فاصلے پر ہونے کے باعث ایک کمتر عمل تھا۔ مگر شیلے نے اسے کم تر قرار نہیں دیا۔ گو اس نے تخلیقی عمل کے عقب میں موجود ایک ازلی و ابدی حقیقت کا اقرار ضرور کیا۔
سوچ کا یہی انداز ہمیں بعض دیگر تخلیق کاروں کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مثلاً والیری کا کہنا ہے کہ ایک مصرع اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے اور باقی سب کچھ تخلیق کار کو دریافت کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایمرسن کہتا ہے کہ تخلیق کاری میں ایک فیصد الہام مگر ننانوے فید خون پسینے کی آمیزش ہوتی ہے۔ اصلاً الہام کا یہ لمحہ اس ازلی و ابدی حقیقت ہی کا عطیہ ہے جو مظاہر کے نیچے یا بطون میں ہمہ وقت موجود ہوتی ہے۔
ورڈز ورتھ اور شیلے کے مقابلے میں کولرج نے شعر کی تخلیق کے معاملے میں داخل اور خارج کے تصادم یا انضمام کو اہمیت دی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تخلیق کار کے اندر اور باہر کی آویزش سے ایک ایسی کیفیت جنم لیتی ہے جس میں تمام تضادات حل ہوجاتے ہیں۔ یعنی ایک دھندلکا یا سونے جاگنے کا ایک ایسا عالم طاری ہوجاتا ہے جو تخلیق کاری کا سب سے بڑا محرک ہے۔ خود کولرج اپنی زندگی میں ’’اونگھ‘‘ یا ’’پینگ‘‘ کا والہ وشیدا تھا اور تخلیق کاری کو خواب کاری کے جہان میں دخیل مانتا تھا۔ کچھ عجب نہیں کہ اس نے تخلیقی عمل میں بھی جھٹپٹے کے عالم ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔
ان تینوں کے برعکس ییٹس نے تخلیق کاری کے عمل میں ’آہنگ‘ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ آہنگ کوایک طرح کی لوری سمجھتا ہے جو تخلیق کار کے ذہنی بکھراؤ کوکم کرکے اسے نینداور بیداری کے درمیان لاکھڑا کرتی ہے۔ ہرچند ییٹس نے خود فراموشی کے عالم کا ذکر کیا ہے مگرآہنگ کو اہمیت دے کر اس نے تخلیقی عمل کے ایک قابل ذکرمرحلے کی نشاندہی ضرور کردی ہے اوریہ اس کی ایک اہم عطا ہے۔ اسی طرح اسٹیفن اسپینڈر نے اپنے تخلیقی تجربے کی بنا پر لکھا ہے کہ تخلیق کاری کے دوران اسے کئی بار محسوس ہوا جیسے کسی ’’آہنگ‘‘ نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہو اور اس کا انگ انگ رقص کرنے لگا ہو۔ مگران دونوں سے بہت پہلے غالب نے کہا تھا)
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
یوں غالب نے ’’نوائے سروش‘‘ کو اہمیت دے کر دراصل آہنگ یاآواز کے متوازن روپ ہی کو اہمیت بخشی تھی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جولین جینز نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا،
The origin of Consciousness in the Breakdown of the Bicameral mind.
اس کتاب میں جولین جینز کا تھیسس یہ تھا کہ شعور کی کارفرمائی کا آغاز آج سے محض تین ہزار برس پہلے ہوا تھا۔ اس سے قبل دو ا یوانی دماغ کی حکمرانی تھی۔ ان میں سے ایک ایوان وہ تھا جہاں دیوتا رہتے تھے، دوسرا وہ جہاں انسان قیام پذیر تھا۔ چنانچہ جب لوگ باگ کسی بحران کی زد میں آجاتے تو پہلے ایوان کی طرف متوجہ ہوتے تھے، جہاں سے انہیں پراسرار آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اصلاً یہ دیوتاؤں کی آوازیں ہوتیں جو انہیں بحران سے نکلنے کا راستہ دکھاتی تھیں۔ مگرجب اچانک شعور Consciousnessکا آغاز ہوا اورپھر اس کا عمل دخل بڑھا تو اندر سے آنے والی آوازیں بند ہوگئیں، تاہم وہ ختم نہ ہوئیں، فقط انہوں نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا۔
چنانچہ اب وہ خوابوں کا روپ دھار کر برآمد ہونے لگیں۔ بالخصوص ایسے خوابوں کی صورت میں جو کسی آنے ولے واقعہ کی پیش گوئی کرتے۔ ایسے خواب زیادہ تر بادشاہوں کو آتے تھے اوران کے باتدبیر وزیر، بادشاہ کی منشا کے مطابق ان کی تعبیریں فراہم کردیتے تھے۔ شدہ شدہ خوابوں کا عمل دخل بھی کم ہوا اور ’’اندر کی آوازیں‘‘ فنون لطیفہ میں منتقل ہوکر سنائی دینے لگیں۔ جولین جینز کے اس نظریے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے تخلیقی عمل میں سب سے زیادہ اہمیت آواز (آہنگ) کو دی ہے۔ ہندوؤں نے تو اپنی دیومالاؤں میں اس بات کا اظہار بھی کیا تھا کہ کائنات کی تخلیق موسیقی سے ہوئی تھی اورمغربی فکر نے لوگوس (Logos) کے حوالے سے متکلم لفظ کوہمیشہ بہت اہمیت دی ہے۔ بہرحال فکر کے اس خاص زاویے نے ’’متکلم لفظ‘‘ آواز یا آہنگ ہی کو تخلیق کاری کے سلسلے میں ایک اہم محرک مانا ہے۔
تخلیقی عمل کی وضاحت کے معاملے میں ہر تخلیق کار نے شخصی تجربے کی بناء پر اپنا ایک نظریہ توپیش کیا ہے لیکن جہاں ایک ہی نظریے کے متعدد علم بردار پیدا ہوئے ہیں، وہاں اس کے گرد ایک مکتب فکر ازخود مرتب بھی ہوگیا ہے۔ مثلاً جب کوئی تخلیق کار کہتا ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران اس کی باگ ڈور کسی ’’روحانی ہستی‘‘ کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے یا کوئی کہتا ہے کہ اس کے اندر کوئی جن ہے جو تخلیقی عمل کے دوران اس پر قابض ہوجاتا ہے یا کوئی ملکوتی نغمہ یا آہنگ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو فکری سطح پر یہ تمام تجربات اس بات پر ہی منتج ہوتے ہیں کہ تخلیق کاری میں اہم ترین کردار اس ’’عظیم ہستی‘‘ کا ہے جو مظاہر کے عقب میں موجود ہے اور جو تخلیق کار کواپنے اظہار کے لیے آلہ کار بناتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق تخلیق کاری کا عمل کشف والہام کا عمل ہے اور شاعرکی حیثیت تلمیذ الرحمن کی ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں دوسرا مکتب مادی جدلیات کا ہے جس کے مطابق تخلیق، کشف والہام کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ معروضی دنیا اور اس کے مسائل سے پھوٹتی ہے۔ شعری مواد نہ توپودے کی طرح زمین کے اندر سے نکلتا ہے اورنہ آسمان سے ٹپکتا ہے۔ اصلاً یہ معاشرے کی پیداوار ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں جگہ جگہ معاشی سطح کے نشیب وفراز پیدا ہوجاتے ہیں جو اس استحصالی روایت کا شاخسانہ ہیں جس کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ یہ نشیب وفراز معاشرتی زندگی کی چادر پر پڑنے والی ایسی سلوٹیں ہیں جنہیں ہموار کرنا بہت ضروری ہے۔ جدلیات کا عمل، تھیسس اور اینٹی تھیسس کے ٹکراؤ سے ہمشہ سنتھیسسSynthesis یا انضمام پر منتج ہوتا ہے اوریہ عمل جاری رہتا ہے تاآنکہ سلوٹیں ختم ہوجاتی ہیں اور ایک بے جماعت معاشرہ وجود میں آجاتا ہے۔ تاہم ان سلوٹوں کو دور کرنے کے لیے دیگر عوامل کے ساتھ ادب کا بھی ایک اہم رول ہے۔
چونکہ ادب عوام تک پہنچنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس لیے اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو معاشرتی سطح پر ابھری ہوئی سلوٹوں کو ہموار کرنا مشکل نہیں رہتا۔ غور کیجئے کہ مادی جدلیات کے اس مکتب نے تخلیق کاری کے عمل کو دیگر مقاصد کے حصول کے لیے محض ایک ذریعہ جانا ہے اوراس کی مقصود بالذات حیثیت کو اہمیت نہیں دی۔
تیسرا مکتب نفسیات والوں کا ہے۔ مادی جدلیات والوں کے سامنے تو سب سے بڑا قضیہ طبقاتی نشیب وفراز تھا جبکہ نفسیات والوں کے پیش نظر سب سے بڑا مسئلہ ’’اندر‘‘ کی وہ سلوٹیں ہیں جنہیں اگر دور نہ کیا جائے تو انسان نفسیاتی بحران کی اور بعض اوقات پاگل پن کی زد پر آجاتا ہے۔ ان سلوٹوں کوہموار کرنے کے لیے نفسیات والوں نے دیگر عوامل کے ساتھ تخلیقی عمل کو بھی بہت اہمیت بخشی ہے۔ مگر نفسیات کے مختلف نظریات کی چھوٹ پڑنے سے نفسیاتی مکتبہ فکر میں بھی تخلیقی عمل کی اہمیت کو مختلف زاویوں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ مثلاً فرائڈ نے سائکی کو تین حصوں پر مشتمل گردانا ہے۔ ان میں سب سے بڑا اور قدیم ترین حصہ IDہے جو جبلتوں پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ لاشعوری ہے اور انسان کو وراثت میں ملتا ہے۔ انسان کے اندر کی جبلتیں بالخصوص جبلت حیات اور جبلت مرگ اپنی فوری تسکین چاہتی ہیں اوراس معاملے میں کسی تکلف یا نقاب کو ناپسند کرتی ہیں۔
دراصل جبلتیں جھجک یا حیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں۔ وہ خواہش کی ننگی صورتیں ہیں۔ دوسری طرف انسانی سائکی کا ایک حصہ سپر ایغو ہے جووالدین سے حاصل کردہ اثرات کا مرقع ہونے کے علاوہ ضمیر کا اعلامیہ بھی ہے۔ اسے ہم ’’سوسائٹی کی آواز‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں جو جبلتوں کی ننگی یلغار کوناپسند کرتی ہے۔ ان کے عین درمیان انسانی ایغو ہے جو اڈ اور سپرایغو دونوں کی زد پر ہے۔ اڈ ایغو سے جبلتوں کی تسکین کا تقاضا کرتا ہے اور سپرایغو انہیں دبا دینے کی سفارش کرتا ہے۔ ایغو بے چارہ اپنے ان دونوں ’’مہربانوں‘‘ کو ناراض نہیں کرسکتا۔ لہٰذا تذبذب اور اضطراب کی زد پر آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں فنون لطیفہ اس کی امداد کوآتے ہیں اور تخلیقی عمل کی مدد سے جبلتوں کو ترفع (Sublimation) کے عمل سے گزارکر معاشرے کے لیے قابل قبول بنا دیتے ہیں۔
یہ فرائڈ کا نظریہ ہے مگر آڈلر اس طرح نہیں سوچتا۔ وہ کہتا ہے کہ سارا معاملہ تلافی یا Compensation کا ہے۔ جب انسان خارجی زندگی میں کسی حادثے، معاشی بدحالی یا شدید خرابی صحت کے باعث نارمل سطح سے نیچے گر پڑتا ہے تو اس کے اندر کا نظام اس کی تلافی کا بندوبست کرتا ہے۔ آرٹ اور ادب اس تلافی ہی کی صورتیں ہیں۔ ان دونوں کے مقابلے میں ژنگ کا کہنا ہے کہ انسان کے لاشعور کے عقب میں اس کا اجتماعی لاشعور ہے جو دراصل اس کی نسلی اور ثقافتی تجربات کا ایک گودام ہے۔ یہ تجربات کمپیوٹر کے نظام کی طرح نشانات کی گہری کھائیوں میں مقید ہوتے ہیں۔ ژنگ نے انہیں Archetypes کا نام دیا ہے۔ تخلیقی عمل کی کارفرمائی اس بات میں ہے کہ تخلیق کار، ایک لمحہ ارتکاز میں اس چھپے ہوئے خزانے کو مس کرے اور پھر اسے رنگ، سنگ سر یا لفظ میں منتقل کرکے پیش کردے۔ ان تینوں مکاتب فکر میں ایک یہ بات مشترک ہے کہ تخلیقی عمل اپنی خصوصی کارکردگی سے اندر کی نفسیاتی سلوٹوں کو ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے کا جو چوتھا مکتب فکر ’’جمالیاتی‘‘ ہے، اس مکتب سے کئی نام وابستہ ہیں جن میں کیرٹ، کروچے، کالنگ وڈ اور ویکو زیادہ اہم ہیں۔ جمالیاتی مکتب فکر کا موقف یہ ہے کہ تخلیقی عمل دراصل دومراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا اظہاریا Expression اوردوسرا ترسیل یا Communicationتخلیق کاری کے دوران خیال یا احساس تخلیق کار کے متخیلہ میں صورت پذیر ہوکر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے تخلیق کار کوجمالیاتی حظ حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جب اندر کی تکمیل یافتہ تخلیق آواز، سنگ، رنگ یا لفظ میں صورت پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ اصل تخلیقی عمل نہیں ہے۔ اس کی حیثیت بہرحال ثانوی ہی رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تک خیال یا احساس کو ہیئت یا فارم مہیانہ ہو، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کار کے اعماق میں واقعتاً کوئی تخلیقی عمل رونما ہوا بھی ہے کہ نہیں اوراگر رونما ہوا ہے توکیا وہ سچا تخلیقی عمل تھا یا محض شیخ چلی کا ایک خواب؟ لفظ، رنگ، سنگ یا سر میں منتقل ہونے پر ہی اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کے بارے میں کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ یہی معاملہ صوفیانہ یا عارفانہ تجربہ کا ہے۔ جب تک صوفی تخلیق کاری کے عمل سے اپنے روحانی تجربے کی تجسیم نہ کرے، یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ اس کا عارفانہ تجربہ کھرا اور سچا تھا؟ بعض لوگ صوفی کی کرامات کواس کی میزان قرار دیتے ہیں مگر اول توایک پہنچا ہواصوفی کرامات کو ایک کم تر فعل سمجھتا ہے۔ دوم خود کرامات سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ وہ عارفانہ تجربے سے گزرا بھی ہے۔ عارفانہ تجربہ کرامات کے عمل سے ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ شاید اسی لیے ہندوؤں کے ہاں یوگی کے مقابلے میں ویدانتی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
جہاں جمالیاتی مکتب فکر نے ترسیل کے مقابلے میں ’’اظہار‘‘ کو تخلیقی عمل کا اصل جوہر قرار دیا ہے، وہاں ’’اظہار‘‘ اور ’’ترسیل‘‘ کومساوی حیثیت دے کر ایک دوسرے سے مشروط قرار دینے کا نظریہ ان لوگوں نے اپنایا ہے جنہیں ایم ایچ ابرامز M.H. Abrams نے Expressive Theoriesکے نام لیواؤں میں شمار کیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تخلیق کاری کا محرک باہر کا کوئی عنصر نہیں بلکہ خودشاعر کی ذات ہے۔ اس نظریے کو زیادہ فروغ رومانی شعراء کے ہاں ملا، جنہوں نے شاعر کی روح کی خارجی زندگی کے Images میں تجسیم کو اہمیت بخشی۔ دوسرے لفظوں میں رومانی شعراء کے نزدیک تخلیقی عمل شاعر کے تصورات اورمحسوسات کے خارجی اظہار کی ایک صورت ہے۔
شاعر کی ذات کو مرکزی اہمیت کا حامل قرار دینے کا یہ نظریہ صورتیں بدل بدل کر درشن دیتا آیا ہے۔ بیسویں صدی میں اس نے مظہریت کے مکتب فکر کی صورت میں خود کو اجاگر کیا۔ مظہریت والوں کو شعور کے ناقدین بھی کہا گیا ہے اور ان کے مکتب فکر کو جنیوا اسکول کا نام ملا ہے۔ موقف ان لوگوں کا یہ ہے کہ تخلیقی عمل دراصل شعری تجربے کی موجودگی یا Isness پرتوجہ مرکوز کرنے کا نام ہے۔ ان کے مطابق تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار زمان و مکان سے منقطع ہوکر ایک ’’لمحہ‘‘ پر تمام و کمال مرتکز ہوجاتا ہے۔ یوں اسے اشیا ان کی اپنی اصل ساخت میں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ اس عمل کو انہوں نے Apocheکا نام دیا ہے جو تخلیق کار کے علاوہ اس نقاد کو بھی حاصل ہوتا ہے جو ایک متوازی تخلیقی عمل کی مدد سے خود بھی اس انوکھے تجربے سے لرزہ ہے، جس سے تخلیق کار گزرا تھا۔
اس مکتب فکر کے علی الرغم ایک وہ مکتب بھی قابل ذکر ہے جس نے تخلیق کو نہ تو کسی عقبی قوت یا Prime Mover کی عطا گردانا ہے اور نہ اسے کسی سامنے کے مقصد کے تابع کیا ہے۔ گویا Push اور Pull دونوں سے سے منقطع کرکے خودکفیل اور خودمختار جانا ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی کی بات کہی ہے۔ مثلاً ارسطو نے المیہ کے باب میں پلاٹ، کردار اور ڈکشن وغیرہ کی تخلیق کا انفراسٹرکچر قرار دے کر انہیں اہمیت بخشی تھی اور کانٹ نے تخلیق کاری کے سلسلے میں ’’مقصد‘‘ کو منہا کرکے ’’بے مقصدیت‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ تاہم اس مکتب فکر کو اصل فروغ بیسویں صدی میں ملا جب ایک طرف روسی ہیئت پسندوں اور دوسری طرف نئی تنقید والوں نے تخلیق کی فارم یا ہیئت کو اہمیت بخشی یعنی تخلیق کو خودمختار اور خود کفیل قرار دے ڈالا۔
روسی ہیئت پسند کہتے تھے کہ تخلیق ان لسانی پرزوں کی ایک خاص کارکردگی کا نام ہے جن میں Rhymeاور Rhythm زیادہ اہم ہیں۔ تخلیق کاری اس بات میں نہیں ہے کہ کسی خیال یا امیج کو تخلیق میں ملفوف کرکے پیش کیا جائے بلکہ اس بات میں ہے کہ تخلیق کو نامانوس یا Defamiliarise کردیا جائے۔ دوسری طرف نئی تنقید والوں نے کہا کہ تخلیق کے اجزائے ترکیبی اس کے لسانی پرزے نہیں بلکہ وہ عناصر مثلاً ابہام، تناؤ، رعایت لفظی، قول محال وغیرہ ہیں جن کے ٹکراؤ سے معنی آفرینی کے عمل کومہمیز لگتی ہے۔ ان دونوں کے نزدیک اصل اہمیت تخلیق کو حاصل ہے۔
بیسویں صدی میں تخلیقی عمل کی کارکردگی کو ساختیات اور پس ساختیات کے مکاتب نے اپنے طورپر پیش کیا ہے۔ ان مکاتب نے روسی ہیئت پسندوں اور نئی تنقید والوں کی اس بات کو تو مان لیا کہ تخلیق کا ایک اپنا اسٹرکچر ہوتا ہے مگراس بات کو نہ مانا کہ تخلیق ایک ایسی خودکفیل اور خودمختار اکائی ہے جس کا تخلیق کے باہر کی دنیا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ساختیات والوں کا یہ موقف تھا کہ تخلیق کا انفراسٹرکچر محض بالائی سطح کے پرزوں یا تخلیق کے عناصر کی کارکردگی تک محدود نہیں بلکہ تخلیق کی ’’گہری ساخت‘‘ کی کارکردگی سے عبارت ہے۔ اس گہری ساخت میں انہوں نے شعریات Poetics کی موجودگی کو نشان زد کیا جو کوڈز اور کنونشنز پر مشتمل ہونے کے باعث پوری انسانی ثقافت سے جڑی ہوئی ہے۔
تخلیقی عمل شعریات کے تخلیق میں منکشف ہونے کا نام ہے۔ گویا تخلیق ایک ایسا اسٹرکچر ہے جو مصنف کے اظہار ذات کا وسیلہ نہیں بلکہ شعریات کے منکشف ہونے کا نام ہے اور نقاد یا قاری کا کام یہ ہے کہ شعریات کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالے یعنی دیکھے کہ اس عمل سے کس طرح تخلیق مرتب اور مدون ہورہی ہے۔
اس ضمن میں ساختیاتی فکر نے سوسیور کے اس موقف سے فائدہ اٹھایا کہ زبان کا سسٹم (یعنی لانگ) اس کی گفتار یا پارول میں ایک برقی رو کی طرح دوڑ رہا ہوتا ہے۔ اگریہ سسٹم منہا ہوجائے تو گفتار ’’شور‘‘ میں تبدیل ہوجائے۔ ساختیاتی مکتب نے کہا کہ شعریات بطور ایک ثقافتی سسٹم تخلیق کے تاروپود میں موجود ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنی کارکردگی سے تخلیق کو صورت پذیر بھی کرتی ہے۔ قاری کا کام تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا اور شعریات کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالنا ہے اوریہ عمل بجائے خود تخلیقی عمل کا حصہ ہے کیونکہ قاری اپنی قرات سے تخلیق کی تخلیق مکرر کرکے دراصل تخلیق کو مکمل کرتا ہے۔
تخلیقی عمل کے بارے میں مختلف تخلیق کاروں نے اپنے اپنے تجربات کی بنا پر کیا کہا یا مختلف مکاتب نے تخلیقی عمل کے باب میں کیا کیا نظریات مرتب کیے، ان کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اب یہ دیکھنے کی کوشش ہونی چاہئے کہ کیا یہ مختلف تجربات اور نظریات باہم مل کر ایک ساخت یا اسٹرکچر بھی بن پائے کہ نہیں؟ اس سلسلے میں ایک اہم نام گراہم ویلس کا ہے جس کے نظریات کو سامنے رکھ کر کیتھرین پیٹرک نے تخلیقی عمل کے اسٹرکچر کو نشان زد کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیتھرین پیٹرک نے لکھا تھا کہ تخلیقی عمل اصلاً چار مراحل یا Steps پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلا مرحلہ تیاری یعنی Preparation ہے۔ دوسرا مرحلہ پرورش یعنی Incubation ہے۔ تیسرا تنویر یعنی Illumination اور چوتھا تصدیق یا Verification ہے۔
’’تیاری‘‘ سے کیتھرین پیٹرک کی مراد وہ معلومات یا تاثرات ہیں جوتخلیق کار باہر کی زندگی سے حاصل کرتا ہے اور جو ایک گورکھ دھندہ سا بن کر اسے بے معنی اور مردنی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ تب وہ اس ساری لاینحل صورت حال سے منقطع ہوکر زندگی کے دوسرے معاملات میں کھوجاتا ہے۔ مراد یہ کہ اصل مسئلہ کو بھول جاتا ہے۔ تیسرا مرحلہ وہ ہے جب بھولا ہوا مسئلہ حل ہوکر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ حل اچانک ایک کوندے کی طرح آتا ہے اور تخلیق کار کے لیے انتہائی مسرت کا باعث بنتا ہے۔ چوتھا مرحلہ وہ ہے جب تخلیق کار اپنے تنقیدی شعور کی مدد سے تخلیق پر نظر ڈالتا ہے اوراس کی نوک پلک سنوارتا ہے۔ یہ مرحلہ بیک وقت تخلیق کا امتحان بھی ہے کہ دیکھیں وہ سچی تخلیق ہے یا نہیں اور تخلیق نو کا مرحلہ بھی کیونکہ تخلیق کار اس مرحلے سے گزرتے ہوئے اپنی تخلیق کے مدھم خطوط اور رنگوں کو روشن کرکے انہیں اصل تجربے کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
غورکیجئے کہ تخلیق کاری کی ان چاروں مراحل کا سامنا بعض مقدس ہستیوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً گو تم کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ جب زندگی کے ’’دکھ‘‘ کے مسئلہ کو حل نہ کرسکا توبڑ کے سائے میں جا بیٹھا یعنی اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا۔ پھر جب وہ خود میں پوری طرح کھو گیا اورمسئلہ اس کے ذہن سے محو ہوگیا تواچانک ایک روز روشنی کے ایک کوندے نے اسے سمادھی سے جگایا اور وہ اس کوندے کی ’’تصدیق‘‘ کرنے کے لیے خلق خدا کے درمیان جاپہنچا۔ یہ اوراسی طرح کے دیگر واقعات تخلیقی عمل کے مختلف مراحل ہی سے مشابہ ہیں اور بتاتے ہیں کہ تخلیقی عمل اکہرا عمل نہیں بلکہ مختلف اعمال یا مراحل سے عبارت ایک ساخت یا اسٹرکچر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مراحل ایک خاص ترتیب میں نمودار ہوں تو تخلیقی عمل باثمر ثابت ہوتا ہے ورنہ ضائع ہوجاتا ہے۔
آج سے کم وبیش پچیس برس پہلے میں نے ایک کتاب لکھی تھی ’’تخلیقی عمل۔‘‘ اس کتاب میں تخلیقی عمل کے اسٹرکچر کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگریہ دریافت استخراجی عمل کے بجائے استقرائی عمل کی مدد سے کی گئی۔ اس استقرائی عمل کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ ہر چند گراہم ویلس کی پیش کردہ تخلیقی عمل کے مراحل کی ’’ترتیب‘‘ اپنی جگہ درست ہے مگراس میں بعض مراحل نشان زد ہونے سے رہ گئے ہیں۔ اور تخلیقی عمل کے بعض پرتوں کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ ان مخفی پرتوں کو روشنی میں لانے سے تخلیقی عمل کی تقسیم زیادہ آسانی سے ہوسکتی ہے۔
کتاب لکھتے ہوئے میں سب سے پہلے حیاتیات کی طرف متوجہ ہوا۔ میں دیکھنا یہ چاہتا تھا کہ حیاتیاتی سطح پر تخلیقی عمل کا وظیفہ کس نوعیت کا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ’’زندگی‘‘ کی اولین اینٹ خلیہ یا Cellہے اور زندگی کی بوقلمونی اس خلیے کی کارکردگی ہی کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا اصل تخلیقی عمل اس خلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے ہی سے سامنے آسکتا ہے۔ جلد ہی اس پر یہ انکشاف ہوا کہ خلیہ بجائے خودایک کائنات اصغر ہے۔ اس کے اندر پروٹوپلازم ایک ایسے شجر کے مانند ہے جس کی شاخوں (یعنی کروموسومز) پر پھل (یعنی جینز Genes) لٹکے ہوئے ہیں۔ اصل تخلیق کاری جین کے اندر کہیں ہوتی ہے۔
جلد ہی میرے علم میں یہ بات آئی کہ جین دوAcidsیعنی نیوکلوایسڈ اور ایمنوایسڈ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نیوکلوایسڈ کے دو حصے ہیں۔ ایک DNAدوسرا RNA۔ ان میں سے DNAوہ بلیوپرنٹ یا سسٹم ہے جس کے مطابق ایمنوایسڈ کی فیکٹریاں صورت گری کرتی ہیں۔ کیا یہی عمل ہے جو DNAکے فراہم کردہ بلیوپرنٹ کے مطابق انجام پاتا ہے؟ اس وقت میرے پیش نظر سب سے بڑا سوال یہی تھا۔ چنانچہ میں سوچتا رہا کہ اگر خلیہ کا تخلیقی عمل فقط یہی ہے توپھر اسے یونانی فلاسفروں کے نظریہ نقل مراد (Mimesis) سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کا لب لباب یہ تھا کہ نظر آنے والی حقیقت ’’اصل حقیقت‘‘ کی محض ایک نقل (عکس، نمائندگی، امیج) ہے مگرجلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ جین کے اندر بعض اوقات ایک جست بھی نمودار ہوتی ہے جو DNAکے بلیوپرنٹ کو بدل دیتی ہے۔ حیاتیات نے اس اچانک تبدیلی کو تقلیب یا Mutationکہا ہے۔
میرے لیے یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا کہ زندگی نپے تلے قدموں سے چلتے چلتے اچانک ایک جست سی لگاتی ہے مگرکچھ پتہ نہیں کہ وہ کب جست لگائے گی اوراس جست کی قوت کس قدر ہوگی۔ یہ تھی وہ بات جسے لے کر میں آگے بڑھا۔ میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ کیا انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی تخلیقی عمل کا یہی انداز کار فرما ہے؟ اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ میں جست کی اس کارکردگی کواجاگر کرنے کے لیے میں نے سب سے پہلے معاشرتی زندگی پر ایک نظر ڈالی، جس نے قدیم زمانے سے اب تک دو صورتوں میں خود کو نمایاں کیا ہے۔ دائرہ کی صورت میں یا پھر سیدھی لکیر کی صورت میں۔ جب معاشرہ دائرے میں گھومتا ہے توتاریخ کی نفی ہوجاتی ہے، فرد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور زندگی کا کارواں روایت کی گہری کھائیوں میں چلنے لگتا ہے۔ دوسری طرف جب معاشرہ سیدھی لکیر پر چلتا ہے توتاریخ وجود میں آجاتی ہے۔ روایت کی حد بندیاں ٹوٹتی ہیں اور فرد آزاد ہوجاتا ہے، تاہم یہ نیا دائرہ پہلے دائرہ کے مقابلے میں زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔ یہی معاشرے کا تخلیقی عمل بھی ہے مگر اس میں اصل کارکردگی اس ’’جست‘‘ کی ہے جو دائرہ کو کشادہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور جو ہمیشہ کسی نہ کسی غیرمعمولی فرد یا گروہ کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔
یہ فرد یا گروہ ایک طرح کی تقلیب یا Mutationہے جو ’’دائرے میں گھومتے ہوئے سماج‘‘ کے اندر کہیں رونما ہوتی ہے۔ مراد یہ کہ نرگس ہزاروں سال تک اپنی بے نوری میں لپٹی رہتی ہے مگرپھر اچانک دیدہ ور پیدا ہوجاتا ہے جو ایک نئے زاویے سے ماحول کو دیکھنے لگتا ہے۔
تخلیقی عمل میں تقلیب کے اس مرحلے کوجب میں نے دیومالا یا اسطورہ پر منطبق کیا تو مجھے تخلیقی عمل کے ایک اورمرحلے سے بھی آگاہی ہوئی جو تقلیب سے ذرا پہلے نمودار ہوتا ہے۔ بے شک تقلیب اچانک نمودار ہوتی ہے لیکن اس اچانک ورود سے پہلے ’’طوفان‘‘ کا ایک مرحلہ بھی آتا ہے جو بالآخر نراج Chaosیا بے ہیئتی پر منتج ہوتا ہے۔ اس مرحلے کا احساس مجھے دیومالا کی ان کہانیوں سے ہوا جو طوفان یا Floodکی کہانیوں سے موسوم ہیں اور جو ہندوستان ’سمر‘ مصر اورکریٹ کی اساطیر میں اتنی مماثلتوں کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کے عقب میں ایک پرٹو فلڈ متھ Proto Flood Mythکی باآسانی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔
لب لباب ان کہانیوں کا یہ ہے کہ نوح یا منویامیمفزیامائی نوس کی کشتی ایک بیج کی طرح تھی جس میں زندگی کے سارے عناصر جمع ہوگئے تھے۔ یہ بیج ایک طوفانی سمندر کے تھپیڑے سہ رہا تھا، گویا وہ اپنے سخت چھلکے کو نرم کررہا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ چھلکا ٹوٹ پھوٹ گیا۔ گویا نراج یا بے ہیئتی کا عالم وجود میں آگیا اور تب اس بے ہیئتی سے ’’زندگی‘‘ ایک جست بھر کر سامنے آگئی، جس سے ایک نئے عالم کا ظہور ہوا۔ یوں مجھے محسوس ہوا کہ تخلیقی عمل میں ’’تقلیب‘‘ سے پہلے ’’نراج‘‘ کا مرحلہ لازمی طورپر آتا ہے۔
اساطیر کے مطالعہ کے بعد میں ’’تاریخ‘‘ کے میدان میں تخلیقی عمل کے مندرجہ بالا پیٹرن کی توثیق کا طالب ہوا۔ میں نے دیکھا کہ تاریخ نپے تلے قدموں سے نہیں بلکہ چوکڑیوں میں اپنا سفر طے کرتی ہے۔ مثلاً ۶۰۰ ق م کے لگ بھگ اس نے ایک ایسی ہی چوکڑی بھری تھی جس سے ایک نئی دنیا وجود میں آگئی تھی مگراس جست سے پہلے کئی سوبرس کا طوفانی دور آیاتھا جس میں بحیرہ روم کے جزائر، عراق کے کوہستانی علاقوں اور لیبیا کے ریگستانوں سے یاجوج ماجوج نکل آئے تھے جنہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اسی دوران آریاؤں نے ایشیا کی ’’جوف الارض‘‘ سے نکل کر ہندوستان کی دراوڑی تہذیب کے پرخچے اڑا ئے اور سائبیریا کے خانہ بدوشوں نے چین کی چاؤ سلطنت کو لرزہ براندام کردیا۔
اس سارے دور کے بعد جو دراصل ’’طوفان‘‘ کا مرحلہ تھا، زرتشت، بدھ، کنفیوشس، ار شمیدش اور سقراط، افلاطون اور ارسطو ایسی خلاق ہستیوں کا جنم ہوا جنہوں نے دنیا کو ایک نیامدار عطا کردیا۔ اصلاً یہ تقلیب کی ایک صورت تھی۔ دوسری تخلیقی جست نشاۃ الثانیہ کی تھی جس نے پندرہویں صدی عیسوی کو ایک نئی تقلیب سے آشنا کیا مگراس سے قبل ایک ہزار برس کا تاریک دور بھی گزرا تھا جس کا پہلا حصہ ’’انجماد‘‘ اور دوسرا شکست وریخت کا تھا۔
چنانچہ مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ نراج کے بھی دراصل تین جصے ہیں۔ پہلا جب ’’انجماد‘‘ طاری ہوجاتا ہے (علامہ اقبال کی زبان میں اسے طاؤس ورباب کا دور کہنا چاہئے) اور دوسرا جو ’’تلوار وسناں‘‘ کادور ہے جس میں عناصر ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ تیسرا بے ہیئتی کا دور ہے جس میں عناصر کی الگ الگ پہچان معدوم ہوجاتی ہے۔ تب اس بے ہیئتی کے عالم سے ایک نئی ہیئت جست لگاکر باہر آجاتی ہے۔
’’تاریخ‘‘ کے اس عمل میں تیسری مثال بیسویں صدی کی ہے جس میں مغربی تہذیب عروج پر پہنچنے کے بعد انجماد کی نذر ہوئی، پھر شکست وریخت کا دور آیا۔ یہ شکست و ریخت بالائی سطح پر دو عظیم اور متعدد چھوٹی چھوٹی جنگوں میں اور داخلی سطح پر معاشرتی قدروں کے انحطاط کی صورت میں نمودار ہوئی تاآنکہ ایک طرح کی بے ہیئتی کا عالم وجود میں آگیا، جسے دیکھ کر مغرب کے مفکرین تک محسوس کرنے لگے کہ نظم وضبط کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ تب اس بے ہیئتی سے ایک نئی تقلیب کے آثار ہویدا ہوئے۔ ایلون ٹافلز نے اسے تیسری لہر یا Third Wave کا نام دیا ہے۔ بعض نے اسے نیا عالمی نظام یعنی New World Order کہا ہے اور بعض دوسروں نے اسے ایک نئی ساخت سے موسوم کیا ہے جو مرکز کے بجائے بے مرکزیت سے عبارت ہوگی۔
۱۹۷۰ء میں ’’تخلیقی عمل‘‘ لکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا تھا کہ طبیعیات، علم الانسان، نفسیات اور دوسرے علوم کے ذریعے جو انکشافات ہورہے ہیں وہ بالآخر ایک نئے زاویہ نگاہ پر منتج ہوں گے مگر اب بیسویں صدی کے آخری ایام میں یہ زاویہ نگاہ واضح ہوگیا ہے اور صاف نظرآنے لگا ہے کہ یہ تقلیب کی ایک ایسی صورت ہے جس سے ایک نئے دور کا آغاز ہونے لگا ہے۔ میں نے اس نئے دور کے بارے میں اپنے ایک مضمون ’’اکیسویں صدی‘‘ میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف اول کا زمانہ بڑی بڑی منظم سلطنتوں کا دور ہونے کے باعث ’’نظم‘‘ سے مشابہ تھا جس کی ہر لائن بلکہ ہر لفظ پوری نظم میں اس طور فٹ ہوتا ہے جیسے مشین میں پرزے فٹ ہوتے ہیں مگر بیسویں صدی کا نصف آخر غزل سے مشابہ نظرآنے لگا ہے جس کے مختلف اشعار میں ایک صوتی ربط یا Moodکے علاوہ کوئی معنوی ربط نہیں ہوتا۔
مطلب یہ کہ غزل کا کوئی ایک مرکزہ نہیں ہوتا بلکہ یہ متعدد مراکز کو گویا ہار میں پروکر پیش کرتی ہے، نیز اس کے مختلف اشعار کے درمیان عدم تسلسل Discontinuityکا ہمیشہ احساس ہوتا ہے۔ ویسے بھی لفظ ’’نظم‘‘ نظم وضبط کا اعلامیہ ہے اورلفظ ’’غزل‘‘ سے غزال اورپھر اس کی چوکڑیوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ چنانچہ جو تیسری لہر نظرآنے لگی ہے، اس میں سلطنتیں ٹوٹ کر ایک ایسی نئی ساخت میں بدل رہی ہیں جو بے مرکز ہوگی۔ اس کا ثبوت بین الاقوامی کارپوریشنیں ہیں جن کا مرکزی دفترکسی ایک ملک کی سرزمین پر نہیں بلکہ جو آکاس بیل کی طرح (یعنی جڑ کے بغیر) پوری دنیا پر چھا رہی ہیں۔
عالمی تہذیب کے بعض دیگر آثار بھی ہویدا ہیں۔ آج کی ڈش انٹینا تہذیب نے دنیا کے موسموں کی جانکاری تک کو ایک ڈھیلی ڈھالی اکائی میں تبدیل کردیا ہے اور زبانوں، ملبوسات اور رہن سہن کے آداب تک کو ایک ایسی ساخت عطا کردی ہے جس میں مختلف ممالک کے کلچر اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے باوجود ایک عالمی کلچر کا حصہ بن رہے ہیں۔ کرہ ارض ہی نہیں کائنات اور زندگی کے بارے میں بھی ایک نیا زاویہ نگاہ ابھر رہا ہے جو سابقہ ’’مرکزیت‘‘ کی جگہ کمپیوٹر ایسی ’’لامرکزیت‘‘ کواہمیت دے رہا ہے۔ پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ غور کیجئے کیا یہ تقلیب کی صورت نہیں ہے؟
مختلف علوم اور نظاموں کے مطالعہ سے میں نے ’’تخلیقی عمل‘‘ کی جس ساخت کا نظارہ کیا، اسے فنون لطیفہ میں بھی کارفرما دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ فنون لطیفہ (ادب سمیت) کے تخلیقی عمل میں پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں تصادم کا آغاز ہوتا ہے۔ کیتھرین پیٹرک نے اسے معلومات حاصل کرنے کا دور کہا تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ انسانی سائیکی ایک حوض کی طرح ہے جس کی سطح پر حسیات کی مدد سے حاصل کردہ تاثرات ہمہ وقت گر رہے ہوتے ہیں اور سطح پر تنکوں اور پتوں کی طرح تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر حوض کی تہہ میں پہلے سے ایک ایسا مواد موجود ہوتا ہے جو لاکھوں برسوں پر پھیلے ہوئے انسانی تجربات پر مشتمل ہے یعنی وہ تجربات جو ہرچند کہ عصری تجربات ہی کی صورت میں انسانی سائیکی میں آگرے تھے مگرپھر اس کی تہہ میں بیٹھ گئے تھے۔
تخلیق کار کی زندگی میں تخلیق کا لمحہ اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کوئی واقعہ کسی چٹان کی صورت سائیکی کے حوض میں اچانک آگرتا ہے اور حوض میں ایک ایسا طوفان سا آجاتا ہے کہ سطح کا مواد تہہ کے مواد سے ٹکراکر ایک گرداب آسا صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال امرت منتھن کہانی ہے، جس کے مطابق امرت یا آب حیات حاصل کرنے کے لیے دیوتاؤں (مثبت عناصر) اور راکشکوں (منفی عناصر) نے مل جل کر دودھ کے سمندر کو بلویا تھا اور پھر جب دودھ بے ہیئت ہوگیا تھا تو اس سے ’’ماکھن‘‘ ایک جست کے ساتھ اچانک نمودار ہوگیا تھا۔
گویا تخلیقی عمل میں پہلا مرحلہ طوفان کا ہے، جس میں عناصر ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، پھر بے ہیئتی کا مرحلہ آتا ہے، جسے ارتکاز، مراقبہ، خودفراموشی یا Incubation کا دور کہنا چاہئے اورپھر جست کا مرحلہ جو اصلاً تقلیب کی ایک ایسی صورت ہے جس میں تخلیق ایک منفردا ور انوکھے وجود میں ڈھل کر نمودار ہوتی ہے۔ اس کے بعد تخلیق مکرر کا دور ہے جس میں قاری عمل معکوس میں مبتلا ہوکر نراج کے اس عالم تک رسائی پاتا ہے جس میں سے تخلیق ایک زقند لگاکر باہر آگئی تھی۔
عہدنامہ قدیم میں لکھا ہے کہ خداوند نے کائنات کو تخلیق کرنے کے بعداس پر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’اچھا‘‘ ہے۔ ’’اچھا ہے‘‘ کہنا اصلاً قرات کا عمل ہے اور خودشناسی کے زمرے میں آتا ہے مگر خودشناسی کا یہ عمل تخلیق کاری سے ہٹ کر کوئی عمل نہیں ہے بلکہ تخلیق کاری ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ دراصل تخلیق عملی کو مکمل کرتا ہے کیونکہ جب تک تخلیق کار، تخلیق میں ظاہر ہونے کے بعد اپنی دونوں حیثیتوں کا ادراک کرکے تخلیقی عمل کو ایک اکائی کے طورپر محسوس نہیں کرے گا، تخلیق لخت لخت حالت میں رہنے کے باعث نامکمل ہی رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرأت کا عمل صارف یا خوشہ چین کی کارکردگی کا عمل نہیں بلکہ تخلیقی عمل ہی کا ایک اہم حصہ ہے۔
بے شک تخلیقی عمل میں آہنگ کو بڑی حیثیت حاصل ہے مگریہ آہنگ کوئی غیرارضی شے یا ہستی نہیں جو تخلیق کار کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے بلکہ وہ آواز ہے جو تخلیق کار کے اندر کی تخلیقی مشین کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے اورپھر کچے مواد کی تقلیب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اصلاً سارا کچا مواد تخلیق کار کے بطون میں موجود ہوتا ہے مگر جب وہ کسی حادثہ، سانحہ یا کرب یا موجودی فلاسفروں کی زبان میں کسیCrisisسے گزرتا ہے تواس کے اندر گویا صوراسرافیل جاگ اٹھتا ہے جو اصلاً اس کی تخلیقی مشین کے چلنے کی آواز ہے۔ یہ آواز سب سے پہلے صورتوں کو توڑتی ہے، ان کے ریزوں کو باہم آمیز کرتی ہے، ان کا ایک ملغوبہ سا بناتی ہے اورپھر اسے نئی صورتوں میں ڈھال دیتی ہے۔ اصل چیز صور اسرافیل ہے جو بیک وقت توڑتا بھی ہے اور تخلیق بھی کرتا ہے۔ بلکہ خالق اور تخلیق کی دوئی سے ماورا ایک ایسا تفاعل ہے جس کا ایک رخ ’’غائب‘‘ اور دوسرا ’’ظاہر‘‘ کی طرف ہے۔ ایک رخ مجسم بے ہیئتی اور دوسرا مجسم ’’ہیئت‘‘ ہے۔ یہی آواز یا آہنگ یا نغمہ تخلیق کا مواد بھی ہے اور مواد کی ایک نئی صورت گری بھی۔
تاہم مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو تخلیقی عمل ایک ساخت ہے جس کا پیٹرن تقلیب کی وقتاً فوقتاً کارفرمائی سے اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ ہر بار اس طاقت میں ایک نیا رنگ شامل ہوتا ہے توایک نئی شعری تخلیق، نیا تصویری پیکر یا مجسمہ یا ایک نئی دنیا وجود میں آجاتی ہے۔ پھر یہ ساخت اگلی تقلیب کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ ایک ایسی تقلیب جو سارے منظر نامے کو ایک نیا مدار عطا کردیتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔
میں نے اپنی کتاب تخلیقی عمل (۱۹۷۰ء) میں استقرائی انداز کی مدد سے تخلیقی عمل کی جو ساخت پیش کی، وہ حیاتیات، معاشرہ، متھ اور تاریخ کے مطالعہ سے مرتب کی تھی۔ پھر میں نے اس کا اطلاق فنون لطیفہ پر کیا۔ ۱۹۹۵ء تک آتے آتے اس ساخت کی کارکردگی مجھ پر مزید واضح ہوئی۔ پچھلے دنوں تخلیقی عمل کے بارے میں اٹھائے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے جو باتیں کہیں، وہ تخلیقی عمل کے بارے میں میرے تازہ ترین موقف کو پیش کرتی ہیں لہٰذا اس مضمون کا خاتمہ انہیں باتوں کے اختصار مکرر پر کرتا ہوں۔
ادب کے تخلیقی عمل میں تین کردار حصہ لیتے ہیں۔ تخلیق کار، تخلیق اور قاری! عام تاثر تویہ ہے کہ تخلیق کار ایک کاریگر کی طرح کچے مواد سے کوئی نئی اور انوکھی چیز بناتا ہے جس کی قیمت کا تعین اس کا قاری یا صارف کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کار اور اس کی تخلیق کا رشتہ وہ نہیں ہے جو ایک کاریگر اور اس کی تخلیق کردہ شے میں ہوتا ہے بلکہ وہ رشتہ جو گرائمر یا لسانی سسٹم کا تحریر سے ہے۔ سوسیور نے کہا تھا کہ پارول (یعنی گفتار یا تحریر) میں لانگ جذب ہوتی ہے۔ اگریہ لانگ بطور سسٹم موجود نہ ہو تو تحریر مہمل ہو جائے گی۔ مگرپارول کے مظاہرہ کے بغیر یہ نظر نہیں آسکتی بلکہ ثابت تک نہیں ہوسکتی۔
دوسرے لفظوں میں خود اپنے ’’ہونے‘‘ کا اثبات کرنے کے لیے لسانی سسٹم مجبور ہے کہ اپنے گرد پارول کا ایک پیچ درپیچ نظام کھڑا کرے۔ اس بات کا اطلاق پوری کائنات پر بھی ہوسکتا ہے۔ حقیقت اولیٰ، کثرت کے مظاہر میں اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ لہٰذا کثرت کا عالم فریب نظرنہیں ہے۔ وہی رشتہ ادب کے خالق کا اس کی تخلیق سے ہے۔ لہٰذا ادب تخلیق کرتے ہوئے مصنف اپنے سے الگ کوئی چیز تخلیق نہیں کرتا بلکہ خود ہی کو تخلیق میں منقلب کرکے اپنی پہچان کراتا ہے۔ کچھ یہی حال تخلیق کار اور قاری کے باہمی رشتے کا بھی ہے۔ ادیب خود ہی اپنی تخلیق کا پہلا قاری ہے۔ وہ بیک وقت قاری بھی ہے اور تخلیق کار بھی۔ وہ تخلیق کے بے نام، بے رنگ اور بے ہیئت کچے مواد کو رنگوں اور صورتوں میں ڈھال کر دراصل اس مواد ہی کی پہچان کراتا ہے۔ اسی لیے ادیب تلمیذ الرحمن ہے کہ وہ کائناتی سطح کے تخلیقی عمل ہی کا تتبع کرتا ہے اور کثرت کی حامل کائنات کے علی الرغم فنی سطح پر ایک کائنات دیگرکووجودمیں لاتا ہے۔
رہی تخلیق تو اس کی کارکردگی بھی غیرمعمولی ہے۔ جب مصنف تخلیقی عمل کے دوران نراج (Chaos) کے مرحلے سے گزرتا ہے تو خالق اور تخلیق کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ تب تخلیق کاری کا عمل مصنف کی گرفت سے آٓزاد ہوکر خود ’’تخلیق‘‘ کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ گویا تخلیق ایک طرح کے کیمیاوی عمل میں ڈھل کر خودکفیل ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے لیے خودراستہ تراشنے لگتی ہے۔ صحرا نوردوں کا کہنا ہے (اورمرزا ادیب اس کی توثیق کریں گے) کہ جب صحرا میں کوئی راستہ بھول جائے تواسے اونٹنی کی مہار ڈھیلی چھوڑ دینی چاہئے تاکہ اونٹنی خود راستہ تلاش کرے۔ بالکل یہی کچھ ادب میں ہوتا ہے۔ جب ادیب تخلیق کاری کے عمل میں مبتلا ہوتا ہے تومہار اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور تخلیق خودمختار ہوکر آگے بڑھنے لگتی ہے۔ مگریہ بہرحال ایک لمحہ ہے جس کے فوراً بعد تخلیق کار کے اندرکا قاری، تخلیق کاری کے عمل میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ بیک وقت حقیقت کے دونوں رخوں کو دیکھنے پر قادر ہوتا ہے یعنی اس رخ کو بھی جو بے نام، بے رنگ اور بے ہیئت ہے اوراس رخ کو بھی جو رنگوں اور شبیہوں میں ڈھل کر صورت پذیر ہورہا ہوتا ہے۔
’’قاری‘‘ باہر کی کوئی ہستی نہیں بلکہ تخلیق کار ہی کا منقلب روپ ہے۔ اس کا سب سے بڑا کام اس ’’زخم‘‘ کو باقی رکھنا ہے جو تخلیقی عمل کے پہلے ہی وار سے حقیقت کے بدن پر لگا تھا۔ اسے آپ Rupture یا شگاف یا کھڑکی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں سے تخلیقی مواد بہہ کر صورت پذیر ہوتا ہے یا جس میں تخلیق کار، تخلیق کے لاوے کو محسوس کرپاتا ہے اوراس پر حالت جذب طاری ہوجاتی ہے۔ موجودیت والوں کا کہنا ہے کہ اس نظارے سے ناظر پر بے معنویت کا عالم چھا جاتا ہے اور وہ متلی کی کیفیت اور اکلاپے کے کرب انگیز احساس کی زد پر آجاتا ہے۔ لیکن تخلیقی عمل میں یہ نظارہ حالت جذب کا باعث ہے۔
فلاسفر اور سائنس دان اپنے اپنے انداز میں اس ’’زخم‘‘ کو مندمل یا ’’شگاف‘‘ کو بھر دینا چاہتے ہیں تاکہ یکتائی بحال ہوسکے مگر تخلیق کار اس زخم کو باقی رکھنا چاہتا ہے تاکہ تخلیق کاری کا وہ عمل جاری رہ سکے جو اصلاً وحدت کے کثرت میں منقلب ہونے کا ایک مسلسل وظیفہ ہے۔ اس کے نزدیک یہ کائنات فریب نظر نہیں ہے۔ اس کا وجود حقیقی بھی ہے اور ناگزیر بھی، کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو پھر حقیقت کا اولین رخ نظروں سے اوجھل ہی رہے۔ تاہم اس ایک بات کی بہ تکرار وضاحت ضروری ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران زخم، شگاف یا کھڑکی کو کھلا رکھنا تخلیق کار کے اس منقلب روپ ہی کا کام ہے جسے ’’قاری‘‘ کا نام ملا ہے۔