تیرے گا فضا میں جو سمندر نہ ملے گا
تیرے گا فضا میں جو سمندر نہ ملے گا
دل سا بھی زمانے میں شناور نہ ملے گا
ساحل سے تو اندازۂ طوفاں بھی ہے دشوار
تہ میں جو نہ اترو گے تو گوہر نہ ملے گا
وابستہ ہے اس بزم سے ہی گھر کا تصور
اٹھ جائے گی جب بزم تو پھر گھر نہ ملے گا
پرواز خلاؤں میں مبارک تمہیں لیکن
اک بار بکھر کر تو یہ پیکر نہ ملے گا
سر پھوڑنے والے رہیں واللہ سلامت
کچھ دن میں عبادت کو بھی پتھر نہ ملے گا
ہر ذرہ ہے فردوس نظر حد نظر تک
بیدار نہ ہونا کہ یہ منظر نہ ملے گا
سیراب جو ہیں ان کی ہوس اور بڑھی ہے
اس بھیڑ میں پیاسوں کو سمندر نہ ملے گا
تم لطف ملاقات کو خوابوں میں بسا لو
یہ لمحہ مسرت کا بچھڑ کر نہ ملے گا
ہر شعر میں اظہار سے احساس ہم آغوش
اس دور میں ساحرؔ سا سخن ور نہ ملے گا