طے شدہ موسم
مسافر ہوئے پھر اک اندھے سفر کے
پتہ طے شدہ موسموں کا
کہیں کھو گیا ہے
بڑے شہر کے اک کلب میں
دیوالی مناتے ہوئے
کل کسی نے کہا تھا
سنما کے پردے
کئی تیج تیوہار میلے سمیٹے ہوئے ہیں
تمہیں فکر کیسی
یہ کیوں رنگ چہرے کا پھیکا پڑا ہے
تمہیں سست قدموں پہ نادم ہوئے تھے
تمہیں کو ہوس تھی
کہ رفتار قابو میں کر لیں خلائیں کھنگالیں
گئے موسموں کا جنازہ اٹھائے
کہاں جا رہے ہو
کوئی ابن مریم نہ ہاتھ آ سکے گا
چلو اس کو مٹی کے نیچے دبا دیں
یہی آنے والوں کے حق میں
مناسب رہے گا