تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا
تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا
اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا
آنکھوں میں خیالات میں سانسوں میں بسا ہے
چاہے بھی تو مجھ سے وہ جدا ہو نہیں سکتا
جینا ہے تو یہ جبر بھی سہنا ہی پڑے گا
قطرہ ہوں سمندر سے خفا ہو نہیں سکتا
گمراہ کئے ہوں گے کئی پھول سے جذبے
ایسے تو کوئی راہنما ہو نہیں سکتا
قد میرا بڑھانے کا اسے کام ملا ہے
جو اپنے ہی پیروں پہ کھڑا ہو نہیں سکتا
اے پیار ترے حصے میں آیا تری قسمت
وہ درد جو چہروں سے ادا ہو نہیں سکتا