تفسیر حیات

دور سے بھاگتے اور بڑھتے چلے آتے ہیں
جذبۂ شوق میں ڈوبے ہوئے سرسبز درخت
راحت روح کا سامان لیے
نغمۂ ساز نظر بکھراتے
میری مشتاق نگاہوں سے ملاتے ہوئے نظریں اپنی
مجھ سے مل مل کے بچھڑ جاتے ہیں
اور پھر دور بہت دور پہنچ کر ایسے
دیکھتے جاتے ہیں مڑ مڑ کے مجھے
جیسے اک تشنگی محسوس کئے جاتے ہیں


ریل اس کیف و نظر سے عاری
اپنی منزل کو اڑی جاتی ہے
اور سرسبز درخت
دھندلے سایوں میں بدلتے ہوئے معدوم ہوئے جاتے ہیں
جیسے میں نے انہیں دیکھا ہی نہ ہو
یوں ہی سایوں میں جھلکتے ہوئے محبوب جمال
صفحۂ دہر کے تابندہ نقوش
چند یادوں میں ڈھلے جاتے ہیں
یہ زمانے کا چلن اور سفر
میرے احباب مجھے دیکھ رہے ہیں گویا
میں بنا جاتا ہوں تفسیر حیات