شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

دمِ عارف نسیمِ صبح دم ہے

اسی سے ریشۂ معنی میں نَم ہے

اگر کوئی شعیب آئے میَسّر

شبانی سے کِلیمی دو قدم ہے

تشریح:

صاحب عرفان کا سانس صبح کے وقت کی نسیم ہے۔ اسی سے حقیقت کے ریشے میں نمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر حضرت شعیب جیسا مربی، مرشد اور رہنما مل جائے تو گلہ بانی کرتے ہوئے حضرت کلیم اللہ کی طرح نبوت کے درجے پر پہنچ جانا صرف دو قدم کا معاملہ ہے۔ یعنی انسان معمولی محنت مزدوری کرتا ہوا بہت جلد قوموں کا رہنما اور نجات دہندہ بن سکتا ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ حضرت شعیب کی صحبت میں تربیت پا کر اس درجہ پر پہنچ گئے کہ خدا نے انہیں پیغمبری عطا کی اور انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون جیسے جابر بادشاہ کی غلامی سے نجات دلائی۔

)شرح غلام رسول مہر(

اس رباعی کا مطلب یہ ہے کہ عارفوں (اللہ والوں) کی صحبت انسانوں کے حق میں نسیمِ صبح کا حکم رکھتی ہے اسی کی صحبت کی بدولت دنیاوالوں پر انکشافِ حقائق ہوتا ہے اور ان کی روحانی تربیت اور آبیاری ہوتی ہے۔ اگر صحبت مرشد کا سلسلہ ختم ہو جائے تو باغِ معانی ویران ہو جائے بلکہ دنیا میں روحانیت کا ہی فقدان ہو جائے۔

اس کی مثال درکار ہو تو حضرت موسیٰ کی زندگی کا مطالعہ کر لو انہوں نے چند سال تک حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں اور اس سلسلے میں ان کو حضرت موصوف کی صحبت نصیب ہوئی۔ چناچہ اس فیض صحبت نے ان کو شبانی سے کلیمی کے مرتبہ پر پہنچا دیا۔

"شبانی سے کلیمی دو قدم ہے" بلاشبہ بہت بلیغ مصرع ہے شبانی  کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اوپر مذکور ہوئے۔ دوسرے معنی ادنی حالت کے بھی ہو سکتے ہیں یعنی صحبت مرشد میں وہ تاثیر ہے کہ اس کی بدولت ایک ادنی درجہ کا آدمی بھی جس کے پاس نہ علم و فضل ہو نہ دنیاوی وجاہت نہ کوئی ہنر ہو نہ کسی قسم کی لیاقت وہ بھی اعلیٰ مرتبہ یعنی شرف مکالمت الہیہ حاصل کر سکتا ہے۔

)شرح یوسف سلیم چشتی(

دمِ عارف نسیمِ صبح دم ہے

اسی سے ریشۂ معنی میں نَم ہے

اگر کوئی شعیب آئے میَسّر

شبانی سے کِلیمی دو قدم ہے

بنیادی خیال یہ ہے کہ حصولِ کمال کے لیے کسی مردِ کامل کی صحبت اور رہنمائی شرط ہے۔

دمِ عارف:

۱۔ اللہ کی معرفت رکھنے والے کا روحانی فیض/کلام

۲۔ اللہ کی معرفت اور نفس کی پہچان رکھنے والے مردِ کامل کا وہ عمل جس کے ذریعے سے وہ اپنی باطنی حالت کو اُس شخص میں منتقل کرتا ہے جو کمال کی سچی طلب اور ضروری استعداد رکھتا ہو۔

۳۔ صاحبِ معرفت کی توجہ، تصرف اور تربیت

۴۔ خدا رسیدہ بزرگ کی ذات سے پھیلنے والی تاثیر

نسیمِ صبح دم:

۱۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا جسے کھا کر پھول کھل اُٹھتے ہیں اور سبزے میں جان پڑ جاتی ہے۔

۲۔ بہار کا پیغام۔

۳۔ غیبی فیض جس سے دل زندہ اور روح شاداب ہو جاتی ہے۔

۴۔ زندگی، سیرابی اور نشوونما کا سرچشمہ۔

۵۔ روح کی پرورش کا سامان

۶۔ ہدایت جس سے مردہ دل جی اٹھتے ہیں۔

۷۔ قربِ حق کا جھونکا۔

۸۔ فیضانِ الہی جو روح، نفس اور عقل میں معرفت کا حال پیدا کر دیتا ہے۔

۹۔ حق کو محسوس کروا دینے والا مرشد، معلم اور مربی۔

کوئی شعیب:

یعنی کوئی خدا رسیدہ مرشد جو فطرت کی تہ تک رسائی رکھتا ہو۔

ریشۂ معنی:

یہاں "ریشہ" رگ حیات کی معنی میں ہے، یعنی وہ رگ جس پر زندگی کا دارومدار ہوتا ہے، اور اسی سے چیزیں نشوونما  حاصل کرتی ہیں۔

معنی سے مراد ہے:

۱۔ انسانی فطرت جو حق کی امین اور حقیقتِ بندگی کی حامل ہے۔

۲۔ انسان کا باطن جو فطرت، عقل، محبت اور ارادے کی ہم آہنگی سے تشکیل پا تا ہے۔

۳۔ حقیقت کا ورائے ذہن حصول۔

کلیمی:

۱۔ اللہ سے ہم کلامی کا مرتبہ جو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو حاصل تھا۔

۲۔ معرفت کا آخری درجہ، بندگی کا منتہا۔

شبانی:

۱۔ گلّہ بانی، چوپانی۔

۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کئی برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کے ریوڑ کی دیکھ بھال کرنا۔

۳۔ اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے مجاہدہ دریافت کرنا۔

۴۔ ظاہری اعتبار سے زندگی کا نہایت معمولی درجہ، ایک عام آدمی کی سطح

فرہنگ احمد جاوید رسالہ اقبالیات جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ جاری کردہ اقبال اکادمی پاکستان

حوالہ:

کلام: علامہ محمد اقبال

کتاب: بالِ جبریل (رباعیات)