تڑپتا ہے تری فرقت میں کوئی نیم جاں ہو کر (ردیف .. ا)
تڑپتا ہے تری فرقت میں کوئی نیم جاں ہو کر
ستم ہے پھیر لینا آنکھ تیرا مہرباں ہو کر
زباں گو سامنے ان کے نہ تھی منہ میں مرے گویا
خموشی کہہ رہی تھی حال دل میرا زباں ہو کر
میں باور کر نہیں سکتا بت کمسن کے وعدوں کو
یہ ہیں بچپن کی باتیں بھول جائے گا جواں ہو کر
نہیں دو چار تنکوں سے فلک کو دشمنی لیکن
اسے ضد ہے رہے کیوں یہ ہمارا آشیاں ہو کر
مزے سے عشق کے غافل رہے دونوں کے دونوں ہی
وہ مشغول جفا ہو کر میں مصروف فغاں ہو کر
اگر مشق سخن تیری یوں ہی جاری رہی بیخودؔ
تو رنگ افروز محفل ہوگا تو رنگیں بیاں ہوگا