تباہ ہو کے بھی اک اپنی آن باقی ہے

تباہ ہو کے بھی اک اپنی آن باقی ہے
بغاوتوں کی تڑپ غم کی جان باقی ہے


خلا میں ڈوب کے ہم کو بھی یہ ہوا معلوم
کہ کچھ نہیں ہے مگر آسمان باقی ہے


یہ مت کہو کہ لٹی کائنات درد تمام
کہ زخم زخم یہ سارا جہان باقی ہے


میں کیسے چھوڑ دوں ٹوٹے ہوئے در و دیوار
شکستہ خواب کا تنہا مکان باقی ہے


نہ ختم ہوں گے مصائب کے سلسلے باقرؔ
ہزار خار ہوئے امتحان باقی ہے