تاشقند کی شام
مناؤ جشن محبت کہ خوں کی بو نہ رہی
برس کے کھل گئے بارود کے سیہ بادل
بجھی بجھی سی ہے جنگوں کی آخری بجلی
مہک رہی ہے گلابوں سے تاشقند کی شام
جگاؤ گیسوئے جاناں کی عنبریں راتیں
جلاؤ ساعد سیمیں کی شمع کافوری
طویل بوسوں کے گل رنگ جام چھلکاؤ
یہ سرخ جام ہے خوبان تاشقند کے نام
یہ سبز جام ہے لاہور کے حسینوں کا
سفید جام ہے دلی کے دلبروں کے لیے
گھلا ہے جس میں محبت کے آفتاب کا رنگ
کھلی ہوئی ہے افق پر شفق تبسم کی
نسیم شوق چلی مہرباں تکلم کی
لبوں کی شعلہ فشانی ہے شبنم افشانی
اسی میں صبح تمنا نہا کے نکھرے گی
کسی کی زلف نہ اب شام غم میں بکھرے گی
جوان خوف کی وادی سے اب نہ گزریں گے
جیالے موت کے ساحل پہ اب نہ اتریں گے
بھری نہ جائے گی اب خاک و خوں سے مانگ کبھی
ملے گی ماں کو نہ مرگ پسر کی خوش خبری
کوئی نہ دے گا یتیموں کو اب مبارک باد
کھلیں گے پھول بہت سرحد تمنا پر
خبر نہ ہوگی یہ نرگس ہے کس کی آنکھوں کی
یہ گل ہے کس کی جبیں کس کا لب ہے یہ لالہ
یہ شاخ کس کے جواں بازوؤں کی انگڑائی
بس اتنا ہوگا یہ دھرتی ہے شہسواروں کی
جہان حسن کے گمنام تاجداروں کی
یہ سرزمیں ہے محبت کے خواستگاروں کی
جو گل پہ مرتے تھے شبنم سے پیار کرتے تھے
خدا کرے کہ یہ شبنم یوں ہی برستی رہے
زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے