تاریخ، عقیدہ اور سیاست
پرانے زمانے میں ’’اردو‘‘ نام کی کوئی زبان نہیں تھی۔ جولوگ ’’قدیم اردو‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، وہ لسانیاتی اور تاریخی اعتبار سے نادرست اصطلاح برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ’’قدیم اردو‘‘ کی اصطلاح کا استعمال آج خطرے سے خالی نہیں۔ زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ ’’اردو‘‘ نسبتاً نوعمر ہے۔ اور یہ سوال، کہ قدیم اردو کیا تھی، یا کیا ہے، ایک عرصہ ہوا تاریخ کے میدان سے باہر نکل چکا ہے۔ پہلے تو یہ سوال اردو /ہندی کی تاریخ کے بارے میں نوآبادیاتی، سامراجی مصلحتوں کے زیراثر ا نگریزوں کی سیاسی تشکیلات کا شکار رہا اور پھر جدید ہندوستان میں ہندوستانی (=ہندو) تشخص کے بارے میں سیاسی اور جذباتی تصورات کی دنیا میں داخل ہوگیا۔ زمانہ حال کے عام ہندی بولنے والے کے لیے یہ خیال اب عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس زبان کو وہ آج ’’ہندی‘‘ کے نام سے جانتا ہے، وہ قدیم الایام سے موجود ہے اور اس کے ادب کا آغاز (اگر اور بھی پہلے نہیں تو) کم از کم خسرو (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ء) سے ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ کبھی اٹھارویں صدی میں پرانے زمانے کی یہ اصلی ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ اس وقت ’’اردو‘‘ بن گئی جب مسلمانوں نے ’’فیصلہ‘‘ کیا کہ وہ اپنے زمانے کی رائج ’’ہندی‘‘ کی راہ سے ہٹ کر ایک بھاری، فارسی زدہ زبان اختیار کریں گے۔ اور پھر یہ زبان، ہندوستانی مسلمانوں کا مابہ الامتیاز بن گئی۔ 1ہندی/اردو ادب کی عالمانہ تاریخ کے نام سے آج کل جو مفر و ضات ہمارے ملک میں رائج ہیں، ان کا خاصا حصہ صرف نام زدگی کے اتفاق پر مبنی ہے۔ ہم لوگ اس بات کو اکثر بھول جاتے ہیں کہ جس زبان کو آج ہم ’’اردو‘‘ کہتے ہیں، پرانے زمانے میں اسی زبان کو ’’ہندوی‘‘، ’’ہندی‘‘، ’’دہلوی‘‘، ’’گجری‘‘، ’’دکنی‘‘ اور پھر ’’ریختہ‘‘ کہا گیا ہے۔ اور یہ نام تقریباً اسی ترتیب سے استعمال میں آئے جس ترتیب سے میں نے انہیں درج کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس زبان کا وہ روپ جو دکن میں بولا اور لکھا جاتا تھا، اسے سترہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے تقریباً وسط تک ’’دکنی‘‘ ہی کہتے تھے۔ اور شمال میں ایک عرصے تک ’’ریختہ‘‘ اور ’’ہندی‘‘، دونوں ہی اس زبان کے نام کی حیثیت سے ساتھ ساتھ استعمال ہوتے رہے۔ انگریزوں نے اس زبان کے لیے اپنی ایجادیا پسند کے نام استعمال کیے۔ جہانگیر کے دربار میں جیمز اول کے ایلچی سرٹامس رو (Sir Thomas Roe) کے ساتھی ایڈورڈ ٹیری (Edward Terry) نے اپنی کتاب A Voyage to East India (لندن، ۱۶۵۵ء) میں اس زبان کو ’’اندوستان‘‘ (Indostan) کے نام سے یاد کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’اندوستان‘‘ بڑی جان دار زبان ہے اور یہ کم سے کم لفظوں میں بہت کچھ کہہ ڈالنے پر قادر ہے۔ اس کی لفظیات میں عربی اور فارسی کی کثرت ہے لیکن اس کا طرز تحریر عربی فارسی سے مختلف ہے۔ 2انگریزوں نے اور نام جو اس زبان کے لیے استعمال کیے، ان میں حسب ذیل شامل ہیں: Moors, Hindoostanic, Hindoostanee, Indostans آخر الذکر، یعنی Indostans، کے وجود کا سراغ Oxford English Dictionary سے ملتا ہے۔ باقیوں سے ہماری ملاقات اس تحریر کے دوران ہوگی۔ اگر ’’ہندوستانی‘‘ کو مستثنی کردیں، تو انگریزوں کے دیے ہوئے متذکرہ بالا ناموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے کسی اردو بولنے والے نے استعمال کیا ہو، یا اگر استعمال نہ بھی کیا ہو تو اس سے آشنا رہا ہو۔ یہ سب نام انگریزوں نے اپنی لاعلمی یا سیاسی ضرورتوں کے باعث ایجاد کیے تھے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا، شمال میں ’’ریختہ‘‘ اور ’’ہندی‘‘ ہماری زبان کے نام کی حیثیت سے یکساں مقبول تھے۔ یہ حالت اٹھارویں صدی تک رہی۔ وسط انیسویں صدی سے زبان کے نام کی حیثیت سے ’’ہندی‘‘ کو ’’ریختہ‘‘ پر ترجیح دی جانے لگی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انیسویں صدی میں بول چال کی زبان کو تقریباً ہمیشہ ’’ہندی‘‘ ہی کہا جاتا تھا، جب کہ اٹھارویں صدی میں ’’ریختہ‘‘ کو بول چال کی زبان کے لیے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ میر کا شعر ہے (دیوان اول، قبل ۱۷۵۲ء)، گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کریہ ہماری زبان ہے پیارے 3انیسویں صدی کے تقریباً آخر تک ’’ہندی‘‘ اور ’’اردو‘‘ دونوں ہی نام مروج رہے۔ آہستہ آہستہ ’’ریختہ‘‘ بطور اسم زبان کا چلن گھٹتا گیا اور بیسویں صدی کے اوائل تک بھی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں لفظ ’’ہندی‘‘ کو ’’اردو‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ 4 ’’ہندوی‘‘ کا بھی استعمال اٹھارویں صدی کے اواخر تک رہا۔ چنانچہ مصحفی کے دیوان اول (تاریخ ترتیب تقریباً ۱۷۸۵ء) میں ہے، مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھاب ہے اشعار ہندوی کا رواج 5زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ ’’اردو‘‘ پہلی بار ۱۷۸۰ء کے آس پاس استعمال ہوا۔ اتفاق یہ کہ اولین استعمال کی تمام یا تقریبا ً تمام قدیم مثالیں مصحفی ہی کے یہاں ہیں۔ دیوان اول ہی میں ہے، البتہ مصحفی کو ہے ریختے میں دعویٰیعنی کہ ہے زباں داں اردو کی وہ زباں کا 6اغلب ہے کہ یہاں لفظ ’’اردو‘‘ سے ’’شاہجہاں آباد کا شہر‘‘ مراد ہے، نہ کہ ’’اردو زبان۔‘‘ فقرہ ’’اردو کی زبان‘‘ کے معنی وہ زبان سمجھنا جس کا نام ’’اردو‘‘ ہے، اسی وقت صحیح ہوگا جب یہ یقین ہو کہ لفظ ’’اردو‘‘ کو ’’شاہجہاں آباد‘‘ کے معنی میں نہیں استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم آئندہ دیکھیں گے۔ شمال کے لوگ عرصۂ دراز تک ’’اردو‘‘ کو ’’شاہجہاں آباد‘‘ کے معنی میں بولتے تھے اور ’’زبان اردو‘‘ سے بعض اوقات ’’فارسی‘‘ بھی مراد لی گئی ہے۔ خیر، مصحفی کے دیوان چہارم (مرتبہ تقریباً ۱۷۹۶ء) میں جو استعمال ہے وہ صاف طور پر ’’اردو زبان‘‘ کے معنی میں ہے۔ لکھنؤ والوں کی شکایت میں مصحفی ایک مخمس میں کہتے ہیں، ہر جائے گوش چشم بنا ناک کان کواپنی زبان سمجھے ہیں اردو زبان کو 7علامہ حافظ محمود شیرانی نے اپنے ایک مضمون ’’اردو زبان اور اس کے مختلف نام‘‘ (اول طباعت، مئی ۱۹۲۹ء) میں مصحفی کاحسب ذیل شعر نقل کیا ہے، خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کیکہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے 8بظاہریہاں ’’مرزا‘‘ سے مراد مرزا محمد رفیع سودا ہیں۔ سودا کا انتقال جون ۱۷۸۱ء میں ہوا۔ لہٰذا قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ شعر جون ۱۷۸۱ء کے پہلے کاہوگا۔ لیکن کتناپہلے کا، یہ بات صاف نہیں ہوتی۔ نیرکاکوروی نے ’’نور اللغات‘‘ جلد اول (اول طباعت ۱۹۲۴ء) میں لفظ ’’اردو‘‘ بطور اسم زبان کی سند میں یہی شعر نقل کیا ہے۔ 9 حوالہ دونوں ہی حضرات نے نہیں دیا۔ مصحفی کے وسیع و عریض مطبوعہ کلام میں مجھے یہ شعر نہیں ملا، نہ ہی یہ مصحفی کے ’’دیوان قصائد‘‘ مرتبہ نورالحسن نقوی کی پریس کاپی میں ملا۔ (یہ دیوان ہنوز غیرمطبوعہ ہے۔ اس کی اشاعت مجلس ترقی ادب، لاہور، سے متوقع ہے۔) اغلب ہے شیرانی مرحوم نے یہ شعر ’’نوراللغات‘‘ میں دیکھا ہو۔ لیکن وہ بہت محتاط محقق تھے، انہوں نے کسی اور ذریعے سے بھی اس بات کی تصدیق کرلی ہوگی کہ یہ شعر مصحفی کا ہی ہے۔ ممکن ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جو مخطوطے مصحفی کے ہیں اور جو شیرانی صاحب کی دسترس میں یقیناً تھے، ان میں یہ شعر انہیں ملا ہو۔ ہوسکتا ہے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کچھ ایسا کلام اب بھی ہو جو نور الحسن نقوی اور حفیظ عباسی دونوں سے چھوٹ گیا ہو، لیکن اس وقت کسی مصدقہ حوالے کے بغیر شعر زیر بحث کو مصحفی کی ملکیت ماننے میں تھورا سا تامل ضرور ہے۔ بہرحال، اگر اس شعر میں سودا کے ذکر کا مطلب یہ نکالا جائے کہ سودا اس وقت زندہ تھے، تو یہ شعر ۱۷۷۰ء کے آس پاس سے لے کر جون ۱۷۸۱ء کے درمیان کہا گیا ہوگا۔ ’’۱۷۷۰ء کے آس پاس‘‘ میں نے اس لیے کہا کہ مصحفی کی پیدائش ۱۷۵۰ء کی ہے، اور انہوں نے اغلباً سترہ اٹھارہ کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی آغاز کی ہوگی۔ لیکن یہ بھی ہے کہ مصحفی کا لکھنؤ میں پہلا ورود ۱۷۷۲ء کے آس پاس کا ہے۔ سودا اس وقت وہاں موجود تھے لیکن میرا بھی دلی ہی میں تھے۔ مصحفی کا پہلا سفر دہلی ۱۷۷۳ء کا ہے اور شاید اس وقت وہ میر سے پہلی بار ملے ہوں۔ لہٰذا یہ شعر ۱۷۷۱ء اور ۱۷۷۳ء کے درمیان کا ہوسکتا ہے۔ 10ایک بات مگر یہ بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ مصحفی کے شعر زیر بحث میں ’’خدا رکھے‘‘ کا فقرہ ’’میر و مرزا‘‘ کے لیے نہیں، بلکہ ’’زبان اردو‘‘ کے لیے ہوسکتا ہے۔ پھر اس صورت میں اس شعر کی تاریخ تحریر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ دیوان سوم (مرتبہ تقریباً ۱۷۹۴ء) اور دیوان ششم (مرتبہ تقریباً ۱۸۰۹ء) میں مصحفی کے شعر ہیں، یہ ریختے کا جو اردو ہے مصحفی اس میں نئی نکالی ہیں باتیں ہزار ہم نے توواقف نہیں زبان سے اردو کی تس پہ آہ کیا کیا عزیز کرتے ہیں اشعار کا گھمنڈ 11پہلا شعر دیوان اول کا ہے، اس میں لفظ ’’اردو‘‘ کو مذکر باندھا گیا ہے۔ پھر ’’ریختے کا اردو‘‘ میں دونوں لفظ اسم زبان کے معنی میں نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا گمان غالب ہے کہ ’’اردو‘‘ سے یہاں مراد ’’شہر قلعہ‘‘ ہے، نہ کہ وہ زبان جسے ہم آج ’’اردو‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے شعر میں صاف ظاہر ہے کہ ’’اردو‘‘ سے شہر دہلی مراد ہے۔ یعنی انیسویں صدی کے آغاز میں بھی مصحفی نے لفظ ’’اردو‘‘ کو ’’شہر دہلی‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ مندرجہ بالا محاکمے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہماری زبان کے نام کے طور پر لفظ ’’اردو‘‘ کا استعمال اٹھارویں صدی کے ربع آخر کے پہلے نہیں ملتا۔ زبان کے نام کے طور پر اس لفظ (اردو) کی زندگی غالباً ’’زبان اردوے معلاے شاہجہاں آباد‘‘ کی شکل میں شروع ہوئی۔ اور اس سے مراد تھی ’’شاہجہاں آباد کے شہر معلیٰ/ قلعہ معلیٰ/ دربار معلیٰ کی زبان۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ شروع شروع میں اس فقرے سے ہماری اردو زبان نہیں بلکہ فارسی مراد لی جاتی تھی۔ مرور ایام کے ساتھ یہ فقرہ مختصر ہوکر ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘، پھر ’’زبان اردو‘‘، اور پھر ’’اردو‘‘ رہ گیا۔ ’’ہابسن جابسن‘‘ کے مصنفین نے ۱۵۶۰ء کا ایک حوالہ ’’اردو بازار‘‘ کی سند میں نقل کیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں لفظ ’’اردو‘‘ کا ورود بابر کے ساتھ ہوا، اور یہ کہ بابر کی لشکر گاہ کا نام ’’اردوے معلیٰ‘‘ تھا، اور وہ زبان جو اس لشکر گاہ کے نواح میں پیداہوئی، ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کہلائی۔ 12یول اور برنیل صاحبان (مصنفین ’’ہابسن جابسن‘‘) کی سند تو یقیناً درست ہے لیکن اس پر جو اظہار خیال کیا گیا ہے، وہ صریحاً غلط باتوں پر مبنی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ بابر کے پہلے بھی ہندوستان میں ترکوں کی کمی نہ تھی۔ لہٰذا لفظ ’’اردو‘‘ کے درود کو بابر کی آمد سے منسلک کرنا غیرضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ بابر نے کبھی بھی دہلی میں طویل عرصے تک قیام نہ کیا۔ تیسری بات یہ کہ ’’ہندی/ ہندوی/ دہلوی‘‘ نام کی زبان دہلی اور اس کے نواح میں بابر کے بہت پہلے سے موجود تھی۔ شمالی ہند میں مغلوں کی آمد کے نتیجے میں وہاں کوئی نئی زبان بالکل نہ پیدا ہوئی۔ اٹھارویں صدی آتے آتے بلکہ شاید اس سے کچھ پہلے ہی، لفظ ’’اردو‘‘ کو ’’شہر دہلی/ شاہجہاں آباد، خاص کر فصیل بند شہر‘‘ کے معنی میں عام طور پر استعمال کیا جانے لگا اور یہ مفہوم کم سے کم اوائل انیسویں صدی تک رائج رہا۔ انشا اور قتیل نے ’’دریاے لطافت‘‘ (۱۸۰۷ء) میں لکھا ہے کہ ’’مرشدآباد اور عظیم آباد کے لوگ اپنے حسابوں اردو کے اہل زبان ہیں اور اپنے شہر کو ’اردو‘ قرار دیتے ہیں۔‘‘ 13ان کا مطلب یہ ہے کہ عظیم آبادی اور مرشد آبادی خود کو کچھ بھی سمجھیں لیکن وہ ’’اردو‘‘ یعنی شاہجہاں آباد کے اصل باسی نہیں ہیں۔ اسی طرح، میرامن نے جہاں کہیں ’’اردو کی زبان‘‘ لکھا ہے تو اس سے ان کی مراد ’’شاہجہاں آباد کی زبان‘‘ ہے۔ مصحفی کی مثال ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ وہ لفظ ’’اردو‘‘ سے ’’شہر شاہ جہاں آباد‘‘ مراد لیتے ہیں۔ آگے چل کر انیسویں کے اواخر تک لکھے ہوئے اردو لغات کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ ان لغات کے مصنفین کی نظر میں ’’اردو‘‘ کے مقبول ترین معنی ’’شہر شاہ جہاں آباد‘‘ ہی ہیں۔ اگرچہ مغل شاہی خاندان کے بہت سے افراداور بابر خود، تھوڑی بہت ’’ہندی‘‘ جانتے تھے اور بعد کے سلاطین و شاہان مغلیہ کم سے کم ایک ہندوستانی زبان سے بخوبی واقف تھے۔ ’’ہندی‘‘ (یعنی آج کی اردو) کو دربار مغلیہ کی غیر سرکاری(سرکاری زبان تو وہ کبھی بن ہی نہ سکی) زبان بنتے بہت دیر لگی۔ غیر سرکاری زبان کا رتبہ بھی اس کے لیے ایسے وقت ممکن ہوسکا جب شاہ عالم ثانی (زمانہ حکومت ۱۷۵۹ء تا ۱۸۰۶ء) نے جنوری ۱۷۷۲ء میں دلی کو مراجعت کی۔ دربار کی سرکاری زبان تو پھر بھی فارسی رہی لیکن شاہ عالم بہت دن الٰہ آباد میں رہا تھا اور اسے ’’ہندی‘‘ سے یک گونہ لگاؤ بھی تھا، اس لیے غیر رسمی طور پر وہ نہ صرف یہ کہ ’’ہندی‘‘ میں گفتگو کرتا تھا بلکہ وہ اس زبان کا اچھا خاصا مصنف بھی تھا۔ اپنی تصنیف کردہ داستان ’’عجائب القصص‘‘ میں اس نے اس داستان کی زبان کا نام ’’ہندی‘‘ ہی لکھا ہے۔ شاہ عالم نے یہ کتاب ۱۷۹۲ء/ ۱۷۹۳ء میں لکھنا آغاز کی لیکن اسے نامکمل ہی چھوڑ دیا۔ شاید بینائی سے محروم ہونے کے باعث اس کا لکھنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ پھر بھی جتنا متن داستان اس نے چھوڑا ہے، وہ کوئی چھ سو صفحات کو محیط ہے۔ 14خان آرزو (۱۶۸۷ء/۱۶۸۸ء تا ۱۷۵۶ء) نے ۱۷۴۷ء سے ۱۷۵۲ء کے زمانہ میں ’’نوادر الالفاظ‘‘ تصنیف کی۔ یہ دراصل عبدالواسع ہانسوی کی اردو فرہنگ ’’غرائب اللغات‘‘ (مصنفہ تقریباً ۱۶۹۰ء) پر مفصل تنقید ہے، جو خود مستقل لغت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ’’نوادر‘‘ میں خان آرزو نے جگہ جگہ ’’اردو‘‘، یا ’’اردوے معلیٰ‘‘ لکھ کر ’’دہلی‘‘ مراد لیا ہے۔ مثلاً لفظ ’’چھنیل‘‘ پر استدراک کرتے ہوئے خان آرزو لکھتے ہیں، ’’ہم لوگ، جو علاقۂ ہند کے ہیں اور اردوے معلیٰ میں رہتے ہیں، اس لفظ سے واقف نہیں ہیں۔‘‘ 15 اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’مثمر‘‘ (زمانہ تصنیف تقریباً ۱۷۵۲ء) میں خان آرزو نے فارسی زبان کے قدیم ناموں ’’پہلوی‘‘ اور ’’دری‘‘ سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لفظ ’’در‘‘ سے ’’درملوک وسلاطین‘‘ اور لفظ ’’پہلو‘‘ سے ’’اردو‘‘ (یعنی شہر بادشاہ) مراد ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں، ’’لہٰذا یہ بات بالکل ثابت ہے کہ اردو کی زبان افصح زبان ہے۔ اسی جگہ کی فارسی معتبر ہے۔ اور اس سے خاص شعر و انشا کی زبان مراد نہیں۔ یہی باعث ہے کہ ہر ملک کے مختلف شہروں کے شعرا، مثلاً شروان کے خاقانی، گنجہ کے نظامی، غزنیں کے سنائی اور دہلی کے خسرو، اسی مستند زبان میں حرف زنی کرتے تھے اور یہ زبان اور کوئی نہیں، اردو کی زبان ہے۔ الاماشاء اللہ، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ 16لہٰذا یہ بات ظاہر ہے کہ ۱۷۵۰ء کے آس پاس (کم سے کم) اشرافیہ طبقے میں ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ سے وہ زبان ہرگز مراد نہ تھی جسے ہم آج ’’اردو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ میر نے البتہ ریختہ کی شاعری کو اردوے معلیٰ شاہجہاں آباد کی زبان میں شاعری قرار دیا تھا، لیکن اس کے وجوہ اور تھے۔ 17 رہا سوال ’’اردو‘‘ اور ’’اردوے معلیٰ‘‘ کا، تو یہ الفاظ اسم زبان کے طور پر اس وقت تک استعمال میں بھی نہ تھے۔ ہماری زبان (یعنی وہ زبان جسے ہم آج اردو کہتے ہیں) کا نام شاہ عالم کے لیے ’’ہندی‘‘ تھا، اور اسے شاہ عالم نے قلعے میں لاکر اشراف کے لیے عزت دار بنایا۔ وہ (بشمول سنسکرت) کئی زبانیں جانتا تھا۔ اسے ’’ہندی‘‘ سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ اس کے مربیوں میں تھا، اور وہ خود اس زبان میں مشق سخن کرتا تھا۔ ان وجوہ کی بناپر، اور اس لیے کہ وہ اسے دربار میں غیر رسمی طور پر استعمال کرتا ہوگا، ’’ہندی‘‘ کو تمام شمالی ہند میں توقیر نصیب ہوئی۔ اس میں بہت کم شک ہے کہ یہ ۱۷۷۰ء کی دہائی رہی ہوگی جب فقرہ ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کے معنی ’’فارسی‘‘ کے بجائے ’’ہندی‘‘ سمجھے جانے لگے۔ اور میرا خیال ہے کہ ’’زبان اردو ے معلیٰ‘‘ کو عام طور پر فارسی کی جگہ ’’ہندی‘‘ کہلاتے کہلاتے ۱۷۹۰ء/ ۱۷۹۵ء کا زمانہ ضرور آگیا ہوگا۔ گلکرسٹ نے ۱۷۹۶ء میں “Hindoostanee Language” کی ایک “Grammar” شائع کی۔ اس کتاب کا نواں باب اس نے عروض کے لیے مختص کیا اور لکھا کہ میں مثال کے لیے ’’بہترین شعرا کے مختلف قسم کے اشعار سے نمونے پیش کروں گا۔ یہ وہ شعرا ہیں جنہوں نے اپنی کئی تصنیفات اس ملواں بولی میں لکھی ہیں جسے ’اردو‘ بھی کہا جاتا ہے، یعنی دربار کی شستہ زبان۔ اور جو آج بھی، کم و بیش اپنی اصل شکل میں، ایک زمانے میں انتہائی طاقت ور اس سلطنت کے دور دراز علاقوں میں بھی چھائی ہوئی ہے۔‘‘ 18خان آرزو نے سنسکرت کے لیے ’’ہندی کتابی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اپنی طویل مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ (مصنفہ ۱۳۱۷ء/ ۱۳۱۸ء) میں امیر خسرو نے اسے ’’سنسکرت‘‘ ہی کہا ہے، اور لکھا ہے، یہ ایک خاص طرح کی زبان ہے، اس کا علم برہمنوں کے لیے ضروری ہے۔ ازمنۂ قدیم سے اس کا نام سنسکرت ہے۔ عام لوگ اس کے کن مکن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، صرف برہمن ہی جانتے ہیں۔ اور سب برہمن بھی اسے اتنی خوبی سے نہیں جانتے کہ اس میں گفتگو کرسکیں، یا اس میں شعر موزوں کرسکیں۔ 19چونکہ قدیم شمالی ہند میں ناگری رسم الخط برہمنوں کے علاوہ شاید کسی کی دسترس میں نہ تھا، اس لیے کائستھ جب پندرہویں صدی میں برہمنوں سے الگ ہوئے تو انہوں نے اپنے لیے ’’کیتھی‘‘ رسم الخط ایجاد کیا۔ یہ ناگری پر مبنی تھا اور شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی تک رائج رہا۔ 20 چونکہ شمالی ہند میں کوئی ایسا رسم الخط موجود نہ تھا جو خاص و عام میں مقبول ہو اور ہر جگہ استعمال بھی ہوتا ہو، اس لیے اغلب ہے کہ شروع شروع میں شمالی ہند کی نئی ابھرتی ہوئی زبانوں کا ادب زبانی ہی رہا ہو۔ ہندی/ہندوی/دہلوی کی خوش قسمتی تھی کہ اسے روز اول ہی سے فارسی رسم الخط بہم تھا۔ یہ اس لیے ہوا کہ اس زبان کا ادبی استعمال سب سے پہلے مسلمانوں نے کیا۔ یہ لوگ خود صوفی تھے، یا امیرخسرو کی طرح صوفیوں سے منسلک تھے۔ نوآبادیاتی سطح پر اٹھارویں صدی کے اواخر میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان جو معاملات رہے، ان میں انگریزوں نے دیکھا کہ ’’ہندی‘‘ ہی ہندوستان کی مقبول ترین زبان ہے۔ لیکن انہوں نے ’’ہندی/ہندوی‘‘ کی جگہ اس زبان کو ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دینا چاہا۔ اس کی کئی وجہیں تھیں۔ اول تو یہ کہ ہندوستان کی مقبول ترین زبان کا نام ’’ہندوستانی‘‘ ہی انہیں زیادہ منطقی اور قواعدی معلوم ہوتا ہوگا۔۔۔ جیسے انگلستان کی اول زبان کانام انگریزی تھا، فرانس کی اول زبان کا فرانسیسی، جرمنی کی اول زبان کا نام جرمن تھا، وغیرہ۔ دوسری بات یہ تھی کہ اسم زبان کے طور پر اس زبان کا نام ’’ہندوستانی‘‘ بالکل لامعلوم بھی نہ تھا۔ (علامہ سید سلیمان ندوی نے اس نام کا حدوث سولہویں اور سترہویں صدی کی فارسی تصنیفات میں دریافت کیا ہے۔) 21 ہاں یہ ضرور ہے کہ اسم زبان کی حیثیت سے ’’ہندوستانی‘‘ کو کبھی وہ مقبولیت نہ حاصل ہوئی جو ’’ہندی‘‘ یا ’’ریختہ‘‘ کو حاصل تھی۔ اسم زبان کی حیثیت سے لفظ ’’ہندوستانی‘‘ فارسی کے کسی بڑے لغت میں نہیں ملتا۔ لیکن انگریزوں کی تحریروں اور حکمت عملی میں ’’ہندوستانی‘‘ کو ’’ہندی/ہندوی‘‘ پر بحیثیت اسم زبان ترجیح کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس زبان کو صرف مسلمانوں سے مختص قرار دیا۔ وہ ’’ہندی‘‘ زبان کو ’’ہندوؤں کی زبان‘‘، اور ایک الگ طرح کی زبان قرار دینے پر مصرتھے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ زبان، جسے ریختہ یا ہندی کہا جاتا ہے، سارے ہندوستان میں بولی جاتی ہے، اور اگر ہر جگہ بولی نہیں تو سمجھی ضرور جاتی ہے۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ یہ زبان ہے مسلمانوں کی۔ مصنفین ’’ہابسن جابسن‘‘ کا بیان میں انہیں کے لفظوں میں نقل کرتا ہوں، تاکہ ترجمے کے باعث کسی بات کے مسخ ہوجانے کا امکان نہ رہے، Hindustani, Properly an adjective, but used substantively in two senses, viz, (a) a native of Hindustan, and (b), (Hindustani Zaban) ‘the language of the country’ but in fact the language that the Mahommedans of Upper India, and eventually the Mahammedans of the Deccan, developed out the Hindi dialect of the Doab chiefly, and the territory around Agra and Delhi, with a mixture of Persian vocables and phrases, and a readiness to adopt foreign words. Also called Oordoo, i.e., the language of the Urdu, (Horde) , or Camp. This language was for a long time a kind of Mahommedan lingua franca all over India, and still possesses that character over a large part of the country, and among certain classes. Even in Madras, where it least prevails, it is still recognized in native regiments as the language of intercourse between officers and men. Old fashioned Anglo-Indians used to call it the Moors (q.v.) 22مندرجہ بالا اقتباس میں جو غلط باتیں فوری طور پر توجہ طلب ہیں، وہ ذیل میں درج کرتا ہوں، (۱) ’’ہندوستانی‘‘ (یعنی ’’ہندی/ہندوی‘‘) زبان Upper India میں نہیں، بلکہ دہلی اور اس کے اطراف میں پیدا ہوئی۔ (۲) اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس کو صرف مسلمان ہی بولتے تھے۔ (سامنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ اس زبان کو مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا، تو ظاہر ہے کہ اس لیے ایجاد کیا کہ اس کے ذریعے وہ ’’مقامی‘‘ لوگوں سے گفتگو کرسکیں۔ لہٰذا اس زبان کو ’’مقامی‘‘ لوگ بھی بولتے ہوں گے۔) (۳) یہ زبان ادبی حیثیت سے سب سے پہلے گجرات میں قائم ہوئی، دکن میں نہیں۔ (۴) جس ’’ہندی‘‘ بولی (dialect) کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اردو اس سے نکلی، اس dialect کا کوئی وجود نہیں۔ ’’ہندی‘‘ وہی زبان ہے جسے ہمارے فاضل مصنفین ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ (۵) لفظ ’’اردو‘‘ کے معنی ہمارے یہاں horde (’’جم غفیر‘‘) کبھی نہیں رہے، اور نہ اس زبان کا نام ’’اردو‘‘ اس لیے پڑا کہ یہ کسی Camp یا لشکر گاہ کی زبان تھی۔ (۶) اگر یہ زبان صرف مسلمانی lingua franca (ہرجگہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان) تھی، تو یہ کیوں کر ہوا کہ مدراس کے فوجیوں میں ’’افسروں اور جوانوں کے درمیان بول چال‘‘ کی زبان یہی تھی؟ ظاہر ہے کہ سب افسر اور جوان مذہب اسلام کے پیر و تونہ رہے ہوں گے۔ یہ تو حال تھا ’’ہابسن جابسن‘‘ کا، جسے صرف انگریز اور چند ہندوستانی پڑھتے ہوں گے۔ ’’آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘‘ کو تمام دنیا اختصار کی غرض سے O.E.D. کے نام سے جانتی ہے۔ اور یہ بات بھی سب مانتے ہیں کہ اوای ڈی سے بڑھ کر کوئی لغت نہ بنا ہے، اور نہ شاید بن سکتا ہے۔ علم، تحقیق، اور فصل زمانی کے لحاظ سے اوای ڈی کو ’’ہابسن جابسن‘‘ پر سو سے کچھ اوپر سال کی فضیلت حاصل ہے۔ ملاحظہ ہو اس لغت میں ’’ہندوستانی‘‘ کے بارے میں کیا گل کھلائے گئے ہیں۔ یہاں بھی میں اصل عبارت نقل کرتا ہوں، تاکہ کوئی اشتباہ نہ رہے، Hindustani, Hindostanee, (hindu:’sta:ni) , a. and s, Also Hindustanee, --sthanee, ---stanee… The language of the Muslim conquerors of Hindustan, being a form of Hindi, with a large admixture of Arabic, Persian, and other foreign elements, also called Urdu, i.e. zaban-urdu, language of the camp, sc. Of the Mughal conquerors. It later became a kind of lingua franca over all India, varying its vocabulary according to the locality and the local language. Also called Indostan, Indostans (cf Scots) . By earlier authors sometimes applied to Hindi itself. 23اس تحریر میں جو باتیں ’’ہابسن جابسن‘‘ کے علاوہ غلط ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:(۱) ہندوستان کے مسلمان ’’فتح یاب‘‘ حملہ آور کئی تھے۔ یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ Muslim conquerors of Hindustan سے کیا مراد ہے۔ نہ یہ واضح کیاگیا کہ ’’ہندوستان‘‘ سے کیا مراد ہے۔ (۲) آگے چل کر کہا گیا کہ خاص کر یہ زبان ’’مغل فاتحوں‘‘ کی لشکر گاہ کی زبان تھی۔ یہ بات سراسر غلط بھی ہے اور اوپر کے بیان سے متناقض بھی۔ (۳) جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، یہ بات بھی غلط ہے کہ ’’اردو‘‘ نام اس لیے پڑا کہ یہ کسی لشکر گاہ کی زبان تھی۔ (۴) ’’پرانے مصنفوں‘‘ نے اس زبان کو ’’ہندی‘‘ سے متحد نہیں قرار دیا، بلکہ اس ہی زبان کا نام ’’ہندی‘‘ تھا۔ یہاں ’’ہندی‘‘ سے مراد جدید ہندی نہیں، بلکہ وہی زبان ہے جس کا نام بعد میں ’’اردو‘‘ ہوا، اور جسے انگریزوں نے ’’ہندوستانی‘‘ کہہ کر پکارنا چاہا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے وہ ’’ہابسن جابسن‘‘ کے مرتبین ہوں، یا ادای ڈی کے علما، دونوں نے لفظ ’’ہندوستانی‘‘ کی تعریف انگریزی ادراکات یا انگریزی سیاسی پالیسی کے اعتبار سے لکھی ہے، انگریزوں کی نظر میں ’’ہندوستانی‘‘ اور ’’ہندی‘‘ دو الگ الگ زبانیں ہیں۔ ہندوؤں کے لیے ’’ہندی‘‘ اور مسلمانوں کے لیے ’’ہندوستانی۔‘‘ اسم زبان کے طور پر ’’ہندوستانی‘‘ کبھی مقبول نہ ہوا۔ مقامی بولنے والوں کی نظر میں اس زبان کا نام ’’ہندی‘‘ یا ’’ریختہ‘‘ تھا، اور وہ اسی پر قائم رہے۔ لیکن دیکھیے ڈاکٹر جان گلکرسٹ صاحب کس شان سے فرماتے ہیں، میں نے اپنی انگریزی ہندوستانی ڈکشنری میں اس زبان کی تفصیلات کافی ووافی حد تک مہیا کردی ہیں، یعنی جس حدتک کوئی یورپی مصنف ان سے کوئی سروکار رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا اب میں اس سے آگے بیان کرتا ہوں کہ ’’ہندوستان‘‘ (Hindoostan) ایک مرکب لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں ’’ہندوؤں کا ملک‘‘ یا ’’نیگرولوگوں کا ملک۔‘‘ اور اس ملک کے بارے میں کافی معلومات لوگوں کے پاس ہیں، لہٰذا یہاں اس پر کچھ مزید بیان غیرضروری ہے۔ اس ملک کے خاص باشندے ہندو اور مسلمان ہیں۔ ان کو اور ان کی زبان کو بھی ہم بے کھٹکے ایک عمومی، جامع اور مانع اصطلاح ’’ہندوستانی‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اور اس اصطلاح کو میں نے مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل وجوہ کی بناپر اختیار کیا ہے۔ اس ملک کا نام اور اس کی مقامی زبان، دونوں ہی جدید ہیں۔ لہذا جب میں اول اول اس زبان کے مطالعے اور مشق میں مشغول ہوا، تو مجھے اس زبان کے لیے ’’ہندوستانی‘‘ سے زیادہ مناسب نام کوئی نہیں معلوم ہوا۔ بے شک یہاں کے رہنے والے اور دوسرے لوگ بھی، اسے ’’ہندی‘‘ یعنی Indian کہتے ہیں، گویا اس نام کو ’’ہند‘‘ سے مشتق کرتے ہیں، جو کہ India کا قدیمی نام ہے۔ لیکن اس نام میں مشکل یہ ہے کہ اس سے ’’ہندووی‘‘ (Hinduwee)، یا ’’ہندوأی‘‘ (Hindoo’ee)، ’’ہندوی‘‘ (Hindvee)، کا التباس ہوسکتا ہے۔ اور یہ الفاظ ’’ہندو‘‘ سے مشتق ہیں۔ لہٰذا میں اپنی پرانی رائے پر قائم ہوں کہ اس ملک کی عوامی زبان کے لیے ہمیں اور سب نام مستقلاً ترک کردینے چاہیئں۔ اور وہ بے معنی نام Moors بھی ترک کردینا چاہیے۔ ان سب کی جگہ ہمیں صرف ’’ہندوستانی‘‘ کہنا چاہیے۔ یہاں کے لوگ اس زبان کو ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دیں یا نہ دیں، (اس کی کوئی اہمیت نہیں) کیوں کہ ان لوگوں میں امتیاز کی صلاحیت مناسب درجے کی نہیں ہے۔ اور اگر اس طرح کے مناسبات اور پابندیاں ان کی توجہ میں لائی بھی جائیں تو وہ ان کو عمل میں نہیں لاسکتے۔ ’’ہندوی‘‘ (Hinduwee) کو میں بلاشرکت غیرے ہندوؤں کی ملکیت قرار دیتا ہوں۔ اور اسی لیے اس اصطلاح کو میں نے ہمیشہ ہندوستان کی قدیم زبان کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے حملے کے پہلے یہاں مستعمل تھی۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت (فارسی، عربی، اور ہندوی کے درمیان) یہ زبان ہی ’’ہندوستانی‘‘ کی بنیاد یازمین کا کام کرتی ہے۔ ’’ہندوستانی‘‘ ایک نسبتاً تازہ بالائی تعمیر ہے، جو فارسی اور عربی پر مشتمل ہے۔ ان دو مؤخرالذکر کا وہی رشتہ ’’ہندوستانی‘‘ سے قرار دینا چاہیے جو لاطینی اور فرانسیسی کا انگریزی سے ہے۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ’’ہندوی‘‘ کا جدید ’’ہندوستانی‘‘ سے وہی تعلق ہے جو سیکسن (Saxon) کا جدید انگریزی سے ہے۔ اس کو حسب ذیل نقشے کے ذریعہ بیان کرسکتے ہیں، سیکسن۔۔۔ لاطینی۔۔۔ فرانسیسی۔۔۔ انگریزیہندوی۔۔۔ عربی۔۔۔ فارسی۔۔۔ ہندوستانی 24آپ نے ملاحظہ کیا کہ ہمارے گلکرسٹ بہادر نے کس طرح ہنستے کھیلتے اور کس انداز بے پروائی سے یہ اعلان کردیا کہ وہ مقامی باشندوں (natives) کی طرف سے فیصلہ کرسکتے ہیں، کیوں کہ بچارے native لوگوں میں اتنی سمجھ کہاں ہے کہ وہ امتیازات کو برت سکیں اور اپنا اچھا برا خود جان سکیں۔ ہندوستانی لوگ اپنی زبان کو ’’ہندی‘‘ کہتے ہیں تو کہیں، لیکن انگریز کی عقل کہتی ہے کہ ’’ہندی‘‘ سے ’’ہندو‘‘ کا تاثر پیدا ہوتا ہے، اس لیے یہ نام ٹھیک نہیں۔ خودگلکرسٹ صاحب کی معلومات کا یہ عالم ہے کہ وہ ’’ہندوی‘‘ کو نہ صرف یہ کہ خاص ہندوؤں کی ملکیت قرار دیتے ہیں بلکہ وہ اسے ایسی زبان کہتے ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کے ’’حملے‘‘ کے پہلے رائج تھی۔ (کون سے ’’حملے‘‘ سے پہلے، اس کی وہ صراحت نہیں کرتے۔) اس پر طرہ یہ کہ وہ فارسی زبان، اور اس کے بولنے والوں پر (جن میں اس زمانے میں بہت سے ہندوستانی بھی تھے) یہ جھوٹا الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ فارسی میں ’’ہندو‘‘ کے معنی ’’نیگرو‘‘ ہوتے ہیں۔ 25گلکرسٹ کو یہ بات تو منظور ہے کہ پرانی ’’ہندوی‘‘ اور آج کی ’’ہندی‘‘ (یا گلکرسٹ کے الفاظ میں ’’ہندوستانی‘‘) میں وہی رشتہ ہے جو سیکسن اور انگریزی میں ہے، لیکن اس کو یہ خبر نہیں کہ ’’ہندوی‘‘ کوئی الگ زبان نہیں تھی، بلکہ ’’ہندی/ہندوستانی‘‘ کا ہی ایک نام تھی۔ اور نہ ہی اس زبان کا کوئی براہ راست تعلق مسلمان حملہ آوروں سے ہے۔ لیکن انگریز کو تو اپنی سیاست اس ملک میں رائج کرنی تھی۔ اسے حقائق سے لگاؤ تھا لیکن اسی حد تک جس حد تک اس کے سیاسی مصالح او رحقائق میں کوئی تناقض نہ ہو۔ ’’ہندی‘‘ کو ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دینے، اور ’’ہندی/ہندوی‘‘ کو ہندوؤں کی جھولی میں ڈالنے کی کوششیں گلکرسٹ کے پہلے سے ہو رہی تھیں۔ فرق بس یہ ہے کہ گلکرسٹ کی باتوں کو زیادہ مقبولیت فورٹ ولیم کالج کی وجہ سے ملی۔ گلکرسٹ سے پہلے ہندوستانی زبانوں کے ایک ’’ماہر‘‘ نتھینیل ہال ہیڈ (Nathaniel Halhed) نے ۱۷۷۸ء میں بنگالی کی ایک گرامر انگریزی میں لکھی۔ برنارڈ کون (Bernard S. Cohn) کہتا ہے، بنگال میں اپنے وقت کی لسانی صورت حال کے وجوہ بیان کرنے کے لیے ہال ہیڈ نے اپنی گرامر کے دیباچے میں ایک تاریخی استدلال و نظریہ تعمیر کیا۔ اس نے بنگال میں سنسکرت او ربنگالی کے علاوہ دو دیگر اہم زبانوں کی نشان دہی کی۔ ایک تو فارسی اور دوسری ’’ہند ستینک‘‘ (Hindustanic) ۔ اس مؤخرالذکر کی اس نے دو قسمیں بتائیں۔ ایک تو وہ، جو سارے ’’ہندوستان‘‘ میں بولی جاتی تھی اور جو بقول اس کے ’’بلاشبہ سنسکرت سے مشتق تھی۔‘‘ اس زبان کا سنسکرت سے وہی رشتہ تھا جو فرانس اور اٹلی کی جدید بولیوں کا خالص لاطینی سے تھا۔ ہال ہیڈ کا بیان تھا کہ ’’ہندستینک‘‘ کی دوسری قسم کا آغاز و ارتقا مسلمانوں کا مرہون منت ہے۔ وہ لوگ ہندوؤں کی زبان سیکھنے سے قاصر تھے، کیوں کہ اپنی زبان کے خالص روپ کو قائم رکھنے کے لیے انہوں (ہندوؤں) نے (اپنی زبان میں) سنسکرت کے الفاظ کثیر سے کثیر تعداد میں داخل کرلیے تھے۔ ادھر مسلمان ’’حملہ آوروں‘‘ نے طرح طرح کے ’’عجیب اور غیرمانوس‘‘ الفاظ اپنی زبانوں سے لے کر (مقامی زبان میں) داخل کرنا شروع کیے۔ ان الفاظ کو مسلمانوں نے ’’اصل ہندستینک کے نحوی اصولوں پر ا وپر سے ڈال دیا۔‘‘ ہال ہیڈ کا بیان ہے کہ ہند ستینک کا یہ روپ ایک ملواں محاورہ تھا، جسے وہ ہندو بولتے تھے جو مسلمانوں کے درباروں سے متعلق تھے۔ دوسری طرف، وہ ’’برہمن اور دوسرے تعلیم یافتہ‘‘ ہندو تھے، ’’جن کی جاہ پرستی ان کے اصولوں پر غالب نہ آئی تھی۔‘‘ یہ لوگ ’’ہندستینک‘‘ کا خالص روپ لکھتے اور بولتے تھے۔ ان کا رسم خط عربی کے بجائے ناگری حروف پر مبنی تھا۔ 26اس مجموعہ خرافات پر کسی رائے زنی کی ضرورت نہیں، بجز اس کے کہ یہاں ہم گلکرسٹ کی شاہانہ تجاویز کا ہی نہیں بلکہ فیلن (۱۸۶۶ء) سے لے کر پلیٹس (۱۸۸۴ء)، ہابسن جابسن(۱۸۸۶ء)، اور اوای ڈی (۱۹۹۳ء) میں بیان کردہ ’’اردو‘‘ اور ’’ہندوستانی‘‘ کی تعریفوں کا سرچشمہ دیکھ سکتے ہیں۔ 27 یہاں ہم گلکرسٹ کی پراعتماد پیشین گوئی کی بھی بنیاد دیکھ سکتے ہیں۔ گلکرسٹ نے ۱۷۹۸ء میں کہا تھا، بالآخر یہ ہوگا کہ ہندو لوگ قدرتی طور پر ’’ہندوی‘‘ کی طرف جھکیں گے اورمسلمان، لامحالہ عربی اور فارسی کی پچ کریں گے۔ اس طرح، دو اسلوب جنم لیں گے۔۔۔ 28یہ بات الگ ہے کہ گلکرسٹ کی پیشین گوئی تقریباً صحیح ثابت ہوئی لیکن اس سلسلے میں ہمیں یہ ہرگز نہ بھولنا چاہیے کہ یہ پیشین گوئی جن بنیادوں پر قائم تھی وہ اخلاقی اور تاریخی دونوں اعتبار سے بالکل جھوٹی تھیں۔ چونکہ گلکرسٹ صاحب کی عقل برتر بھی’’ہندوستانی‘‘ کو اس زبان کی حیثیت سے قائم کرنے میں ناکام رہی تھی، اس لیے ا نگریزوں نے مجبوراً اسے ترک کردیا اور انہیں ایک نعم البدل بھی مل گیا۔ ’’اردو‘‘ ایک ایسا نام تھا جس ہندوئیت کی بو دور دور تک نہ تھی۔ اس کے علی الرغم، چونکہ یہ لفظ ترکی الاصل تھا، اس لیے اس کے مسلمانی رشتے واضح تھے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، شاہ جہاں آباد شہر کو لوگ رفتہ رفتہ ’’اردوے معلیٰ‘‘ کہنے لگے تھے اور جو زبان وہاں بولی جاتی تھی، اسے ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ خان آرزو نے ۱۷۵۰ء کے آس پاس فارسی کو ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ بتایا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے خان آرزو کی ایک اور کتاب ’’دادسخن‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔ میں اس کتاب سے واقف نہیں ہوں، لیکن ڈاکٹر موصوف فرماتے ہیں کہ اس میں ایک جگہ خان آرزو نے ’’شعر ریختہ‘‘ کی تعریف میں لکھا ہے کہ یہ وہ شاعری ہے جو ’’زبانِ ہندی اہل اردوے ہند‘‘ میں ’’غالباً (یعنی زیادہ تر) بطریق فارسی‘‘ لکھی جاتی ہے۔ 29 اس بیان کی روشنی میں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس وقت تک ہماری زبان کا نام ’’اردو‘‘ نہ تھا۔ ورنہ خان آرزو اسے ’’ہندی اہل اردوے ہند‘‘ (یعنی شاہجہاں آباد کی ہندی) کیوں کہتے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ’’ہندی اہل اردوے ہند‘‘ کہہ کر خان آرزو اس شاعری کو شمال کی زبان تک محدود کر رہے ہیں۔ ادبی تہذیب کی طرف اشارے کے طور پر، اس سلسلے میں میر کی ’’نکات الشعرا‘‘ کا بھی حوالہ دیکھیے جو میں نے اوپر درج کیا ہے۔ (حاشیہ۱۷) جنوری ۱۷۷۲ کے زمانے سے، جب ’’ہندی‘‘ کو شاہ عالم ثانی کی عملی سرپرستی اور مشق سخن کا اعزاز نصیب ہوا، تو فارسی کے بجائے ’’ہندی‘‘ ہی کو ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ کہا جانے لگا۔ پھر دھیرے دھیرے یہ نام گھٹ کر ’’زبان اردو‘‘ /’’اردو کی زبان‘‘ ہوا، اور بالآخر محض ’’اردو‘‘ رہ گیا۔ یہ مخفف نام فوراً مقبول خاص و عام تو نہ ہوا لیکن یہ بات انگریزوں کے لیے اہم تھی کہ لفظ ’’اردو‘‘ کی اصل ترکی تھی، اور ریختہ/ہندی میں لفظ ’’اردو‘‘ کے معنی اور چیزوں کے ساتھ ساتھ ’’لشکر گاہ، لشکر بازار‘‘ بھی تھے۔ اس طرح انگریزوں کے لیے یہ خیال پیش کرنا آسان تھا کہ ہندی/ریختہ کی پیدائش مسلمان فوجوں کی لشکر گاہوں اور لشکر بازاروں کی ہے، اور اسی لیے اس کا نام ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘ ہے۔ 30اس مفروضے کا قدیم ترین مطبوعہ منبع میر امن کا داستانی قصہ ’’باغ و بہار‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ’’باغ و بہار‘‘ ایک نثری قصہ ہے جو فورٹ ولیم کالج میں ۱۸۰۱ء سے ۱۸۰۴ء کے دوران وجود میں آیا۔ یہ کتاب گلکرسٹ کے زیر نگرانی لکھی گئی اور اسے انگریزوں کو اردو پڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ 31 میرا من نے لکھا ہے کہ میں نے یہ کہانی ’’اردوے معلیٰ کی زبان‘‘ میں لکھی ہے۔ 32 وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مجھ سے ’’گلکرسٹ صاحب نے۔۔۔ فرمایا‘‘ کہ یہ قصہ: ٹیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندومسلمان مرد عورت لڑکے بالے خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔ 33بعد کے صفحات میں، میرامن نے اپنے قاریوں کو ’’اردو کی زبان‘‘ کی ’’حقیقت‘‘ سے روشناس کرنے کا فریضہ یوں انجام دیا، ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود غزنوی آیا۔ پھر غوری اور لودی بادشاہ ہوئے۔ اس آمد و رفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندومسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے شہر کا بازار ’’اردو‘‘ کہلایا۔۔۔ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے، تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر حضور میں آکر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین سوداسلف، سوال جواب کرتے، ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ 34مذکورہ بالا بیان جھوٹ سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ میرامن نے جو لکھا وہ انگریزوں کے زیر اثر لکھااور انہیں خوش کرنے کے لیے لکھا۔ انہیں ہرگز توقع نہ تھی کہ ان کی کتاب کو کبھی ہندوستانی بھی پڑھیں گے۔ صدیق الرحمن قدوائی نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وہ کتاب جو اصلاً ہندوستانی نہ تھی، اردو نثر کے مقبول ترین شاہکاروں میں شمار ہوئی۔ صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے، (اردو کی) جو کتابیں فورٹ ولیم کالج کے زیر اہتمام تیار ہوئیں، وہ اولاً یا اصلاً، اردو کے قاری کے لیے نہ تھیں۔۔۔ ’’باغ و بہار‘‘ کے ایڈیشن پیرس اور لندن سے تو نکلے لیکن کلکتہ کے سوا کسی ہندوستانی شہر سے نہ شائع ہوئے۔۔۔ وہ ادبی کارنامے جو ہندوستانی نہیں تھے، بایں معنی کہ وہ ہندوستانی قاری کے لیے نہ تھے، اردو نثر کے سب سے زیادہ مقبول اور کثیر القرأت کلاسک بن گئے۔۔۔ یہ ایسا عجوبہ ہے جس کے وجود میں آنے کی وجہ اردو نثر کے ماہرین ابھی تک بیان نہیں کرسکے ہیں۔ 35ان کا خیال تھا کہ یہ کتاب انگریزوں کو اردو سکھانے کے لیے ہے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ شکست خوردہ نو آبادیاتی تہذیب اس کتاب کو حرزجاں بنالے گی، اپنی نثر کی تاریخ اس سے ہی شروع کرے گی او ریہ کتاب ہر اردو بولنے والے کے گھر میں اہم متن کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ ورنہ انہوں نے اپنی طرف سے مذکورہ بالا بیان میں کئی باتیں ایسی کہی تھیں اور کئی اہم باتیں اس طرح ان کہی چھوڑدی تھیں کہ پوری عبارت کو پڑھ کر کوئی بھی محتاط اور متوجہ قاری سمجھ سکتا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ مثال کے طور پر:(۱) میرا من نے محمود غزنوی، غوری، اور لودیوں کا ذکر یوں کیا ہے گویا یہ سب ایک دوسرے کے متصل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ محمود غزنوی (وفات ۱۰۳۰ء) سے محمد غوری (وفات ۱۲۰۶ء) تک پونے دو سو برس ہیں۔ اور پھر غوری سے لے کر پہلے لودی سلطان بہلول لودی (زمانۂ حکومت کا آغا ۱۴۵۲ء) تک ڈھائی سو برس کا فصل ہے۔ تیمور ان سے بہت پہلے (۱۳۹۸ء) یہاں آکر جاچکا تھا۔ (۲) میرا من لکھتے ہیں کہ ’’امیر تیمور کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا چلا آتا ہے۔‘‘ گویا تیمور (۱۳۹۸ء) سے تادم تحریر (۱۸۰۱ء) ایک ہی گھرانے کی حکومت رہی۔ ظاہر ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ محمود غزنوی سے لے کر شاہ عالم ثانی تک کئی انفصال ہیں۔ تسلسل بالکل نہیں۔ لہٰذا اردو کی کہانی کو بادشاہوں (اور شاہان مغلیہ) کی کہانی سے مربوط کرنے کے لیے ایک فرضی تسلسل قائم کیا جارہا ہے۔ (۳) تیمور اور اکبر کے درمیان بھی کئی انفصال ہیں، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اکبر کبھی دہلی میں رہاہی نہیں۔ دہلی اور اکبر کا قریب ترین علاقہ ہیمو سے جنگ کے دوران ہوا تھا (۱۵۵۶ء) جب اکبر اور اس کی افواج دہلی سے کوئی پچاس میل دور پانی پت میں صف آرا ہوئیں۔ (۴) سب سے اہم بات یہ کہ میرامن نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ جس زبان میں وہ قصہ ’’باغ و بہار‘‘ لکھ رہے ہیں، قدیم الایام سے ان کا نام ’’ہندی/ہندوی‘‘ ہے، اور ان کے اپنے زمانے میں اس کامقبول ترین نام ’’ہندی‘‘ ہے۔ یہ سب ایک طرف رہا۔ درسی کتاب کی حیثیت سے ’’باغ و بہار‘‘ کی غیر معمولی کامیابی کانتیجہ یہ ہوا کہ میرامن کے قصے کو ہر مفہوم میں مقبولیت اور قبولیت عام نصیب ہوئی۔ سنجیدہ ماہرین لسانیات، مثلاً گریرسن بھی اس دھوکے میں آگئے کہ ’’اردو‘‘ ایک ملغوبہ ہے، مختلف قبائل اور گروہوں کی بولیوں کا۔ گریرسن نے بعد میں اس خیال کی تردید کی۔ اس نے لکھا، یہ بات قارئین کی نظر میں ہوگی کہ یہاں (یعنی زیر نظر کتاب میں، موجودہ مقام پر) ہندوستانی کے آغاز کی روادد جو میں نے بیان کی ہے، وہ ان بیانات سے بہت مختلف ہے جو مختلف مصنفین (بشمول راقم الحروف) نے اس موضوع پر اس سے پہلے سپرد قلم کیے ہیں۔ ہمارے گزشتہ بیانات میرامن کے دیباچۂ ’’باغ و بہار‘‘ پر مبنی تھے۔ میرامن کی رو سے اردو، متنوع قبائل کی زبانوں کا غیراصیل ملغوبہ تھی، اور یہ قبائل وہ تھے جو دہلی کے بازار میں جوق درجوق جمع ہوتے تھے۔ 36گریرسن نے بھی بات پوری طرح صاف نہ کی تھی، کیوں کہ میرامن نے زبان کانام ’’اردو‘‘ نہ لکھا تھا، بلکہ ’’اردو‘‘ (یعنی دہلی) کی زبان‘‘ لکھا تھا۔ گریرسن خود اس زبان کو کبھی ’’ہندوستانی‘‘، کبھی ’’اردو‘‘ کہتا ہے۔ لہٰذا گریرسن بھی اس بات کو کھل کر تسلیم نہیں کرتا کہ اس زبان کا صحیح نام ’’ہندی‘‘ تھا، اور ’’ہندوستانی‘‘ یا ’’اردو‘‘ وہ نام ہیں جو انگریزوں کے موافق مزاج تھے۔ دوسری بات یہ کہ وہ میرا من پر تو الزام دھرتا ہے، لیکن یہ بتانا بھول جاتا ہے کہ گلکرسٹ نے بھی اردو کو ’’ملواں زبان‘‘ (mixed language) بتایا تھا۔ لیکن ’’ہندی‘‘ اور’’اردو‘‘ کو دو مختلف زبانوں کے ناموں کی حیثیت سے قائم ہوتے بہت دیر لگی۔ ’’اردو‘‘ نام کے خلاف اس زبان کے بولنے والوں کی مقاومت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس نام کے ذریعے خود اس زبان کے آغاز اور نوعیت کے بارے میں باطل تصورات ذہن میں خواہ مخواہ پیدا ہوتے تھے۔ 37 ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے انہیں باطل تصورات کا شک پیدا ہونے کی بناپر یہ تجویز رکھی تھی کہ ’’اردو‘‘ کا نام ’’ہندوستانی‘‘ رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ’’ہندی‘‘ اس وقت تک ایک مختلف زبان کی حثییت سے قائم ہوچکی تھی، اس لیے علامہ کے زمانے میں یہ نام اہل اردو کو میسر نہ ہوسکتا تھا، ورنہ وہ شاید ’’ہندی‘‘ ہی نام رکھنے کے حق میں سفارش کرتے۔ 38لکھنؤ کے ایک طبیب اور شاعر احد علی خاں یکتا نے ۱۷۹۸ء میں یا اس کے کچھ قبل، ایک تذکرہ نما کتاب ’’دستور الفصاحت‘‘ لکھی۔ انہوں نے ۱۸۱۵ء میں اس میں کچھ اضافے کیے۔ 39 یہ کتاب یوں تو اردو صرف و نحو کے بارے میں ہے، لیکن اس میں کچھ اہم شعرا کے حالات بھی ہیں اور ایک نہایت قابل قدر دیباچہ ہے۔ (وہ اس زبان کے نام کے لیے ’’ہندی‘‘ اور ’’اردو‘‘ دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں۔) یہ کتاب انہوں نے لکھنؤ میں، انگریزوں کے اثر یا دباؤ سے بہت دور، لکھی۔ اس کے دیباچے میں انہوں نے اردو زبان کے آغاز پر جو کلام کیا ہے اس موضوع پر کسی باعلم اہل اردو کی پہلی مطبوعہ تحریر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یکتا نے لکھا، اور اس زبان نفیس کے حدوث کا سبب یہ ہے کہ جب سواداعظم ہندوستان اور اس زمین منفعت بنیان کے منافعات دوسری اقلیم کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں اور اس ملک کی زرریزی دنیا میں ہر طرف ظاہر اور بے حد مشہور ہے، اور اس ملک کے امرا اور سلاطین کا مرتبہ، شوکت اور ثروت، ہمت اور سخاوت میں دوسری اقالیم کے عمائد دولت اور ارکان سلطنت سے زیادہ ٹھوس اور بلند ہے، تو یہ لازم ہوا کہ دانایان دہر اور عاقلان عصر، اور ہر فن و ہنر کے کاملین اور فاضل و عالم، شعر ا اور شرفا، دنیامیں جہاں جہاں تھے اور جس طرف تھے، انہوں نے اس سواد اعظم مراد توام کا رخ کیا اور اپنے دل خواہ مقاصد اور مرادوں کو پہنچے۔ اور ان میں سے اکثر نے اس زمین ارم تزئین کو اپنا وطن قرار دے لیا۔ اس طرح، دربار میں ان کی آمد و شد اور اس دیار کے لوگوں کے ساتھ معاملات درپیش ہونے کے باعث انہیں اس زبان میں گفتگو کے علاوہ چارہ نہ تھا۔ یہ ناگزیر ہوا کہ ان کی صحبتیں ان سے، اور ان کی صحبتیں اِن سے پیش آنے کے دوران، اثناے گفتگو میں، لوگو ں نے ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ ضرورت بھر سیکھ لیے۔ اور جب یہ معاملہ ایک مدت تک رہااور اس پر ایک عمر صرف ہوگئی تو ایک دوسرے کی زبان سے الفاظ اور کلمات کے ارتباط و امتزاج کے نتیجے میں وہ صورت پیدا ہوئی کہ جسے ایک نئی زبان کہا جاسکتا تھا۔ اب نہ عربی، عربی رہی اور نہ فارسی ہی فارسی رہی۔ اور اسی پر قیاس کرسکتے ہیں کہ وہ تمام بولیاں بھی جو ہندی زبانوں میں شامل ہیں، اپنی اصل پر نہ رہیں۔ لیکن اس وقت بھی ایک نحو واحد، جیسا کہ ہونا چاہیے، نہ قرار پائی تھی۔ اور اس زبان نے وہ مرتبۂ فصاحت نہ حاصل کیا تھا جو اسے اب میسر ہے۔۔۔ اور ہر قوم اپنے محاورے کو دوسرے کے محاورے پر ترجیح دیتی تھی۔ 40آگے چل کر یکتا نے لکھا کہ ’’ناچار، عقلا اور داناؤں‘‘ نے ایک معیاری روزمرہ اور محاوہ متعین کیا۔ اس کے شرائط میں حسب ذیل باتیں شامل تھیں:کلمات سنجیدہ و الفاظ پسندیدہ، ہر زبان اور ہر محاورے سے، جیسا کہ ہونا چاہیے، صحت اور درستی کے ساتھ اخذ کیے جائیں، اس طرح کہ اپنی آسانی کے باعث مفید مطلب ہوں اور زبان کے تنافر اور ثقالت سے دور ہوں۔۔۔ گفتگو پایۂ فصاحت و بلاغت سے ساقط نہ ہو۔ بلکہ بہت صاف، مانوس طبع اور ہر شریف آدمی اور معمولی آدمی کے لیے قریب الفہم ہو۔۔۔ لیکن شروط مذکورہ کے ساتھ یہ زبان بعض باشندگان شاہجہاں آباد کے علاوہ کسی کے پاس ہے نہیں۔ اور یہ لوگ وہ ہیں جو فصیل شہر مذکور کے اندر سکونت گزیں ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہیں، جو مذکورہ بالا بزرگواروں کی اولاد ہیں، اگرچہ کچھ عرصے سے یہ صاحبان یا ان کی اولادوں نے شہر چھوڑ کر اور جگہوں پر اقامت اختیار کرلی ہے۔ چنانچہ اسی طرح ان اہل لکھنؤ کی زبان ہے جو قدیم الایام سے اس شہر (لکھنؤ) کے باشندے نہیں ہیں، نہ زمانہ گزشتہ میں وہاں نہ تھے۔ فی الوقت ان لوگوں کی زبان، دوسروں کے مقابلے میں فصاحت سے قریب تر ہے۔ 41یکتا کے مندرجہ بالا بیانات اس لسانی خوبی کے تصور سے بالکل ہم آہنگ ہیں جو دہلی والوں نے ریختہ/ہندی شاعری کے دہلی میں مقبول ہوتے ہی اپنے لیے مختص کرلی تھی۔ 42 دہلی والوں نے سیاسی دارالخلافہ کا باشندہ ہونے کے زعم میں یہ فیصلہ کرلیا کہ انہیں ہندی/ریختہ کا لسانی دارالخلافہ بھی ہونے کا اختیار ہے۔ چنانچہ جلد ہی یہ بات کم و بیش طے شدہ مان لی گئی کہ دہلی کی ادبی تہذیب اور ریختہ کی ادبی تہذیب ایک ہی شے ہیں۔ انگریزوں کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن ’’اردو‘‘ کے آغاز کے بارے میں نظریات یا افسانوں کا معاملہ اور تھا۔ یکتا نے اردو/ہندی زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں، وہ ان کے زمانے کے پڑھے لکھے اہل زبان (مادری زبان کی حیثیت سے اس زبان کو بولنے والوں) کے مشترک اور مقبول ادراک پر مبنی رہی ہوں گی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تصورات اور ادراکات کسی بھی صورت سے ’’مسلمان حملہ آوروں اور فاتحوں‘‘ کے بارے میں افسانوں سے مطابقت نہ رکھتے تھے، کہ یہ زبان تو ’’حملہ آوروں اور فاتحوں‘‘ کی زبان تھی، اور اس زبان کو صرف ان ہندوؤں نے بدرجہ مجبوری قبول کیا تھا جو مسلمانوں کی ملازمت میں تھے۔ یکتا کو لسانیات یا تاریخی یا تقابلی لسانیات میں درک نہ تھا (یہ فنون اس زمانے میں موجود بھی نہ تھے) لہٰذا انہیں اس بات کی خبر نہ تھی کہ وہ بولی، جسے بعد کے لوگوں نے ’’کھڑی بولی‘‘ کا نام دیا اور ’’ہندی/اردو‘‘ جس کی ترقی یافتہ شکل ہے، شمالی ہند میں مسلمانوں کی آمد کے پہلے سے موجود تھی۔ مسلمانوں نے صرف یہ کیا کہ اس بولی کو مستقبل زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کیمیائی ایجنٹ کا کام کیا۔ لیکن یہ باریک باتیں تو لسانیات کے علما کی دلچسپی کی ہیں۔ اردو کے آغاز و ارتقا کے بارے میں احد علی خاں یکتا کا بیان عمومی طور پر درست ہے۔ اور یہ بیان میرا من کی انگریز پسندیدہ کہانی سے تمام اہم معاملات میں مختلف ہے۔ اس بات کی شہادتیں موجود ہیں کہ خود ہندوؤں نے، جن کی ’’بھلائی‘‘ کی خاطر ایک پوری نئی لسانی روایت انیسویں صدی میں وضع کی جارہی تھی، اس نئی تشکیل کو کچھ بہت خوشی سے نہ قبول کیا۔ بلکہ شروع شروع میں تو بہت سے ہندوؤں کا رویہ اس نئی زبان کی طرف معاندانہ تھا۔ کرسٹوفرکنگ (Christopher King) کہتا ہے کہ یوپی میں ۱۸۵۰ء تک بھی ’’پڑھے لکھے ہندوؤں کا ایسا طبقہ نہ پیدا ہوا تھا جس کی وابستگی کھڑی بولی/ ہندی کی اس تسلسلی وضع سے تھی، جس کی بناپر وہ خود کو اردو بولنے والوں سے الگ قرار دے سکتے تھے۔‘‘ کنگ کا کہنا یہ بھی ہے کہ وسط انیسویں صدی میں ’’اگر ہم سنسکرت کی روایت میں تعلیم پائے ہوئے ہندوؤں کے ایسے بیانات سے دوچار ہوں جن میں کھڑی بولی کے اس نئے طرز (یعنی انگریزوں کی بنائی ہوئی جدید ہندی) کے وجود سے انکار کیا گیا ہو، تو یہ کچھ حیرت کی بات نہ ہوگی۔‘‘ اس کے بعد وہ حسب ذیل واقعہ بیان کرتا ہے، بنارس کالج کے شعبہ انگریزی کے صدر ڈاکٹر جے آر بیلن ٹائن (J.R.Ballentyne) نے ۱۸۴۷ میں یہ تہیہ کیا کہ سنسکرت کالج کے طلبہ کا طرز و اسلوب اس زبان میں بہتر بنایا جائے جسے ڈاکٹر بیلن ٹائن ’’ہندی‘‘ کا نام دیتے تھے۔ (ملحوظ رہے کہ بنارس کالج کا قدیم تر حصہ سنسکرت کالج ہی تھا۔۔۔) انہوں نے حکم دیا کہ میرے کچھ طالب علم ’’ہندی‘‘ میں مشقیں لکھیں۔۔۔ لیکن اس حکم کے بارے میں جس قسم کی مسلسل مقاومت اور عدم دلچسپی کا سامنا بیلن ٹائن کو کرنا پرا، اس سے تنگ آکر انہوں نے طلبہ کو حکم دیا کہ تم سب مل کر ایک مضمون لکھو جس میں یہ واضح کرو کہ ’’تم لوگ تاحین حیات جو زبان روزانہ بولتے ہو، اس کی تہذیب کو تم نگاہ حقارت سے کیوں دیکھتے ہو، درحالے کہ تمہاری مائیں اور بہنیں اس زبان کے علاوہ کسی بھی زبان کو سمجھ نہیں سکتیں۔۔۔‘‘ بالآخر ان طالب علموں اور ڈاکٹر بیلن ٹائن کے درمیان ایک مکالمہ وجود میں آیا۔ اور اس مکالمے کے ذریعے یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ کسی معیار بند ادبی بولی کی حیثیت سے ’’ہندی‘‘ زبان کا ان طالب علموں کو کوئی علم نہ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آتی کہ آپ یورپی لوگ، لفظ ’ہندی‘ سے کیا مراد لیتے ہیں، کیوں کہ دراصل سیکڑوں بولیاں ایسی ہیں جنہیں ہماری سمجھ کے مطابق ’ہندی‘ کہا جاسکتا ہے اور ان بولیوں میں سنسکرت کی طرح کا کوئی تصور معیاری زبان کا نہیں ہے۔‘‘ اور آخری بات یہ کہ یہ طلبہ، ڈاکٹر بیلن ٹائن کی ’’ہندی‘‘ سے کسی قسم کی وابستگی محسوس نہ کرتے تھے۔ یا یوں کہیں کہ یہ طلبہ، اردو =ہندو+ مسلمان کی مساوات کو قبول کرتے تھے۔۔۔ یہ رویے اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں جب ہم اس بات کا احساس کریں کہ پانچ دہائی بعد اسی کالج کے طلبہ نے ’’ہندی‘‘ اور ناگری رسم الخط کو فروغ دینے کی غرض سے ناگری پر چارنی سبھا کی بناڈالی۔ 43یہ بات، کہ انگریز بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے، اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اور یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ انگریزوں کے مقصود کی پشت پر نو آبادیاتی حاکم کی رعونت اور سیاست تھی۔ اسی طرح، یہ بات بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ اس مقصود کے حصول نے ’’ہندی/ہندو‘‘ تشخص کی وحدت کے بارے میں ایک خاص طرح کے عقیدے کو جنم دیا، اور اس کے باعث پرجوش جذبات اور گرم منصوبے ہماری ادبی اور لسانی تہذیب میں درآئے۔ 44 حواشی(۱) زمانۂ حال میں اس نظریے کو سب سے زیادہ تفصیل اور بسط کے ساتھ امرت رائے نے اپنی کتاب A House Divided: The Origin and Development of Hindi/Hindavi (نئی دہلی، آکسفورڈ، یونیورسٹی پریس، ۱۹۸۴) میں بیان کیا۔ امرت رائے کا نظریہ تضادات سے پر ہے اور اس کی بنیاد متعضبانہ ظن و تخمین بر ہے، نہ کہ ٹھوس حقائق پر۔ لیکن اردو والوں نے اس کا کوئی اطمینان بحش جواب تا حال نہیں دیا ہے۔ اس دوران اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا، جس میں اس کا ذیلی عنوان Origin and Development of Hindi/Urdu کردیا گیا ہے۔ میرے علم و اطلاع کے مطابق اہل اردو میں صرف مرزا خلیل احمد بیگ نے امرت رائے کا ردلکھا، لیکن وہ پوری طرح کارگر نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے آغازی سرچشموں کے بارے میں خود اردو والوں کے ذہن صاف نہیں ہیں۔ ملاحظہ ہو مرزا خلیل احمد بیگ کا مضمون ’’امرت رائے اور ہندی اردو کا مسئلہ‘‘، مشمولہ مرزا خلیل احمد بیگ: ’’لسانی تناظر‘‘، نئی دہلی، باہری پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ء۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ امرت رائے کا نظریہ دراصل ان کا نہیں، بلکہ ان کے والد نامدار پریم چند کے خیالات پر مبنی ہے۔ پریم چند کے یہاں امرت رائے کے نظریے کی اوائلی اور نرم صورت ملتی ہے۔ آریہ بھاشا سمیلن (لاہور، ۱۹۳۶ء) کے سامنے پریم چند نے جو خطبہ دیا، اس میں انہوں نے فرمایا، ’’مسلمانی زمانے میں اوشیہ (یقیناً) ہی ہندی کے تین روپ ہوں گے۔ ایک توناگری لپی (رسم خط) میں ٹھیٹھ ہندی، دوسری اردو، یعنی فارسی لپی میں لکھی ہوئی فارسی سے ملی ہندی، اور تیسری برج بھاشا۔۔۔ مسلمانوں کی سنسکرتی (تہذیب) ایران اور عرب کی ہے۔ اس کا زبان پر اثر پڑنے لگا۔ عربی اور فارسی شبد (لفظ) اس میں آآکر ملنے لگے، یہاں تک کہ آج ہندی اور اردو دو الگ الگ زبانیں سی ہوگئی ہیں۔‘‘ پریم چند کی اس تحریر کی طرف میری توجہ مانک ٹالہ کے ایک مضمون کے ذریعے منعطف ہوئی۔ یہ مضمون ’’ہماری زبان‘‘ نئی دہلی کی اشاعت مورخہ یکم جولائی ۱۹۹۷ء کے صفحہ اول پر شائع ہوا ہے۔ یہاں میں نے پریم چند کی اصل عبارت ان کی کتاب ’’کچھ وچار‘‘، مطبوعہ سرسوتی پریس، الٰہ آباد، ۱۹۹۷ء، ص ۷۴ تا ۷۵ سے نقل کی ہے۔ پریم چند کو شاید احساس نہ تھا کہ ان کی باتوں میں شر و فساد کے کتنے امکانات پوشیدہ ہیں۔ ورنہ اردو ہندی کے معاملے میں ان کا عام رویہ معتدل اور منصفانہ تھا۔ ملاحظہ ہوں باب دوم کے حواشی نمبر ۴۰ اور ۴۱۔ (۲) Edward Terry: A voyage to East India، مطبوعہ لندن، ۱۶۵۵ء بحوالہ Bernard Cohn, “The Command of Language and the Language of Command” مشمولہ Ranjit Guha(Ed) :Subaltern, Studies, IV, Writings on South Asian History and Society مطبوعہ نئی دہلی، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۹۴ء (۱۹۸۵ء)، ص۳۰۰۔ (۳) میر، ’’کلیات‘‘، جلد اول، مرتبہ ظل عباس، دہلی، علمی مجلس، ۱۹۶۸ء، ص۳۰۱۔ (۴) مثال کے طور پر، ’’اسرار خودی‘‘ میں اقبال کے شعر ہیں، ہند یم از پارسی بیگانہ ام ماہ نو باشم تہی پیمانہ امحسن انداز بیاں از من مجو خوانسار و اصفہاں از من مجوگرچہ ہندی در عذوبت شکر است طرز گفتار دری شیریں تر استظاہر ہے کہ یہاں ’’ہندی‘‘ سے ’’اردو‘‘ ہی مراد ہے۔ ’’اسرار خودی‘‘ پہلی بار ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ میں نے یہ اشعار ’’کلیات اقبال فارسی‘‘ مطبعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۸ء کے صفحہ ۱۱ سے نقل کیے ہیں۔ ان اشعار کی طرف متوجہ کرنے کے لیے میں مرزا خلیل احمد بیگ کا ممنون ہوں۔ (۵) مصحفی، ’’کلیات مصحفی‘‘، جلد اول، مرتبہ نورالحسن نقوی، دہلی، مجلس اشاعت ادب، ۱۹۶۷ء، ص۹۱۔ (۶) مصحفی، ’’کلیات‘‘، جلد اول (نقوی)، ص۳۸۔ (۷) مصحفی، ’’کلیات‘‘، جلد دوم، مرتبہ حفیظ عباسی، دلی، مجلس اشاعت ادب، ۱۹۶۹ء، ص۵۷۸۔ (۸) علامہ حافظ محمود شیرانی، ’’مقامات شیرانی‘‘، جلد اول، مرتبہ مظہر محمود شیرانی، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۶۶ء، ص۴۱۔ (۹) نورالحسن نیرکاکوروی، ’’نوراللغات‘‘، جلد اول، نیر پریس لکھنؤ، ۱۹۲۴ء، ص۲۶۵۔ (۱۰) جمیل جالبی نے اپنی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ جلد اول، مطبوعہ دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۷ء کے ص ۶۶۱ پر میر محمدی مائل کا ایک قطعہ نقل کیا ہے۔ اس کی تاریخ وہ قبل ۱۷۶۲ء قرار دیتے ہیں۔ اس قطعے کے تین شعروں میں لفظ ’’اردو‘‘ اسم لسان کے طور پر تین بار آیا ہے۔ لیکن مجھے اس بات میں سخت شک ہے کہ یہ قطعہ واقعی میر محمدی مائل کا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کا انداز خاصا بوجھل اور مصنوعی ہے، گویا یہ اشعار کہے نہیں، بلکہ گڑھے گئے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ ان میں شاہ جہاں کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے، وہ غیرتاریخی ہے اور میرامن کے ان بیانات سے ملتی جلتی ہے، جن کا ذکر آگے آئے گا۔ آخری بات یہ کہ قطعے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندی‘‘ بطور اسم لسان اب (یعنی وسط اٹھارویں صدی میں) بالکل غائب ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ مائل کے شعر ہیں، بولے وہ سن کے اردو کا میں پوچھتا تھا حالتم کھول بیٹھے پترہ اس شہر کا بھلامشہور خلق اردو کا تھا ہندوی لقباگلے سفینوں بیچ یہ لکھ گئے ہیں سب ملاشاہ جہاں کے وقت سے خلقت کے بیچ میں ہندوی تو (نام) مٹ گیا اردو لقب چلاڈاکٹر جمیل جالبی نے لفظ ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان کی تحقیق میں احتیاط سے شاید کام نہیں لیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ خان آرزو کی ’’نوادر الالفاظ‘‘ اور تحسین کی ’’نوطرز مرصع‘‘ میں لفظ ’’اردو‘‘ اسم زبان کے طور پر برتا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی کتابوں میں لفظ ’’اردو‘‘، زبان کے نام کے طور پر نہیں، بلکہ ’’شہر دہلی‘‘ کے معنی میں ہے۔ (۱۱) مصحفی، ’’کلیات‘‘، جلد سوم، مرتبہ نورالحسن نقوی، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۱ء ص ۲۶۱، اور ’’کلیات‘‘، حصہ سوم، مرتبہ حفیظ عباسی، دہلی، مجلس اشاعت ادب، ۱۹۷۵ء، ص۷۹۔ (۱۲) Henry Yule and A.C.Burnell: Hobson Jobson. A Glossary of Colloquial Anglo-Indian Words, Phrases, and of Kindred Terms, Etymological, Historical, Geographical and Discursiveمطبوعہ نئی دہلی، روپا اینڈ کو، ری پرنٹ ایڈیشن، ۱۹۸۶ء (اول اشاعت، ۱۸۸۶ء اشاعت ثانی، مع اضافہ ۱۹۰۲ء) (۱۳) انشاء اللہ خاں انشا، اور مرزا محمد حسن قتیل، ’’دریائے لطافت‘‘، مرشد آباد، مطبع آفتاب عالم تاب، ۱۸۵۰ء ص۱۱۶۔ چونکہ اس کتاب کا بڑا حصہ، خاص کر وہ جس کا تعلق لسانیات سے ہے، انشا نے لکھا تھا، لہٰذا لوگ سہولت کے لیے عام طور پر پوری ’’دریاے لطافت‘‘ کو انشا کی تصنیف بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب کے لسانیاتی عنصر کے حوالے دیتے وقت میں بھی اسی طریق عمل کی پابندی کروں گا۔ (۱۴) شہنشاہ شاہ عالم ثانی ’’عجائب القصص‘‘، مرتبہ راحت افزا بخاری، لاہور مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۵ء، ص۲۶۔ (۱۵) سراج الدین علی خان آرزو، ’’نوادرالالفاظ‘‘، مرتبہ ڈاکٹر سید عبداللہ، کراچی، انجمن ترقی اردو، پاکستان، ۱۹۹۲ء (۱۹۵۱ء) ص ۲۱۴، (متن) میں نے ’’نوادر‘‘ سے جتنے حوالے دیے ہیں، ان کا مقابلہ اس مخطوطے سے کرلیا ہے جو فورٹ ولیم کالج کی لائبریری میں تھا، اور اب قومی آرکائیوز، نئی دہلی میں محفوظ ہے۔ (۱۶) خان آرزو، ’’مثمر‘‘، مرتبہ ریحانہ خاتون، کراچی، انسٹی ٹیوٹ آف سنٹرل اینڈ ویسٹ ایشین اسٹڈیز، کراچی یونیورسٹی، ۱۹۹۱ء، ص۱۳ (متن) ۔ مزید ملاحظہ ہو، ڈاکٹر سید عبداللہ، ’’نوادرالالفاظ‘‘، دیباچہ، ص ص ۳۱ تا ۳۲۔ (۱۷) میر نے ’’نکات الشعرا‘ (۱۷۵۲ء) میں لکھا ہے کہ ریختہ کا فن ’’فارسی کے طرز میں، اور اردوے معلاے شاہجہاں آباد کی زبان میں شاعری‘‘ کا فن ہے۔ (’’نکات الشعرا‘‘، مرتبہ محمود الٰہی، مطبوعہ دہلی، ادارۂ تصنیف، ۱۹۷۲ء، ص۲۳) ۔ اس بیان کے ذریعے ہمیں اس تناؤ کی طرف اشارہ ملتا ہے جو اس زمانے میں ’’ہندی/ ریختہ‘‘ اور فارسی کی ادبی صورت حال کی تہہ میں موجود تھا۔ میر کا مقصود یہ ہے کہ فارسی کے بجائے ’’ہندی/ریختہ‘‘ کو بمرتبہ اول ولی کی ادبی زبان قرار دیں، لیکن وہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ ریختہ کی شاعری فارسی کے طرز پر ہی ہے۔ ایک طرح دیکھیں تو میر ’’عوامی‘‘ موقف کا اظہار کر رہے ہیں، اور خان آرزو کا موقف ’’علمی‘‘ اور ’’اشرافی‘‘ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میر ے کے اس بیان کی تہہ میں خان آرزو اور ان کے درمیان معاندت کارفرما ہو۔ مزید ملاحظہ ہو، خان آرزو کا بیان کہ ’’ریختہ‘‘ کی شاعری ’’ہندی اہل اردوے ہند‘‘ کی شاعری ہے، بطرز فارسی۔ (حاشیہ۲۸)۔ (۱۸) John Gilchrist: A Grammar of the Hindoostanee Language, or Part Third of Valume First, of a System of Hindoostanee Philology, Calcutta, at the Chronicle Press, 1796, page 261.(۱۹) امیرخسرو، ’’مثنوی نہ سپہر‘‘ (تاریخ تحریر، ۱۳۱۷ء/ ۱۳۱۸ء)، مرتبہ وحید مرزا، مطبوعہ Oxford University Press, for the Islamic Research Association, Calcutta, 1948 (Persian Side) . 1949 (English side) . ص۱۸۰۔ (۲۰) انیسویں صدی میں کیتھی کے نشیب و فراز کی تفصیلات کے بارے میں دیکھیے، Christopher King: One Language, Two Scripts, The Hindi Movement in Nineteenth Century India مطبوعہ بمبئی، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۹۴ء۔ کیتھی رسم الخط سے آج شاید ہی کوئی واقف ہو۔ انیسویں صدی کے اواخر تک یہ رسم خط موجودہ بہار، یوپی اور مدھیہ پردیش کے خاصے بڑے علاقے میں رائج تھا۔ ناگری رسم خط کو فروغ دینے کی سرکاری انگریزی پالیسی نے کیتھی کا قلع قمع کردیا۔ (۲۱) سید سلیمان ندوی، ’’نقوش سلیمانی‘‘، اعظم گڑھ، معارف پریس، ۱۹۳۹ء، صفحہ ۱۰۷۔ مولانا سید سلیمان ندوی دراصل ’’ہندوستانی‘‘ کو اسم لسان کے طور پر ’’اردو‘‘ سے بہتر قرار دیتے تھے، کیوں کہ لفظ ’’اردو‘‘ کے انسلاکات منفی تھے۔ اسی کتاب کے صفحات ۱۰۳ تا ۱۰۷ ملاحظہ ہوں۔ (۲۲) ہابسن جابسن، ص۷۱۴، مصنفین نے لفظ’’ہندوستانی‘‘ کے حدوث کے مغربی شواہد درج کیے ہیں۔ جو۱۶۱۶سے ۱۸۴۸تک کے زمانے کو محٰط ہیں۔ (۲۳) ملاحظہ ہو: The Compact Oxford Dictionary, Second Edition, Complete Text Reproduced Micro graphically, Oxford, 1993, p.769. اس کشنری میں لفظ ’’ہندوستانی‘‘ کے حدوث کے انگریزی شواہد پیش کیے گئے ہیں، جو ۱۶۱۶ء تا ۱۸۷۸ء کے زمانے کو محیط ہیں۔ آخری اقتباس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: ’’ہندوستانی یا اردو کوئی علاقائی بولی نہیں ہے، بلکہ لنگوافرانکا ہے۔‘‘ (۲۴) John Gilchrist: The Oriental Linguist, An Easy and Familiar Introduction to the Hindoostanee, or Grand Popular Language of Hindoostan, (Vulgarly, But Improperly, Called the Moors), Calcutta, Printed by P. Ferris, at the Post Press. 1802 (1798) . P.i.(۲۵) جدید ہندوستان کے انگریزی پریس میں اس کی صداے بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، وسودھا ڈالمیا کی کتاب (’’بھارتیندو ہریش چندر‘‘) پرواگیش شکلا کا تبصرہ، مطبوعہ The Book Review نئی دہلی، بابت ماہ اکتوبر، ۱۹۹۷ء، ص۲۰۔ ڈاکٹر شکلا فرماتے ہیں کہ فارسی زبان میں ’’ہندو‘‘ بہ معنی “nigger” ہے (گویا محض حبشی بھی نہیں، بلکہ افریقی/ہندوستانی لوگوں کے لیے وہ کلمہ تحقیر جو انگریزوں، امریکنوں نے سترہویں / اٹھارویں صدی میں ایجاد کیا تھا) اس پر میرے جواب کے لیے ملاحظہ ہو، The Book Review نئی دہلی، بابت ماہ اپریل ۱۹۹۸ء، ص ص ۳۷ تا ۳۸۔ (۲۶) ملاحظہ ہو رنجیت گوہا کی مرتب کردہ محولہ بالا کتاب میں برنارڈ کون کا مضمون، ص۲۹۸۔ (۲۷) میں ’’ہابسن جابسن‘‘ کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں۔ اب ملاحظہ ہو ایس ڈبلیو فیلن صاحب اپنی ڈکشنری میں لفظ ’’اردو‘‘ کے معنی کیا بیان کرتے ہیں، An army, a camp: a market, urdu.i mu’alla, the royal camp or army (generally means the city of Dihli or Shahjahanabad, and urdu’i mua’alla ki zaban, the court language) , this term is very commonly applied to the Hindustani language as spoken by the Muslims of India proper.مندرجہ بالا اقتباس فیلن کی ڈکشنری (اشاعت اول ۱۸۶۶ء) کے یوپی اردو اکیڈمی ایڈیشن، ۱۹۸۷ء کے صفحہ ۸۷ سے لیا گیا ہے۔ اب پلیٹس کی ڈکشنری (آکسفورڈ یونیورٹسی پریس، ۱۹۷۴ء، ص۴۰) کا اقتباس ملاحظہ ہو:Army, Camp, market of the camp, s.f. (urdu zaban) . The Hindustani language as spoken by the Mohammadans of India, and by Hindus who have intercourse with them or who hold appointments in the Government courts & c. (It is composed of Hindi, Arabic, and Persian, Hindi constituting the back bone, so to speak), urdu-i-mu’alla. The royal camp or army (generally means the city of Delhi or Shahjahanabad), the court language (=urdu-i-mu’alla ki zaban), the Hindustani language as spoken in Delhi. Compact Edidion, 1993, p. 2203) جہاں تک سوال ’’آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘‘ (O.E.D) کا ہے، تو اس میں ’’اردو‘‘ اور ’’ہندوستانی‘‘ کو ایک ہی چیز بتایا گیا ہے۔ اور آگے چل کر ’’ہندوستانی، جو لنگوافر انکا ہے‘‘ اور اردو، ’’جو پاکستان کی سرکاری زبان ہے‘‘ کے درمیان فرق کیا گیا ہے! منطقی تضادات کو لاپروائی سے دباکر چپٹا کردینے اور نظر سے غائب کردینے کی کوشش کی اس سے بہتر مثالیں ملنا مشکل ہوگا۔ گلکرسٹ بچارے کو تو پھر بھی کبھی کبھی کچھ شکوک و شبہات لاحق ہوجاتے تھے اور وہ حقائق کی تعبیر اپنے معتقدات کے موافق بنانے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ چنانچہ اپنی A Dictionary, English and Hindoostanee, (Calcutta, 1790) میں اس نے دعویٰ کیا کہ سنسکرت کا سرچشمہ ’’ہندوی‘‘ (Hinduweeہے)، اور ’’ہندوی‘‘ وہ زبان ہے جو مسلمانوں کی آمد کے پہلے سارے ہندوستان میں بولی جاتی تھی اس نے مزید یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ مسلمانوں کے بار بار کے حملوں کے نتیجے میں وہ زبان پیدا ہوئی جس کی ’’فوجی‘‘ صورت کو مسلمانوں میں ’’اردوے‘‘ (Urduwei) کہا جاتا ہے۔ اس کی ’’ادبی‘‘ صورت کو مسلمان ’’ریختہ‘‘ (Rekhta) کہتے ہیں اور ہندوؤں کی، عام بول چال والی زبان کی شکل میں اسے ’’ہندی‘‘ (Hindee) کہا جاتا ہے! (ملاحظہ ہو رنجیت گوہا کی مرتب کردہ محولہ بالا کتاب میں برنارڈ کون کا مضمون، ص۳۰۴) گلکرسٹ صاحب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ’’اردوے‘‘ کوئی لفظ نہیں۔ ایک مرکب کا آدھا حصہ ہے۔ ’’ہندی‘‘ زبان کی خیالی درجہ بندی بھی ملاحظہ ہو: فوجی زبان =اردوے، ادبی زبان =ریختہ، اور ہندوؤں کی زبان =ہندی۔ اس مبلغ علم پر بچارے گلکرسٹ صاحب ہندوستانیوں کو ان کی زبان کے نکات سکھانے چلے تھے۔ (۲۸) ملاحظہ ہو، گلکرسٹ، ’’گرامر‘‘، صii۔ (۲۹) ’’نوادر الالفاظ‘‘، ص۳۳۔ مزید ملاحظہ ہو، حاشیہ ۱۶۔ (۳۰) اوپر درج کردہ O.E.Dکا اقتباس ملاحظہ ہو، جس میں ’’ہندوستانی‘‘ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان فاتحوں کی زبان تھی۔ (۳۱) ’’باغ و بہار‘‘ کا متن ۱۸۰۱ء تا ۱۸۰۲ء کے آس پاس تیار ہوا۔ اسے ۱۸۰۳ء میں پریس بھیجا گیا، اور یہ ۱۸۰۴ء میں چھپ کر شائع ہوئی۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے، ’’باغ و بہار‘‘، مرتبہ رشید حسن خاں، نئی دہلی، انجمن ترقی اردو (ہند)، ۱۹۹۲ء، ص ص ۴۳ تا ۵۰ اور ۷۹ تا ۸۰ (دیباچۂ مرتب۔) (۳۲) ’’باغ و بہار‘‘ ص۲، متن۔ (۳۳) ایضاً، ص۶، متن۔ (۳۴) ایضاً، ص ۷ تا ۸، متن۔ (۳۵) Sadiq-ur-Rahman Kidwai: Gilchrist and the “Language of Hindoostan”, New Delhi. Rachna Prakashan. 1972. Pp.31-32(۳۶) Sir George Abraham Grierson: Linguistic Survey of India, Vol. IX, Part I, Calcutta, Superintendent, Government Printing, India, 1916, p.44(۳۷) گلکرسٹ کے بہت بعد بھی، غالب کو لفظ ’’اردو‘‘ کو بطور اسم لسان استعمال کرنے میں تکلف تھا۔ انہوں نے شیونرائن آرام کو ایک خط میں لکھا (مورخہ ۱۸دسمبر ۱۸۵۸ء) کہ ’’میرا اردو بہ نسبت اوروں کے اردو کے فصیح ہوگا۔‘‘ (’’غالب کے خطوط‘‘، جلد سوم، مرتبہ خلیق انجم، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ۱۹۸۷ء، ص۱۰۶۷) ۔ غالب نے ’’اردو‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جب کہ اسم لسان کے طور پر یہ مؤنث، اور ’’لشکر بازار/لشکر گاہ‘‘ کے معنی میں یہ مذکر ہے۔ یعنی اس زمانے تک ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان بہت مقبول نہ ہوا تھا۔ مصحفی کا شعر ہم اوپر دیکھ چکے ہیں (حاشیہ۱۰) جہاں لفظ ’’اردو‘‘ مذکر ہے، لیکن زبان کے معنی میں نہیں آیا ہے۔ محمد حسین آزاد کو غالب کے عیب نکالنے میں بظاہر لطف آتا تھا۔ انہوں نے (’’آب حیات‘‘، مطبوعہ کلکتہ، عثمانیہ بک ڈپو، ۱۹۶۷ء، (۱۸۸۰ء) ص۶۱۳) اس بات کو اعتراض کا ہدف بنایا ہے کہ غالب نے ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان مذکر استعمال کیا ہے۔ انہیں یہ خیال نہ رہا کہ لفظ ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان وسط انیسویں صدی میں مقبول نہ تھا۔ (۳۸) علامہ سید سلیمان ندوی، ’’نقوش سلیمانی‘‘، ص ص ۱۰۱ تا ۱۰۲۔ یہ مضمون اشاعت سے قبل، ۱۹۳۷ء میں لکچر کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ (۳۹) احد علی خان یکتا، ’’دستور الفصاحت‘‘، مرتبہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی، رام پور، رضا لائبریری، ۱۹۴۳ء، ص۲۷ (دیباچۂ مرتب) (۴۰) ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب ہفتم، ’’نئے زمانے نئی ادبی تہذیب۔‘‘ (۴۱) یکتا، ص۵ تا۶ (متن) (۴۲) ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب ہفتم، ’’نئے زمانے نئی ادبی تہذیب۔‘‘ (۴۳) کرسٹو فرکنگ، ص ص ۹۰تا ۹۱۔ (۴۴) وسودھا ڈالمیا نے گریرسن کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وہ عجیب و غریب، مزے دار، ملواں (hybrid) زبان جسے اصحاب یورپ ’ہندی‘ کے نام سے جانتے ہیں‘‘، دراصل ’’خودیورپی لوگوں‘‘ کی ہی ’’ایجاد کردہ‘‘ ہے۔ ڈالمیا مزید کہتی ہیں کہ ’’گزشتہ صدی کی ۱۸۶۱تا ۱۸۷۰ والی دہائی آتے آتے ’’ہندی کے قوم پرست حامی‘‘ جو ’’ہندی کے آغاز کے بارے میں اساطیر اورشجرے خلق کرنے میں مصروف تھے‘‘، اس بات کو نہایت ’’لغو‘‘ قرار دیتے ہیں کہ ’’ان کی زبان کوئی مصنوعی، موضوعی شے ہے۔‘‘ انہیں اس بات پر یقین تھا کہ ’’ہندی، شمالی ہند کی وسعتوں میں، تمام گھروں میں بولی جاتی تھی، اور یہ صورت حال مسلمانوں کے حملے کے پہلے سے تھی۔۔۔ جیسا کہ اکثر ہوا ہے، قوم پرستوں اور سامراجیوں میں کم از کم اس ایک بات پر اتفاق رائے تھا، یعنی ہندوؤں کی اپنی ایک زبان ہے، اور یہ زبان انہیں آج ہی کے مسلمانوں سے نہیں، بلکہ زمانہ گزشتہ کے بھی مسلمانوں سے ممیز کرتی تھی۔ دونوں میں اختلاف تھا تو بس اس بات کا، کہ انگریزوں کا دعویٰ اور زور اپنے بارے میں تھا کہ ہم نے یہ زبان خلق کی۔ یہ ہمیں تھے جنہوں نے اس کو مسلمانی ملبے سے نکالا، وہ سارا ملبہ جو اس کے اندر اور چاروں طرف جمع ہوگیاتھا۔ اس کے برخلاف، ہندوؤں کہ اگرچہ یہ بات تسلیم تھی کہ اس (جدید) ہندی زبان میں کوئی ادب نہ تھا، لیکن وہ یہ بھی دعویٰ کرتے تھے کہ اس زبان کا تسلسل قدیم الایام سے تھا۔‘‘ ملاحظہ ہو وسودھا ڈالمیا کی کتاب، جسے ہندی کے حلقوں میں کچھ خاص تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے، Vasudha Dalmia: The Nationalization of Hindu Traditions: Bharatendu and Ninteenth Century Banaras: New Delhi, Oxford University press, 1997, pp.149-150