تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں

تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں


ساحل پر تو سب کے ہوں گے اپنے اپنے لوگ
رہ جائے گی کشتی کی ہر بات سمندر میں


ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں
کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں


میں ساحل سے لوٹ آیا تھا کشتی چلنے پر
پگھل چکی تھی لیکن میری ذات سمندر میں


کاٹ رہا ہوں ایسے امجدؔ یہ ہستی کی رہ
بے پتواری ناؤ پہ جیسے رات سمندر میں