ٹالنے سے وقت کیا ٹلتا رہا

ٹالنے سے وقت کیا ٹلتا رہا
آستیں میں سانپ اک پلتا رہا


موت بھی لیتی رہی اپنا خراج
کاروبار زیست بھی چلتا رہا


کوئی تو سانچہ کبھی آئے گا راس
میں ہر اک سانچے میں یوں ڈھلتا رہا


شہر کے سارے محل محفوظ تھے
تیرا میرا آشیاں جلتا رہا


زندگی میں اور سب کچھ تھا حسیں
اپنا ہونا ہی مجھے کھلتا رہا


بجھ گئے تہذیب نو کے سب چراغ
ایک مٹی کا دیا جلتا رہا


آرزوئیں خاک میں ملتی رہیں
نخل الفت پھولتا پھلتا رہا


بن کے سونے کا ہرن تیرا وجود
میرے محسوسات کو چھلتا رہا


رات بھر سونی رہی برہن کی سیج
اور آنگن میں دیا جلتا رہا


ذکر حق بھی تھا بجا ساحرؔ مگر
مے کشی کا دور بھی چلتا رہا