تعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے

تعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے
وہ دھاگے ٹوٹ گئے جو بہت پرانے تھے


ترے ملن سے ترا انتظار بہتر تھا
بنے نہ جسم جو سائے وہی سہانے تھے


سنائیں لفظوں کی سب سطح سنگ پر ٹوٹیں
تمہیں یہ وار تو پھولوں پہ آزمانے تھے


ہمارے بعد بھی رونق نہ آئی اس گھر پر
چراغ ایک ہوا کو کئی بجھانے تھے


بچا نہ کوئی مسافر بھی درمیان سفر
نہ جانے کون سے تیروں کے سب نشانے تھے


یہ بام و در پہ جو چمکی تھی دھوپ سی اے آہؔ
مری تلاش میں گزرے ہوئے زمانے تھے